’ہنسنے کا مطلب پھنسنا‘ نہیں ہوتا!

وطن عزیز میں خواتین کی متضاد صورتحال انتہائی تشویشناک ہے۔ یہ بھی سچ ہے کہ ایک طرف خاتون کو جہاں دیوی کے طور پر پوجا جاتا ہے وہیں دوسری طرف اسے جہیز کے لیے جلایا جاتا ہے۔

خواتین کو بچانے کی مہم
خواتین کو بچانے کی مہم
user

نواب علی اختر

ہندوستان 21 ویں صدی میں ایک عالمی طاقت کے طور پر ابھر رہا ہے لیکن آبادی کا نصف حصہ یعنی خواتین اب بھی مسائل کا سامنا کر رہی ہیں اور زندگی اورعزت کے لیے جدو جہد کر رہی ہیں۔ زندگی کے ہر شعبے میں خواتین کو مختلف رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور فوری مسائل سے نمٹنا پڑتا ہے۔ زندگی کا صحیح توازن آج کی نسل کی خواتین سے سیکھا جا سکتا ہے۔ خواتین کا استحصال ایک انسان کے طور پر حقوق کی پہچان میں مشکلات پیدا کرتا ہے۔ معاشرے میں خواتین کو خاندان کی کمائی کرنے والی، دیکھ بھال کرنے والی، ماں، بیوی، بیٹی اور سماج کے لئے خدمات فراہم کرنے والی سمیت متعدد کردار ادا کرنے ہوتے ہیں۔ اس حقیقت کے باوجود کہ ملک کی ترقی میں خواتین کا حصہ برابر ہے لیکن پھر بھی صنفی بنیادوں پر امتیاز برتا جاتا ہے۔

وطن عزیز میں خواتین کی متضاد صورتحال انتہائی تشویشناک ہے۔ یہ بھی سچ ہے کہ ایک طرف خاتون کو جہاں دیوی کے طور پر پوجا جاتا ہے وہیں دوسری طرف اسے جہیز کے لیے جلایا جاتا ہے۔ لڑکوں کو بڑھاپے میں والدین کے لیے عظیم سہارے کے طور پر دیکھا جاتا ہے جو خاندانی سلسلہ کو آگے بڑھانے کے لیے ضروری سمجھا جاتا ہے۔ اس کے برعکس لڑکیاں ناپسندیدہ ہیں لیکن خاندان کی ’عزت‘ کی علامت ہیں۔ لڑکیوں یا خواتین کے لیے یہ ایک دوہرا بندھن ہے، کیونکہ انہیں نہ صرف معاشرے میں اس خاندان کی ’عزت‘ کو برقرار رکھنا ہوتا ہے بلکہ جب زیادتی، تشدد، عصمت دری، کم عمری کی شادی جیسے مظالم ہوتے ہیں تو چپ رہنا پڑتا ہے۔ چند معاملات میں جن میں وہ اپنی خاموشی توڑتی ہیں، اس کے نتائج بہت بڑے ہوتے ہیں۔


حکومت کی طرف سے تو ہمیشہ دیگر خوش کرنے والے نعروں کے ساتھ ’بیٹی پڑھاو، بیٹی بچاو ‘کا نعرہ بھی لگایا جاتا ہے اور اس کی شان میں قصیدے بھی پڑھے جاتے ہیں پھر بھی صنف نازک کی حالت میں کوئی بہتری ہوتی نظر نہیں آرہی ہے۔ اس کی وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ جب عالمی سطح پرملک کی شان میں چار چاند لگانے والی خواتین کھلاڑیوں کی حکمراں طبقے کی نظر میں کوئی قدرو منزلت نہیں ہے تو عام سماج کی بہن بیٹیوں کا کون پرسان حال ہوگا۔ مجموعی طور پر دیکھا جائے تو مرکز اقتدار سے لے کر پدرانہ سماج کی سطح پر بھی خواتین کو ایک ’سامان‘ کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ حد تو یہ ہوگئی ہے کہ کسی وقت یا موقع پراگر لڑکی نے کسی کو مسکرا کر دیکھ لیا، تو وہ جناب فوری یہ تنیجہ آخذ کر لیتے ہیں کہ لڑکی ان پر فدا ہوگئی ہے۔

انسان تو پھول، بادل، موسم، اپنے پسندیدہ جانور، چھوٹے بچوں، قوسِ قزح اور کسی بھی چیز کو مسکرا کر دیکھ سکتا ہے، لیکن اس کا یہ مطلب تو بالکل نہ ہوا کہ اگر کسی ’حضرت‘ کو مسکرا کر دیکھ لیا تو وہ خاتون یا لڑکی اس پر فریفتہ ہوگئی ہے! سماج کو ’ہنسی تو پھنسی‘ والی مضحکہ خیز اور ہتک آمیز سوچ میں تبدیلی لانے کی اشد ضرورت ہے۔ ایسا بھی تو ہو سکتا ہے کہ وہ آپ کو بے وقوف سمجھ کر یا آپ کی سوچ کو ہنس کر ٹالنا چاہتی ہو یا پھر آپ کو ہنس کر نظر انداز کر رہی ہو یا آپ سے اپنی جان چھڑانا چاہتی ہو۔ خواتین کے خلاف ایسے رویے ہمارے معاشرے کا مشترکہ مسئلہ ہی نہیں، بلکہ المیہ ہیں اور یقیناً یہ ’ہنسی تو پھنسی‘ والی سوچ اور ذہنیت تو براہ راست جنسی ہراسگی کے زمرے میں بھی آتی ہے۔ ایسی سوچ کا دائرہ ہمارے حلقہ احباب سے شروع ہو کر تعلیمی اداروں، عوامی مقامات اور تفریح گاہوں تک پھیلا ہوا ہے۔


