یاترا کا آسمان اور مستقبل کے چیلنجز... گنیش دیوی

آر ایس ایس اور بی جے پی کی طرف سے کھڑی کی گئی تیسری بڑی دیوار پر بھی یاترا کو توجہ دینا ہوگی۔ یہ دیوار لوگوں کے درمیان ان کی متنوع برادریوں، زبانوں، ثقافتوں اور تاریخ کے بارے میں ہے۔

<div class="paragraphs"><p>بھارت جوڑو یاترا / @INCIndia</p></div>

بھارت جوڑو یاترا / @INCIndia

user

گنیش دیوی

بھارت جوڑو یاترا سب کے لیے غیر معمولی طور پر کامیاب نظر آ رہی ہے اور اس کی کامیابی اور ناکامی پر بحث کرنا اب پرائم ٹائم ٹی وی کا پسندیدہ مشغلہ ہے۔ ان میں سے زیادہ تر یکطرفہ ہی ہیں، پھر بھی ان سب کو لاٹھی سے ’منصوبہ بند‘ کہہ کر مسترد کرنا مناسب نہیں ہوگا۔ کم از کم یہ سمجھنے کی تو کوشش کی جا رہی ہے کہ اس کا کتنا اور کیا اثر ہوا ہے۔ صرف ٹی وی مباحثوں میں ہی نہیں سیاسی حلقوں میں بھی اس کا چرچا ہو رہا ہے۔ عام آدمی یہ بھی جاننا چاہتا ہے کہ وہ کیا چیز ہے جو اسے بالکل نئی شروعات کے طور پر پیش کرتی ہے۔

اب یہ واضح ہے کہ اس کی منصوبہ بندی انتخابی فوائد کے لیے نہیں کی گئی۔ ہماچل اور گجرات کے انتخابات سے یہ واضح ہو جانا چاہیے کہ اس کا بنیادی مقصد انتخابی سیاست نہیں تھا۔ یہ بھی نہیں کہا جا سکتا کہ مقصد اپوزیشن کو متحد کرنا تھا۔ ہم ان فضائی قیاس آرائیوں کے بارے میں کیا کہہ سکتے ہیں کہ یہ سب راہل گاندھی کی سیاسی شبیہ کو چمکانے کے لیے تھا۔ پھر بھی سوال یہ ہے کہ انتخابی نتائج پر اثر انداز ہونا نہیں تو مقصد کیا ہے؟ اور اگر واقعی کوئی اور مقصد ہے تو سامنے کیوں نہیں آتا؟ یہ سوال جس طرح لوگوں کے ذہنوں میں بغیر کسی بدنیتی کے گھر کر گیا ہے، اس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔


جواب یہ ہے کہ یاترا کا نام 'بھارت جوڑو' (پھر سے جوڑنا) اپنے آپ میں مقصد بتانے کے لیے کافی ہے؟ تاہم یہ واضح کرنا بھی ضروری ہے کہ دوبارہ رابطہ قائم کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ اور اگر واقعی اس کی بہت زیادہ ضرورت ہے تو اس کو سمجھنے کے لیے آر ایس ایس اور بی جے پی کی طرف سے پیدا کردہ ٹکڑے ٹکڑے کی نوعیت کو دیکھنا اور سمجھنا بہت ضروری ہے۔ ہندوؤں اور مسلمانوں (عیسائیوں کے ساتھ ساتھ) کے درمیان اعتماد کا شدید بحران، بہت امیر اور غریب کے درمیان بڑھتی ہوئی خلیج آسانی سے نظر آتی ہے۔ یاترا کے دوران راہل گاندھی نے اپنی تقریروں میں بار بار اس بات کی نشاندہی بھی کی ہے۔

