جلیانوالہ باغ کا ہیرو ڈاکٹر سیف الدین کچلو

آج جلیانوالہ باغ سانحہ کی 103ویں برسی ہے، یہ سانحہ ملک کی آزادی میں سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے، جس کے روح رواں ڈاکٹر سیف الدین کچلو تھے، انہیں تاریخ ہند میں وہ مقام نہیں ملا جس کے وہ حقدار تھے۔

سیف الدین کچلو
سیف الدین کچلو
user

شاہد صدیقی علیگ

سیف الدین کچلو 15؍جنوری 1888ء کو عزیزالدین کچلو ساکن فرید آباد کے گھر پیدا ہوئے۔ ان کی والدہ کا نام جان بی بی تھا۔ کچلو نے اسلامیہ انٹر کالج سے ہائی اسکول پاس کرنے کے بعد اعلیٰ تعلیم کے لئے 1904ء میں محمڈن اینگلو اورینٹل کالج علی گڑھ میں داخلہ لیا۔ مزید تعلیم کے لیے1907ء میں لندن گئے، وہاں سے بی۔ اے و لاء پاس کرکے جرمنی سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔

سیاست کا جو بخار انہیں علی گڑھ میں چڑھا تھا۔ اس نے کیمریج میں ان کو پوری طرح جکڑ لیا، جہاں کچلو مختلف انجمنوں اور اداروں سے منسلک رہے۔ 1913ء میں وطن واپسی پر امرتسر میں وکالت شروع کر دی اور دو سال بعد 1915ء میں سادات بانو سے شادی کرلی، جو انڈین نیشنل موومنٹ کی سرگرم کارکن اور اردو شاعرہ بھی تھیں۔ کچلو لاء کی پریکٹس کے ساتھ ساتھ عملی سیاست میں بھی کود پڑے۔ انہوں نے خلافت اور عدم تعاون کی تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور آل انڈیا خلافت کمیٹی کے صدر بنے۔ انہوں نے ’’تحریکِ تنظیم‘‘ کے نام سے ایک انجمن شروع کی اور اردو میں’تنظیم‘کے نام سے ایک رسالہ بھی نکالا۔ انہوں نے ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنے کی کافی مساعی جمیلہ کی اور لوگوں سے مذہبی جذبات سے بالاتر ہوکر قومی تحریک میں شامل ہونے کی اپیل کی۔ انہوں نے شروع ہی سے آل انڈیا مسلم لیگ کے علیحدگی پسند نظریے کی مخالفت کی۔


1919ء میں امرتسر کے میونسپل کمشنر منتخب ہوئے۔ جابر اور انسانیت سوز رولٹ ایکٹ کی مخالفت پوری شدت سے کی۔ 30 ؍مارچ 1919ء کو تاریخی جلیانوالہ باغ میں ایک جلسہ عام کا انعقاد کیا، جس میں ہندوستانی قومی تحریک کے دوران رولٹ ایکٹ کے خلاف احتجاج کیا۔ وہاں انہوں نے برطانوی حکمرانوں پر تنقید کرتے ہوئے ایک جوشیلی تقریر کی، جس نے بر طانوی ایوانوں میں طوفان برپا کر دیا۔ برطانوی حکام نے مکر وفریب کا مظاہرہ کرتے ہوئے ڈاکٹر کچلو اور ڈاکٹر ڈاکٹرستیہ پال کو موجودہ صورتحال پر تبادلہ خیال کے لیے مدعو کیا، مگر انہیں محروس کرکے دھرم شالہ میں سلاخوں کے پیچھے بھیج دیا۔

