بے روزگاری کا بحران دور کرے سرکار!... نواب علی اختر

ملک میں اس وقت بے روزگاری اپنے شباب پر ہے، جدھر بھی نظر ڈالیں بے روزگار نوجوانوں کی ایک ٹولی نظر آجائے گی، جو کامیابی و کامرانی کے باوجود سڑکوں پر احتجاج کرتے مل جائیں گے۔

بیروزگاری کے خلاف احتجاج کی فائل تصویر / آئی اے این ایس
بیروزگاری کے خلاف احتجاج کی فائل تصویر / آئی اے این ایس
user

نواب علی اختر

کسی بھی ملک کی ترقی اور خوشحالی کا انحصار اس بات پر ہوتا ہے کہ اس کے باشندے اقتصادی، صنعتی اور زرعی پیداوار کے اعتبار سے کتنے خوشحال ہیں۔ ملک میں نوجوانوں کو بہتر اور اعلیٰ تعلیمی سہولیات کے ساتھ ان کے لئے روزگار کے مواقع فراہم کیے جانے کے کیا کیا راستے کھلے ہوئے ہیں؟ حکومت ان کو بہتر اور پائیدار نوکریوں میں حصہ داری کے لئے حکومتی اداروں سے لے کر پرائیویٹ سیکٹروں تک کس طرح کی نوکریاں مہیا کرانے میں کامیاب ہو پاتی ہے؟ ایک خوشحال ملک کے لئے مذکورہ سارے اوصاف و خصوصیات کا ہونا بہت ضروری ہے۔ آج مرکز کی مودی حکومت اور اس کے حواری، نیز نام نہاد دیش بھکت یہ دعویٰ کرتے نہیں تھکتے ہیں کہ عالمی منظر نامے پر ہندوستان کی حیثیت ایک خوشحال ملک کی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ گزشتہ 70 سالوں میں ہندوستان کی معیشت پر اس سے برے دن کبھی نہیں آئے، سرکاری اعداد وشمارخود بتاتے ہیں کہ اس وقت ملک بھیانک معاشی بحران سے دوچار ہے۔

حالانکہ اکیسویں صدی میں یہ مودی کا ہندوستان ہے جو گلوبل پاور کے ساتھ وشو گرو بننے کے لئے بے چین ہے، مگر اس کی اندرونی معاشی جامعیت اور قوت ارتقا کی موجودہ صورتحال مودی حکومت کی کارکردگی پر سوالیہ نشان لگاتے ہیں۔ ہندوستان کی سپر پاور والی حیثیت کا خواب تبھی پورا ہوسکتا ہے جب ملک کے ہر فرد کو بے روزگاری، بھکمری، ناخواندگی سے آزادی اور امراض سے صحت یابی کے لئے سپر اسپیشلٹی اسپتالوں کا قیام جیسے اعلیٰ انتظامی سہولیات فراہم کردی جائیں۔ ملک میں اس وقت بے روزگاری اپنے شباب پر ہے، جدھر بھی نظر دوڑائیے بے روزگار نوجوانوں کی ایک ٹولی نظر آجائے گی جو کامیابی و کامرانی کے بڑے بڑے میڈلس اور ڈگریاں لے کر سڑکوں پر احتجاج کرتے مل جائیں گے۔


اخبارات کی سرخیاں اس بات سے بھری پڑی ہوتی ہیں کہ ملک کے الگ الگ پرائیویٹ سیکٹروں سے ملازمین کو نوکریوں سے چھٹی کی جا رہی ہے۔ کئی کمپنیاں جی ایس ٹی اور نوٹ بندی کی وجہ سے دیوالیہ کے دہانے تک پہنچ چکی ہیں، ان کے پاس کمپنی بند کرنے اور لوگوں کو نوکری سے برخاست کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں بچا ہے۔ یہ حالات اس بات کے غماز ہیں کہ ملک کی معیشت ونٹی لیٹر پر ہے۔ افسوس تب زیادہ ہوتا ہے جب پریشان نوجوانوں کو تقرری نامہ پکڑا ٓکر انہیں الگ دفتروں کی خاک چھاننے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ ذرا سوچیے کئی سال سے نوکری کے لئے انتظار کر رہے نوجوانوں کا کتنا برا حال ہوگا؟ آخر ان کا گھر اور پریوار کیسے چلتا ہوگا؟

مذکورہ نوعیت کے نظام اور نوکری کے تئیں لمبے انتظار سے ملک کی اقتصادی حالت کبھی نہیں سدھر پائے۔ ایسا لگتا ہے کہ ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت ملک کے نوجوانوں کا مستقبل تاریک راہوں میں ڈھکیلا جا رہا ہے۔ آج اگر کوئی حکمراں بی جے پی کے کسی لیڈر سے نوکری کے متعلق سوال کرلے تو ’دیش دروہی‘ اور نہ جانے کس کس طرح کے الزام تھوپ کر ان کی آواز کو دبانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ آج ملک میں میڈیا کا کردار بالکل یکطرفہ ہے، وہ عوامی مسائل کو اصحاب اقتدار تک پہنچانے کے بجائے حکومت کے منفی نظریات کو صحیح بتاکر ملک کے سوا سو کروڑ عوام کو گمراہ کر رہا ہے۔ ان کے پاس ہندو مسلم کا ایجنڈا تو ہے، مسجد اور مندر کے مسائل پر عوام کو الجھائے رکھنے کا فل پلان تو ہے لیکن بے روزگاری سے پریشان نوجوان روزانہ خود کشی کرنے پر مجبور ہیں، اس طرح کی خبروں کے لیے ان کے پاس وقت نہیں ہے۔


