قرض کے جال میں پھنستا جا رہا گجرات، جوابدہی سے بھاگ رہی حکومت، کیا یہی ہے ’بی جے پی ماڈل‘؟

گجرات میں 27 سال سے بی جے پی حکومت قائم ہے، ریاست قرض کے جال میں پھنستا جا رہا ہے، حکومت اس کی جوابدہی سے بچ نہیں سکتی، اسے بتانا ہی ہوگا کہ ریاست کا قرض لگاتار بڑھتا کیوں جا رہا ہے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

آر کے مشرا

سنسکرت کی کہاوت ہے ’رنم کرتوا گھرتم پیبیت، یاوت جیویت سکھم جیویت‘۔ اس کا مطلب ہے کہ جب تک زندگی ہے سہولیات اور آسانیوں کے ساتھ جیو، بھلے ہی اس کے لیے قرض لینا پڑے۔ اس کہاوت پر گجرات پوری طرح کھرا اترا ہے۔ جب بی جے پی پہلی مرتبہ 1995 میں گجرات میں برسراقتدار ہوئی تھی، اس وقت ریاست کا عوامی قرض تقریباً 10 ہزار کروڑ روپے تھا۔ 02-2001 میں جب نریندر مودی وزیر اعلیٰ بنے تب تک قرض 45301 کروڑ روپے ہو چکا تھا۔ 2014 میں جب مودی دہلی کی گدی سنبھالنے کے لیے روانہ ہوئے تو سی اے جی کے مطابق ریاست کا قرض 2.21 لاکھ کروڑ روپے تھا۔

اب آئیے 22-2021 میں۔ ریاست کا مجموعی قرض 3.20 لاکھ کروڑ روپے کی اعلیٰ سطح پر پہنچ گیا ہے جو رواں سال (23-2022) کے سالانہ بجٹ 2.43 لاکھ کروڑ روپے سے بھی زیادہ ہے۔ اتنا ہی نہیں، ریاست جس انداز میں آگے بڑھ رہا ہے، اس کے مطابق اس کا عوامی قرض 25-2024 کے آخر تک بڑھ کر 4.49 لاکھ کروڑ روپے ہو جانے کا اندازہ ہے۔


ریاست کے وزیر مالیات کانو دیسائی نے اس سال مارچ میں بجٹ پیش کرتے ہوئے قرض کے اعداد و شمار پیش کیے، لیکن انھوں نے اس بات کا کوئی تذکرہ نہیں کیا کہ ریاست قرض کے جال میں کس طرح پھنستا جا رہا ہے۔ اسے آئندہ 7 سالوں میں 3 لاکھ کروڑ روپے سے زیادہ کے قرض کا 61 فیصد ادا کرنا ہے۔ سی اے جی کی اسمبلی میں پیش رپورٹ میں اندازہ ظاہر کیا گیا ہے کہ ریاست کو 2028 تک 1.87 لاکھ کروڑ روپے ادا کرنے ہوں گے۔ اسی رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ جہاں ریاست کا مجموعی ریاستی گھریلو پیداوار (جی ایس ڈی پی) 21-2016 کے درمیان 9.19 فیصد کی کمپاؤنڈ سالانہ شرح اضافہ (سی اے جی آر) سے بڑھا ہے، وہیں عوامی قرض 11.49 فیصد کی شرح سے زیادہ ہوا ہے۔

ریاست کے عوامی سیکٹر کے اداروں کا خسارہ بڑھ کر 30400 کروڑ روپے ہو گیا ہے اور سی اے جی نے اس بات کی طرف بھی دھیان دلایا کہ حکومت گجرات اسٹیٹ پٹرولیم کارپوریشن (جی ایس پی سی) اور گجرات سڑک ٹرانسپورٹ کارپوریشن (جی ایس آر ٹی سی) جیسے بلدیوں میں سرمایہ کرنا جاری رکھے ہوئے ہے جن کی حالت خستہ ہے۔ جی ایس پی سی میں 1000 کروڑ روپے اور جی ایس آر ٹی سی میں 469 کروڑ روپے کا سرمایہ کیا گیا جن کی نیٹ ورتھ نگیٹو ہے۔ گجرات میں ریاستی حکومت کی 97 عوامی یونٹ، 64 سرکاری کمپنیاں، 29 حکومت کے کنٹرول والی کمپنیاں اور 4 آئینی کارپوریشن ہیں۔ ہر دو سال پر گجرات گلوبل انویسٹرس سمٹ کے انعقاد سے نریندر مودی کی شبیہ چمکانے میں مدد ملی اور وہ ’وکاس پرش‘ بن کر قومی سیاست میں پہنچ گئے۔ 2003 میں پہلے گجرات گلوبل انویسٹرس سمٹ سے لے کر 2015 میں منعقد ساتویں سمٹ کے بارے میں ریاستی حکومت نے دعویٰ کیا کہ اس نے 84 لاکھ کروڑ روپے کا سرمایہ عزائم حاصل کرنے میں کامیابی پائی ہے۔ اس میں سے 20.83 لاکھ کروڑ روپے کا تعاون تو اکیلے 2011 سمیلن کا رہا۔


