مہاراشٹر میں آج بھی وہی آیا رام، گیا رام کا کھلا کھیل...ظفر آغا

سنتے ہیں مہاراشٹر میں ایکناتھ شندے کو توڑنے کے لیے پہلے مول تول ہوا۔ جب وہ تیار نہیں ہوئے تو ان کو ای ڈی کی دھمکی دے دی گئی

مہاراشٹر میں احتجاج کرتے شیو سینا کے حامی / یو این آئی
مہاراشٹر میں احتجاج کرتے شیو سینا کے حامی / یو این آئی
user

ظفر آغا

سنہ 1967 کا دور جس کو بھی یاد ہوگا اس کو ’آیا رام، گیا رام‘ بھی یاد ہوں گے۔ دراصل ان دنوں جس طرح مہاراشٹر حکومت کو گرانے کی کوشش ہو رہی ہے، اس پس منظر میں مجھے ’آیا رام، گیا رام‘ یاد آ گئے۔ اس وقت ہریانہ میں بھگوت دیال شرما کی سرکار تھی جو ایم ایل اے کے توڑ پھوڑ کے سبب خطرے میں آ گئی تھی۔ اس وقت تک ملک میں اینٹی ڈیفکیشن قانون نہیں بنا تھا۔ جب چاہے جو ایم ایل اے جدھر چاہے ووٹ کرے، اس کی ممبر شپ خطرے میں نہیں پڑتی تھی۔ ہریانہ کے ایک ایم ایل اے کا نام ہی ’گیا رام‘ تھا۔ حضرت نے اس موقع پر ایک ہی دن میں تین بار الگ الگ پارٹیوں کے لیے اسمبلی میں ووٹ کیا۔ ظاہر تھا کہ گیا رام ہر بار اپنا ووٹ بھنا رہے تھے۔ تب سے پیسہ لے کر اسمبلی میں ووٹ دینے والوں کا میڈیا میں نام ہی ’آیا رام، گیا رام‘ پڑ گیا۔

سنتے ہیں مہاراشٹر میں ایکناتھ شندے کو توڑنے کے لیے پہلے مول تول ہوا۔ جب وہ تیار نہیں ہوئے تو ان کو ای ڈی کی دھمکی دے دی گئی۔ صرف وہی نہیں بلکہ ان کے نزدیکی ممبران اسمبلی کے ساتھ بھی یہی نسخہ اپنایا گیا۔ اور پھر آپ دیکھ ہی رہے ہیں کہ اس وقت مہاراشٹر میں کیا تماشہ چل رہا ہے۔


لب و لباب یہ ہی ہے کہ سنہ 1967 سے اب تک سرکار گرانے کا وہی ’آیا رام، گیا رام‘ نسخہ چل رہا ہے۔ لیکن بی جے پی کا کمال یہ ہے کہ اس نسخہ کی کامیابی کے لیے ای ڈی کا بگھار بھی دیا جاتا ہے۔ ظاہر ہے کہ پھر کون نہیں ٹوٹے گا۔ ایسے حالات میں پورے ہندوستان میں کسی بھی ریاست میں کسی بھی اپوزیشن پارٹی کی حکومت پانچ پورے سال کرے تو بس کمال ہی ہے۔

اب ملک میں اینٹی ڈیفیکشن قانون ہے۔ کسی بھی پارٹی کو توڑنے کے لیے کم از کم دو تہائی ایم ایل اے یا ممبران پارلیمنٹ درکار ہوتے ہیں۔ لیکن آج بھی یہ کام ’آیا رام، گیا رام‘ اصول پر ہی ہوتا ہے۔ کھل کر مول تول ہوتا ہے۔ اتنا نقد چاہیے۔ پالا بدلنے کے لیے پیسہ کمانے والا اچھا منترالے چاہیے۔ کچھ نہیں تو کسی نقد وصولی والے بورڈ کی چیئرمین شپ دیجیے۔ اکثر ایک آدھ مہنگی کار کی بھی مانگ ہوتی ہے۔ یہ سب تو ہر کسی کو پتہ ہی ہے۔ لیکن بی جے پی نے اس فارمولے میں ’ای ڈی‘ کا بھی بگھار لگا دیا ہے۔ یعنی اگر کوئی ان سب لالچ کے بعد بھی نہیں ٹوٹ رہا ہے تو پھر اس کی فائل بنا کر اس کو دکھا دی جاتی ہے اور کہہ دیا جاتا ہے کہ اگر نہیں مانے تو ای ڈی سے نپٹنا پڑے گا۔