آر ایس ایس نے مزید تین تفرقہ انگیز کام کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ یہ ایک خاص طور پر ڈیزائن کردہ 'ذہنی دیوار' کو کھڑا کرنے کے مترادف ہے۔ تین دیواریں ہیں ایک، چیزوں کی حقیقت اور ان کے بارے میں پھیلی ہوئی معلومات کے درمیان۔ میڈیا کو اس تقسیم کا آلہ کار بنایا گیا ہے۔ دوسرا، کانگریس لیڈروں، زندہ اور مردہ کے بارے میں بڑے پیمانے پر منفی تشہیر۔ تاریخ گواہ ہے کہ ماضی میں کبھی کسی سیاسی جماعت نے اپنی حریف پارٹی کے لیڈروں کو بدنام کرنے کے لیے اتنی توانائیاں صرف نہیں کیں اور نہ ہی اتنا زہر اگلا۔ تیسرا، آر ایس ایس نے جو دیوار کھڑی کی ہے وہ ہندوستان کے لوگوں اور اس کے ماضی کے بارے میں ہے۔ یاترا نے پہلی دو دیواروں کو کامیابی سے گرایا ہے۔ بی جے پی نے گاندھی خاندان کے تئیں جو بھرم پھیلایا تھا وہ اب ماضی کی بکواس ثابت ہوئی ہے۔ راہل گاندھی پر نہ صرف پارٹی کارکنوں نے بلکہ کانگریس کے باہر سے بھی جس طرح کے اعتماد اور پیار کی بارش کی، اس نے نہ صرف پپو جیسے گھٹیا القاب اور ان کے تئیں پھیلائی گئیں افواہوں کو ختم کیا ہے، بلکہ بی جے پی کے ذریعہ بنائے گئے پروپیگنڈے نے انہیں پہلے سے کہیں زیادہ عظیم بنا دیا ہے۔ جس طرح سے جھوٹ کی دیوار گرائی گئی ہے، اب اسے دوبارہ کھڑا کرنا ممکن نہیں ہے۔


یہ صرف تیسری بلند دیوار ہے جس پر یاترا کو ابھی بھی توجہ دینا ہوگی۔ یہ لوگوں کے درمیان کھڑی دیوار ہے۔ ان کی متنوع برادریوں، زبانوں، ثقافتوں اور تاریخ کی من گھڑت تشریح کے بارے میں ہے۔ آر ایس ایس کی 'قوم پرستی' کی پوری عمارت ماضی کے کسی وقت کے شاندار ہندو بھارت کے تصور پر مبنی ہے۔ حکومت اس خیال کو فروغ دینے کے لیے ہر ممکن کھاد اور پانی دے رہی ہے۔ نتیجے کے طور پر ہندوستان کو اپنے ماضی کے بارے میں جو کچھ بھی معلوم تھا، اسے یورپی اسکالرز اور مورخین کی شیطانی سازش کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔ یہاں یہ بتانا دلچسپ ہوگا کہ حال ہی میں چنئی میں منعقدہ انڈین ہسٹری کانگریس میں اس کے صدر پروفیسر کیسوان ویلاتھوٹ کو کہنا پڑا کہ واجپائی حکومت نے انڈین کونسل آف ہسٹوریکل ریسرچ کی طرف سے شائع کردہ ان دستاویزات کو چھپانا شروع کر دیا تھا، جن سے آر ایس ایس کی نوآبادیاتی طاقت کے ساتھ ملی بھگت نظر آتی تھی۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت ہندوستان کو جمہوریت کی ماں ہونے کے بے بنیاد دعوے کر رہی ہے، جبکہ جس کتاب کا حوالہ پیش کیا جا رہا ہے وہ واضح طور پر نظامِ اشرافیہ کے بارے میں بات کرتی ہے نہ کہ جمہوریت کی (انٹرویو دی ہندو، 30 دسمبر 2022)۔

