عظیم مجاہدِ آزادی: شہید نواب خان بہادر خاں...یوم شہادت پر خصوصی پیش کش

خان بہادر خاں برطانوی حکومت کے سابق جج اور حافظ رحمت خان کے خاندانی فرد کی حیثیت سے دوہری پنشن پاکر پرتعش زندگی گزار رہے تھے لیکن ملک و قوم کی خاطر کمپنی کے خلاف پرچم بلند کر دیا اور جام شہادت نوش کیا

<div class="paragraphs"><p>شہید نواب خان بہادر خاں</p></div>

شہید نواب خان بہادر خاں

user

شاہد صدیقی علیگ

بعض مورخین پہلی ملک گیر تحریک آزادی 1857 کے پیشتر رہنماؤں پر انگشت نمائی کرتے ہیں کہ وہ اپنی ذاتی شکایات اور مفادات کی خاطر ایسٹ انڈیا کمپنی سے ٹکرائے تھے، مگر ان انقلابیوں میں ایسی بھی شخصیات شامل تھیں جنہیں نہ صرف انگریز حکام بڑی قدر و منزلت سے دیکھتے تھے بلکہ انتظامی امور میں ان کی رائے کو حرف آخر سمجھتا جاتا تھا۔ ایسے ہی ایک مرد مجاہد شہید نواب خان بہادر خاں بھی تھے جو برطانوی حکومت کے سابق جج اور حافظ رحمت خان کے خاندانی فرد کی حیثیت سے دوہری پنشن پاکر پرتعش زندگی بسر کر رہے تھے لیکن ملک و قوم کی خاطر کمپنی کے خلاف پرچم بلند کر دیا اور جام شہادت نوش کیا۔

غیر متوقع ا نقلابِ میرٹھ کی خبریں سن کر بریلی کے برطانوی افسران میں بے چینی پیدا ہو گئی۔ حالات بھانپ کر کمشنر الیگزینڈر ر نے خان بہادر خان کو بلاکر انتظامیہ سنبھالنے کو کہا جس کو انہوں نے خارج کر دیا ۔ بہرکیف بریلی میں طے شدہ مورخہ31مئی 1857ءکو طبل انقلاب بجا اور دیکھتے ہی دیکھتے برطانوی عمل داری ریت کے ذروں کی مماثل اڑ گئی۔ الیگزینڈرکمشنر اور مجسٹریٹ سمیت تمام انگریز جان بچاکر نینی تال بھاگے۔


خان بہادر خان نے مغل صوبہ دار کی حیثیت سے عنان سنبھالی۔ فوج میں بھرتی کا آغاز ہوا، توپوں اور سکوں کی ڈھلائی کا کام شروع ہوا، تھانے اور تحصیلیں قائم ہوئیں، انقلابی انتظامیہ عوام میں جوش، اتحاد اور مالی تعاون حاصل کرنے کے لیے اعلامیہ جاری کرتی رہتی جو شہر کی چنندہ جگہوں پر چسپاں کر دئیے جاتے تھے۔ خان بہادر خان نے اپنی فوجوں کو دلّی سمیت ملک کے دیگر مقامات پر بھی جنگ کے لیے بھیجا لیکن ان کی حکومت کو دیکھ کر انگریزوں کے سینوں پر سانپ لوٹ رہا تھا، جنہوں نے اپنا روایتی ہتھیار پھوٹ ڈالو اور راج کرو کے تحت 1857 کے اواخر میں ہند و مسلم فرقہ وارانہ فساد کرانے کے لیے ایک منصوبہ تشکیل دیا جو ناکام رہا، مگر وہ خاموش نہیں بیٹھے۔ وہ نواب رام پور اور شہر کے غدار وطن مصرا بیج ناتھ، لچھمی نرائن وغیرہ کی اعانت سے اپنی سازشیں رچتے رہے۔

خان بہادر خان کی حکومت تقریباً ایک سال قائم رہی۔ اس دوران بریلی میں مولوی احمد اللہ شاہ عرف ڈنکا شاہ ،شہزادہ فیروز شاہ، نانا صاحب ،نواب ولی داد خاں اور اسماعیل خاں وغیرہ کی فوجیں جمع ہو گئیں ۔ ملک کے یکے بعد دیگرے علاقوں کو زیر کرتا ہوا انگریزی لشکر روہیل کھنڈ کی جانب بڑھا، ا گرچہ خان بہادر خان کے پاس بریلی سے محفوظ نکلنے کا موقع تھا لیکن انہوں نے بغیر مقابلہ کیے میدان چھوڑنا گوارا نہیں کیا۔ چنانچہ 5 مئی 1858 کو جدید اسلحہ سے آراستہ ، آزمودہ کار سر کولن کی فوج اور انقلابیوں کے درمیان بریلی میں نکٹیا ندی کنارے سخت مقابلہ ہوا ۔خان بہادر خان کی سربراہی میں لشکر جرار نے انگریزوں کو نہلے پہ دہلا جواب دیا ،لڑائی میں خان بہادر خان کے متعدد ارکان خاندان شہید ہوئے۔ مگر 6 مئی کو انگریزی کمانڈر جان کے تازہ دم دستے کے سبب انگریزی فوج کا پلڑا بھاری ہو گیا۔ بریلی پر دوبارہ برطانوی عمل داری قائم ہو گئی ۔خان بہادر خان پیلی بھیت سے ترائی کے جنگلات میں نکل گئے لیکن نیپال کے راجہ جنگ بہادر نے انہیں دھوکہ دے کر انگریزوں کے حوالے کر دیا اور لکھنو لائیے گئے ۔جب کرنل برو نے خان بہادر خان سے پوچھا ۔تم نے ا س سن پیری میں حکومت سے بغاوت کیوں کی ؟تو انہوں نے جواب دیا ۔”تم نے ہمارا ملک چھین لیا تھا۔ تمہاری فوج نے ہمارا سامنا کیا تھا ۔جب تم بھاگے تمہاری فوج نے ہمیں مستحق ریاست سمجھ کر حاکم ریاست کر دیا۔ ہم اسے عنایت خدا سمجھے کہ اپنے حق کو پہنچے اب تمہارے قابو میں آئے اختیار ہے جو چاہے کرو۔ “کرنل برو نے حکم دیا کہ تمہاری سماعت بریلی میں ہوگی۔ نمائشی چارہ جوئی کے بعد کمشنر رابرٹ نے انہیں سزائے موت سنائی ۔جب خان بہادر خاں سے 24مارچ 1860 کو پھانسی کے وقت آخری خواہش کے بارے میں دریافت کیا گیا تو انہوں نے یہ شعر پڑھا۔

بہ جرم کلمہ حق ہے کشندہ غوغائے است

زمرگ زند گیم ہے شود تماشائے است

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