جلیانوالہ باغ کا ہیرو ڈاکٹر سیف الدین کچلو

سیف الدین کچلو پنچاب کے ایک ممتاز لیڈر تھے، ان کی گرفتاری نے عوام کے جذبات مشتعل کر دئیے۔ 13؍اپریل 1919ء جلیانوالہ باغ میں بلاتفریق مذہب وملت غالباً بیس ہزار لوگ کچلو کی رہائی کے لئے جمع ہوگئے۔ صدرارتی کرسی پر ڈاکٹر سیف الدین کچلو کا پورٹریٹ رکھا گیا اور ان کے غائبانہ میں جلسہ کی صدارت لالہ کنہیا لعل نے کی۔ اس پر امن احتجاجی اجلاس میں تقریباً ساڑھے پانچ بجے جنرل ڈائر اپنے 150 ؍فوجیوں بشمول گورکھا، سکھ، سندھ رائفل لے کر آدھمکا اور بغیر کس وارننگ کے غیرمسلح اور پر امن بھیڑ پر بے دریغ فائرنگ شروع کر دی جو 20؍منٹ تک جاری رہی، اس دوران 1650؍رائونڈ گولی چلی۔ جب تک ایک بھی انسان نظر آیا جنرل ڈائر کی خون آشام فطرت ٹھنڈی نہیں ہوئی۔


برطانوی حکومت نے جلیانوالہ باغ سانحہ کی تحقیقات کے لیے 14؍ اکتوبر 1919ء کو ہنٹر کمیشن مقرر کیا۔ جس کے مطابق 381؍ افراد شہید ہوئے جن میں 220 ؍ہندو، 94 ؍سکھ اور 61 ؍مسلمان تھے اور 6 کی شناخت نہیں ہو سکی۔ خیال کیا جا رہا ہے کہ جن شہیدوں کی شناخت نہیں ہوسکی وہ کمسن بچے تھے۔ جبکہ 1200؍ لوگ زخمی تھے۔ کانگریس کمیٹی کے ذریعہ قائم کردہ رپورٹ کے مطابق مرنے والوں کی تعداد ایک تھی۔ عوام کے مطالبہ کے سامنے انگریزوں کوجھکنا پڑا اور کچلو کو 1919ء کے اواخر میں رہا کر دیا۔ جیل سے چھوٹتے ہی وہ سیاست میں مزید متحرک ہوگئے۔ ان کی اعلیٰ کارگزاریوں کے مدنظر 1924ء میں پنڈت نہرو کے ساتھ کچلو کو بھی کانگرس کا جنرل سکریٹری بنایا گیا۔ سیف الدین کچلو نے1921ء میں سوارج آشرم کی بنیاد رکھی۔ وہ 1929 میں لاہور میں منعقدہ انڈین نیشنل کانگریس کے اجلاس کے لیے استقبالیہ کمیٹی کے صدر بھی رہے۔

ڈاکٹر کچلو گاندھی کے تئیں احترام رکھتے تھے، لیکن وہ نیتا جی سبھاش چندر بوس کے زیادہ قریب تھے۔ کچلو کانگرس کے ان لیڈران میں سے ایک تھے جنھوں نے تقسیم ہند کے خلاف پُرزور آواز اٹھائی اور پورے ملک کا دورہ کیا، لیکن ان کی آواز نقارخانہ میں طوطی ثابت ہوئی۔ تقسیم کی تجویز قبو ل کرنے کے بعد کچلو کانگرس سے دل گرفتہ ہو گئے اور پارٹی سے کنارہ کشی اختیار کرلی۔ 1947ء تقسیم ہند کے بعد انہوں نے پاکستان جانا گوارہ نہیں کیا، لیکن ان کا گھر اور آشرم دونوں فرقہ وارانہ فساد کی بھیٹ چڑھ گئے۔ جس کے بعد وہ دہلی آگئے۔ بعد ازاں وہ کمیونسٹ پارٹی کی سرگرمیوں میں دلچسپی لینے لگے۔ 1952ء میں کچلو کو اسٹیلن امن اعزاز دیا گیا۔ کچلو جامعہ ملیہ اسلامیہ کے بانی رکن بھی تھے۔ جب ڈاکٹر کچلو بیمار ہوئے تو ان کے پاس علاج ومعالج کے لیے بھی پیسے نہیں تھے، لیکن جیسے ہی پنڈت نہرو کو اس بات کا علم ہوا تو وہ خود کچلو کو اسپتال لے کر گئے۔ تحریک آزادی ہند کا عظیم رہبر 9؍اکتوبر 1963ء کو انتقال کر گیا۔ کچلو نے برطانوی ہندوستان میں 14 ؍سال کی سخت قیدوبند کی صعوبیتں برداشت کیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