خواتین کے خلاف ہراسمنٹ یا جنسی تشدد ایک سنگین مسئلہ ہے، جو ہر عمر، نسل اور سماجی اقتصادی پس منظر کی خواتین کو متاثر کرتا ہے۔ بین الاقومی رپورٹس اور اعداد و شمار کے مطابق ہر 5 میں سے ایک عورت اپنی زندگی میں جنسی تشدد کا سامنا کرتی ہے۔ خواتین کے خلاف جنسی تشدد ایک سنگین مسئلہ ہے، جو ہماری توجہ اور مثبت اقدامات کا متقاضی ہے۔ اس مسئلے کو حل کرنا، شعور اجاگر کرنا، بیداری پیدا کرنا اور ایک ایسا معاشرہ بنانے کے لیے اجتماعی طور پر کام کرنا ہماری اولین ذمہ داری ہے، جہاں ہر عورت خود کو محفوظ، عزت دار اور بااختیار محسوس کرے۔ ہمیں صنف نازک کے مرتبے اور کسی شخص کے حدود کا احترام کرنے کی اہمیت کو سمجھنا چاہیے۔ یہ اصول زور دیتا ہے کہ کسی بھی قسم کی ایسی سرگرمی ناقابل قبول ہے اور یہ ’تشدد‘ کی کارروائی میں شمار کی جاتی ہے۔

خواتین کے خلاف جنسی ہراسانی اور تشدد کے خاتمے کے لیے ایک کثیر جہتی نقطہ نظر کی ضرورت ہوتی ہے، جس میں تعلیم، پالیسی میں تبدیلیاں اور سماجی رویوں میں تبدیلی شامل ہو۔ ایسی ثقافت کو فروغ دینا بہت ضروری ہے، جو صنفی مساوات کو فروغ دے۔ نقصاندہ دقیانوسی تصورات کو چیلنج کرے اور باہمی احترام اور رضا مندی پر مبنی صحت مند تعلقات کی حوصلہ افزائی کرے۔ ایسے رویوں اور سوچ کو تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ لیکن اس کے لیے یقیناً حکومت سے لے کرسماج تک مشترکہ اور سنجیدہ کوشش کی ضرورت ہے! سب سے اہم بات لوگوں کو خصوصاً نوجوان نسل کو یہ بتانا اور سکھانا ہے کہ کسی کا تہذیب سے احترام سے بات کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ اس سے فری ہوجائیں یا پھر ’ہنسے‘ کا مطلب ’پھنسنا‘ نہیں ہوتا۔


اس رویے اور سوچ کے خاتمے کے لیے ضروری ہے کہ مرد حضرات کو یہ بات باور کرائی جائے کہ اس سے قطع نظر کہ لڑکی نے کیا پہنا ہے، وہ جاب کرتی ہے یا پڑھتی ہے یا گھر پر رہتی ہے، وہ جو کوئی بھی ہے اس کا احترام کیا جائے اور اس کے اچھے رویے سے بات چیت کرنے اور ہنسنے بولنے کو کوئی اور معنی نہ پہنائے جائیں۔ جنسی تشدد کا خاتمہ ایک پیچیدہ مسئلہ ہے، لیکن یہ ایک ایسا مسئلہ ہے، جس سے نمٹنے کے لیے ہم سب کام کر سکتے ہیں۔ لوگوں کو یہ سکھا کر کہ ’ہنسنے کا مطلب پھنسنا‘ نہیں، ہم ایک ایسی دنیا بنانے میں مدد کر سکتے ہیں جہاں ہر کوئی محفوظ اور قابل احترام ہو۔ ہمیں اس سوچ اور ذہنیت کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے، اس جنسی تشدد کے کلچر کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں اپنے بچوں کو رضامندی اور احترام کے بارے میں سکھانے کی ضرورت ہے۔

ہمیں ہراسانی سے متاثرہ خواتین اور لڑکیوں کے بارے میں غلط قسم کے دقیانوسی تصورات کو چیلنج کرنے کی ضرورت ہے اور ساتھ ہی ہمیں لوگوں کو ان کے اعمال کے لیے جواب دہ ٹھہرانے کی ضرورت ہے۔ حکومت کے لیے ضروری اور سب سے زیادہ توجہ طلب اور اہمیت کی حامل بات یہ ہے کہ وہ جنسی تشدد کے واقعات میں زندہ بچ جانے والی خواتین کو بااختیار بنائے، مراعات فراہم کرے اور امدادی خدمات فراہم کرے، اس میں طبی دیکھ بھال، مشاورت، قانونی مدد اور محفوظ جگہوں تک رسائی شامل ہے، جہاں وہ اپنی زندگیوں کو نئے سرے سے شروع کر سکتے ہیں، ان کی زندگیوں کی بحالی اور شخصیت کی تعمیر میں مدد کر سکتے ہیں۔ ایسا ہرگز نہیں ہونا چاہئے کہ ملک کا نام روشن کرنے والی بیٹیاں جب انصاف کے لیے جنتر منتر پر دھرنا دیں تو ان پر لاٹھیاں برسائی جائیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