2017 میں آٹھویں سمٹ کے دوران اس وقت کے چیف سکریٹری جے این سنگھ نے دعویٰ کیا کہ اب تک کیے گئے وعدوں میں سے 66 فیصد عمل میں آ چکے ہیں۔ حالانکہ اس اعداد و شمار پر تب کسی نے کوئی سوال نہیں اٹھایا، لیکن یہ بے معنی تو لگ ہی رہے تھے۔ خاص طور پر اس بات کو دھیان میں رکھتے ہوئے کہ 18-2017 میں ہندوستان کی جی ڈی پی 131.80 لاکھ کروڑ روپے تھی۔ جب ان اعداد و شمار پر اِدھر اُدھر بات کی جانے لگی تو آخر کار ریاستی حکومت نے آسمانی دعوے کرنے سے توبہ کر لی۔ اس نے سرمایہ عزائم کو روپیوں کے ضمن میں بتانا بند کر دیا اور اب اس سمٹ سے ’سرمایہ کار‘ لفظ کو بھی ہٹا دیا گیا ہے۔

ریاستی حکومت نے جو ہوائی دعوے کیے، اس کی قلعی اسی کے ایک سرکاری محکمہ نے کھول دی۔ریاست کے معاشی و اسٹیٹسٹکس ڈائریکٹوریٹ نے اعتراف کیا کہ 2003 اور 2011 کے درمیان کیے گئے عزائم میں سےصرف 8 فیصد ہی زمین پر اتر سکیں۔ مالیاتی آبزرورس اور ماہرین نے یہ بھی بتایا کہ 2000 سے 2016 کے درمیان مہاراشٹر نے ہندوستان کی مجموعی سرمایہ کاری کا 30 فیصد حاصل کیا تھا، جب کہ گجرات نے مہاراشٹر میں کی گئی سرمایہ کاری کے 10 فیصد سے کچھ ہی زیادہ حاصل کرنے میں کامیابی پائی تھی اور وہ پانچویں مقام پر رہا تھا۔ صنعتی پالیسی اور پروموشن محکمہ (ڈی آئی پی پی) کے ایک مطالعے کے مطابق 2000 اور 2013 کے درمیان ہندوستان میں جتنا ایف ڈی آئی آیا، اس میں گجرات کی حصہ داری صرف 4 فیصد تھی۔ اس مدت کے دوران پورے ملک میں 9.1 لاکھ کروڑ کا ایف ڈی آئی آیا اور اس میں گجرات کو صرف 39000 کروڑ ملے۔ گجرات کا حصہ درحقیقت 2011 میں 3.4 فیصد سے گھٹ کر 2012 میں 2.9 فیصد اور 2013 میں 2.4 فیصد ہو گیا۔


بی جے پی گجرات میں لگاتار 27 سال سے برسراقتدار ہے۔ ان میں سے 13 سال تو نریندر مودی ہی وزیر اعلیٰ تھے۔ 2000 اور 2010 کے درمیان فی کس صحت پر خرچ میں ریاست چوتھے سے پھسل کر گیارہویں مقام پر آ گیا اور اس مدت کے دوران صحت پر ریاست کا مجموعی خرچ 4.39 فیصد سے گھٹ کر 0.77 فیصد رہ گیا۔ 2020 میں شائع ایک رپورٹ میں گجرات میں اسپتالوں کی بھی پول-پٹی کھل گئی۔ اس میں کہا گیا تھا ’’فی ہزار لوگوں پر ملک میں اسپتال بستروں کا اوسط 0.55 ہے جبکہ گجرات میں یہ محض 0.33 ہے۔ گجرات میں پرائمری ہیلتھ سنٹرس کی مجموعی تعداد بہار سے کم ہے جب کہ بہار میں دیہی سرکاری اسپتالوں کی تعداد صرف ایک تہائی ہے۔ اس کے علاوہ بڑی تعداد میں سرکاری اسپتالوں کی نجکاری کر دی گئی ہے۔ ایک مضبوط عوامی صحت بنیادی ڈھانچے کی غیر موجودگی کے ساتھ ساتھ تعلیم کے لیے سرمایہ کاری میں بھی گراوٹ آئی ہے۔ گجرات اپنی آمدنی کا 2 فیصد سے بھی کم تعلیم پر خرچ کرتا ہے۔ نتیجتاً ریاست کے تقریباً 45 فیصد ورک فورس ناخواندہ ہیں، یا انھوں نے صرف پانچویں درجہ تک پڑھائی کی ہے۔‘‘ یہ بات ریاست میں وزراء کے تعلیمی پس منظر سے بھی ثابت ہوتی ہے۔

ایسو سی ایشن فار ڈیموکریٹک ریفارمس نے 2017 کی ایک رپورٹ میں بتایا کہ گجرات کے 9 وزراء نے درجہ 5 سے 12 تک پڑھائی کی ہوئی تھی، جب کہ 9 کی تعلیم گریجویٹ یا اس سے زیادہ کی تھی۔ 2021 میں سبھی وزراء کے بدلے جانے کے بعد میڈیا رپورٹس میں کہا گیا کہ بھوپیندر پٹیل کابینہ میں 6 وزراء نے ہایر مڈل امتحان پاس کیا ہے جب کہ 6 دیگر کی تعلیم درجہ 10 تک ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


/* */