ایمرجنسی کی مذمت کیجیے، مگر آج کے حالات پر خاموشی کیوں!... ظفر آغا

گزشتہ روز 25 جون کو ایمرجنسی کی مذمت کا بازار گرم رہا۔ یقیناً ایمرجنسی کا نفاذ قابل مذمت ہے اور وہ آزاد ہندوستان کی تاریخ کا سیاہ باب تھا کیونکہ اس دور میں ملک کی جمہوریت پر سیاہ بادلوں کا سایہ تھا لیکن اِس دور کا کیا کیجیے کہ جب کوئی ایمرجنسی نافذ نہیں لیکن ایک سرکار کے خلاف ایک معمولی سے ٹوئٹ پر لوگوں کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے ٹھونسا جا رہا ہے۔ آج کے مقابلے ایمرجنسی کا دور کتنا خطرناک تھا اس سلسلے میں مجھے ایک واقعہ یاد آ رہا ہے۔ جی ہاں، ہم نے سنہ 1975 سے 1977 تک کا ایمرجنسی کا دور دیکھا تھا۔ ظاہر ہے کہ ہم نوجوان تھے۔ اس وقت الٰہ آباد یونیورسٹی میں پڑھ رہے تھے۔ اس نوجوانی میں ہمارا بہت وقت الٰہ آباد کافی ہاؤس میں گزرتا تھا۔ تمام نوجوانوں کی طرح ہم بھی اس وقت کی اندرا حکومت سے سخت ناراض تھے۔ ہم اور ہمارے دوست و احباب تقریباً روز ہی الٰہ آباد کافی ہاؤس میں اکٹھا ہوتے اور روز ہی یہ جا وہ جا گفتگو کا سلسلہ سیاست اور پھر حکومت کی مذمت تک پہنچ جاتا۔

ایسے ہی روز کے معمول کے دور میں ہم اور ہمارے دوست کافی ہاؤس میں بیٹھے تھے۔ وہی کافی کی خوشبو اور سگریٹ کے دھوئیں کے بیچ ہم سیاسی حالات پر محو گفتگو تھے۔ یکایک ہمارا ایک اور دوست آن پہنچا۔ اس کے ساتھ ایک اجنبی نوجوان اور تھا۔ اس نے نئے نوجوان کا ہم سب سے تعارف کروایا۔ پتہ چلا وہ حضرت پاکستان سے تشریف لائے ہیں اور ان کا تعلق ذوالفقار علی بھٹو کی پارٹی کے نوجوان وِنگ سے ہے۔ بھٹو اس وقت جیل میں تھے۔ ضیاء الحق کا دور تھا۔ بھٹو کی پارٹی پر پابندی لگی تھی۔ ہم سب نے ان کا گرم جوشی سے استقبال کیا۔ اور پھر اپنی سیاسی گفتگو میں محو ہو گئے۔ ہم کو یہ بھی یاد نہ رہا کہ ہمارے درمیان ایک باہر کا بھی شخص بیٹھا ہے۔


خیر، وہ نوجوان کافی دیر ہمارے ساتھ بیٹھا رہا اور خاموشی سے ہماری گفتگو سنتا رہا۔ پھر وہ جن کے ساتھ آیا تھا ان دونوں نے جانے کا ارادہ کیا۔ لیکن جانے سے قبل اس پاکستانی نوجوان نے ہم سب کو مخاطب کیا اور بولا ’اگر آپ برا نہ مانیں تو ہم ایک بات کہیں!‘ ہم سب ایک ساتھ ہی بول اٹھے، جی ہاں، جی ہاں، فرمائیے! اس نے ایک ٹھنڈی سانس بھری اور بولا: یہ کیسی ایمرجنسی ہے! ’اگر ہم اپنے ملک میں کافی ہاؤس میں بیٹھ کر اس طرح حکومت کے خلاف گفتگو کر رہے ہوتے تو فوج کے سپاہی اندر گھس کر کب کا ہم کو گرفتار کر چکے ہوتے۔‘ پہلے تو یہ سن کر ہم سب سناٹے میں آ گئے۔ پھر ایک دم سے سب ہی لوگ ہنس پڑے۔ وہ مسکرایا اور اپنے ساتھی کے ساتھ واپس چلا گیا۔

جی ہاں، آج ہندوستان میں ایک ٹوئٹ پر صحافی گرفتار ہو رہے ہیں۔ کوئی سینسر نہیں لیکن میڈیا حکومت کے قصیدوں سے بھرا ہے۔ عدلیہ کا لب و لہجہ بھی حکومت کا سا ہی نظر آ رہا ہے۔ اگر آپ احتجاج کریں تو بلڈوزر سے مکان مسمار کیے جا رہے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ پولیس احتجاج کرنے پر کانگریس کے دہلی ہیڈکوارٹر میں گھس کر احتجاج کرنے والوں کی پٹائی کر رہی ہے۔ یہ سب کچھ ایمرجنسی کے نفاذ کے بغیر ہو رہا ہے۔ اب آپ ہی فیصلہ کیجیے کہ اندرا گاندھی کی ایمرجنسی ایک عام آدمی کے لیے کتنی بری تھی۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 26 Jun 2022, 10:40 AM