اس حوالے سے نریندر مودی اور ایم کے اسٹالن کے درمیان حال ہی میں ہونے والی تکرار دلچسپ ہے۔ ایسا شاذ و نادر ہی ہوتا ہے جب تاریخ کو قومی روزناموں میں صفحہ اول کی سرخیاں ملتی ہیں۔ یہ سب 2022 کے آخری ہفتے میں ہوا۔ حال ہی میں بنائے گئے 'ویر بال دیوس' پر خطاب کرتے ہوئے نریندر مودی نے مبینہ طور پر کہا تھا کہ من گھڑت تاریخ احساس کمتری کو جنم دیتی ہے۔ ان کا خطاب اس بارے میں تھا کہ ہندوستان کو کس طرح خود اعتمادی سے بھر پور ہونا چاہئے، اور ان کے دور حکومت میں جو 'نیو انڈیا' تشکیل پائے گا وہ 'اپنے حقیقی ورثے کو بحال کرنے کے لیے گزشتہ دہائیوں کی غلطیوں کو کیسے درست کر رہا ہے۔ غورطلب ہے کہ اگلے ہی دن چنئی میں انڈین ہسٹری کانگریس کا اجلاس ہونا تھا۔ ایم کے اسٹالن اس کے 81ویں اجلاس کا افتتاح کرتے ہوئے ناراض ہوگئے۔ انھوں نے کہا ’’تاریخ کو مسخ کرنا آج ملک کو درپیش ایک بڑا خطرہ ہے۔‘‘ انہوں نے کہا ’’تاریخ کا مطالعہ سائنسی طریقوں پر مبنی ہونا چاہیے۔ 'کچھ لوگ' اس وہم کو تاریخ سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں جس پر کسی کو اعتبار نہیں کرنا چاہیے، اب 'کچھ لوگ' سے کیا مراد تھی شاید وضاحت کی ضرورت نہیں۔ انہوں نے 1994 کے نو ججوں پر مشتمل سپریم کورٹ کی بنچ کے اس فیصلے کا بھی حوالہ دیا جس نے سیکولرازم کو ہندوستانی آئین کے بنیادی تانے بانے کے طور پر بیان کیا اور کہا ’’ہم سب کو ایک سیکولر معاشرہ بنانے کی کوشش کرنی چاہیے۔‘‘


آخر سیکولرازم کو دفن کرنا ہی ہندوتوا کی سیاست کرنے والوں کی دلی خواہش ہے۔ یہ سیکولرازم کو جدید معاشرے کی بنیاد نہیں مانتا۔ ہندوتوا کی خوبیوں پر زور دینے کے لئے یہ تاریخ کے اس زاویہ پر زور دیتا ہے جو مکمل طور پر اس کی اپنی تخلیق ہے۔ اس نقطہ نظر سے صرف ہندو، جین اور بدھ ہی 'حقیقتاً' ہندوستان سے تعلق رکھتے ہیں اور 'دیگر سبھی' کو ’باقی سبھی‘ لوگوں کی طرح رہنا سیکھ لینا اور قبول کر لینا چاہیے۔ بی جے پی کو اس بات سے کوئی سروکار نہیں کہ ہندوستان کا ایک آئین بھی ہے جو تمام شہریوں کے ساتھ 'برابر شہری' جیسا سلوک کرنے کی بات کرتا ہے۔ بی جے پی حکومت نے آئین کے اس بنیادی اصول کو تباہ کرنے کے لیے ہر حربہ اپنایا ہے۔ اور جھوٹ کی بنیاد پر تخلیق کی گئی خیالی تاریخ کی دیوار کو وہ اپنے سیاسی خلا کی حد بندی کرنے کے لیے کھڑا کرنا چاہتا ہے۔ یاترا کو اس دیوار کو بھی گرانا ہے۔ یعنی اس یاترا کو جو ایک مشن کے طور شروع ہوئی تھی، اسے ‘تیرتھ یاترا‘ کے طور پر ختم ہونے کے طویل عرصے بعد بھی پورے زور و شور کے ساتھ جاری رکھا جانا چاہیے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