آج پورے ملک میں ہزاروں مسائل ہیں جن پر میڈیا کے ذریعہ بحث و مباحثہ ہونا چاہیے۔ آج ملک میں بے روزگاری اسپتالوں میں بچوں کی اموات، پٹرولیم مصنوعات کی آسمان چھوتی قیمتوں، بجلی، پانی روز بروز کسانوں کی خود کشی جیسے ان گنت سلگتے مسائل میڈیا کے لئے مدعا کیوں نہیں بن رہے ہیں؟ صرف جھوٹ پر مبنی منفی پروپیگینڈے کو دن بھر میڈیا کے ذریعہ فروغ دیا جا رہا ہے جس سے ملک کی ترقی اور خوشحالی کے ضامن امن و سکون کو خطرہ لاحق ہوگیا ہے۔ کساد بازاری اور اقتصادی مندی روز بروز اشیاء خورد ونوش کی قیمتوں میں اضافہ عام انسانوں کا جینا دوبھر کر دیا ہے، بےروزگاری سے پریشان نوجوان جرائم کے راستے اپنانے پر مجبور ہو رہے ہیں، غریب اور کمزور طبقہ دن بدن اور غریبی کی دلدل میں دھنستے جا رہے ہیں، امیر اور مترفین کی فہرست طویل در طویل ہوتی جا رہی ہے۔

جس ملک میں روزانہ 20 کروڑ لوگ بھوکے سوتے ہوں، جس ملک میں ایک بڑی تعداد لوگوں کی ایسی ہے جن کے پاس رہنے کے لئے اپنا گھر نہیں، اس ملک کی حکومت یہ دعویٰ کرے کہ ہمارے یہاں سب کچھ ٹھیک ہے اور چکنی چپڑی باتوں سے وشو گرو بننے کا خواب دیکھتی رہے تو ہمیں سمجھ لینا چاہیے کہ صاحب اقتدار کو عوام سے نہیں اپنے تخت و تاج سے مطلب ہے اور وہ جب چاہیں بنا کسی روک ٹوک کے کچھ بھی کرسکتے ہیں، کیوں کہ ملک کے عوام نے انہیں اکثریت سے نوازا ہے۔ مودی حکومت کے اسی بھرم نے عوامی مسائل کو پس پشت ڈال دیا ہے۔


اب سوال یہ پیدا ہو رہا ہے کہ ملک بے روزگاری کے اس بڑے بحران تک کیسے پہنچا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ نوٹ بندی کی وجہ سے بے روزگاری کے مسئلے نے سنگین صورت اختیار کی۔ ان کا کہنا ہے کہ نوٹ بندی نے غیرمنظم سیکٹر کو بری طرح سے توڑ دیا ہے اور پھر کووڈ۔19 کی عالمی وبا نے اس طرح کے مسئلے میں کئی گنا اضافہ کر دیا۔ ملک میں بے روزگاری کے مسئلے کا اندازہ سوشل میڈیا سے لگایا جاسکتا ہے۔ بے روزگاری کے مسئلے کے چلتے نوجوان نوکریوں کی مانگ کو لے کر ٹوئٹ کر رہے ہیں۔ سی ایم آئی ای کے حالیہ اعدادو شمار بتاتے ہیں کہ جنوری 2021 میں ملک میں بے روزگاری کی تعداد تقریباً 4 کروڑ ہے۔ اس تعداد میں دو طرح کے بے روزگار شامل ہیں۔ ایک وہ جو سرگرم طور سے نوکری کی تلاش میں ہیں اور وہ بھی جو نوکری نہیں تلاش کر رہے ہیں۔ جنوری میں بے روزگاری کی شرح معمولی سدھار کے بعد 6.5 فیصد پر آگئی جوکہ دسمبر 2020 میں 9.1 فیصد تھی۔

مالی سال 2019-20 کے آخرمیں سی ایم آئی ای کے درج کیے گئے اعداد وشمارکے مطابق ہندوستان میں تقریباً 40 کروڑ لوگ روزگار میں تھے اور 3.5 کروڑ لوگ بیروزگار تھے۔ اس کے ساتھ ہی ہرسال ہندوستان میں تقریباً 2 کروڑ لوگ 15 سے 59 سال عمر کی اس آبادی میں شامل ہوتے ہیں جسے کام کی تلاش ہوتی ہے۔ سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ حکومت پالیسی سطح پر بے روزگاری کو مسئلہ مانتی ہی نہیں ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ نمو کی قیادت زیادہ سرمایہ کاری والی بڑی صنعتیں کرتی ہیں۔ حکومت مناسب طور سے اچھی نوکریاں پیدا نہیں کر رہی ہیں۔ حکومت کو یہ سوچنا چاہیے کہ بغیر معیشت میں کس طرح زیادہ نوکریاں پیدا کرے گی۔ معاشی سروے اور بجٹ دونوں میں اس بارے میں کوئی بات نہیں کہی گئی ہے۔ سی ایم آئی ای کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ شہری علاقوں میں بے روزگاری کا مسئلہ دیہی علاقوں کی بہ نسبت زیادہ سنگین ہے۔ جنوری 2021 میں شہری بے روزگاری کی شرح 8 فیصد تھی، جبکہ دیہی علاقوں میں یہ شرح 5.8 فیصد تھی۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 28 Feb 2021, 6:40 PM
/* */