زرعی انقلاب کی داستان: نہرو کی دوراندیشی سے خود کفالت تک، آج کے کسانوں کے چیلنج اور مستقبل کی امیدیں

پنڈت نہرو کی دوراندیشی نے زرعی ترقی کی بنیاد رکھی۔ سبز انقلاب نے خود کفالت دلائی، مگر آج کسان ایم ایس پی کی قانونی ضمانت، زمین کھونے اور سہولتوں کی کمی کے خلاف جدوجہد کر رہے ہیں

<div class="paragraphs"><p>تصویر اے آئی</p></div>

تصویر اے آئی

user

عمران اے ایم خان

آج جب ہم اپنے ارد گرد لہلہاتے کھیتوں، بھوسے سے لدے ٹرکوں اور خوش باش کسانوں کو دیکھتے ہیں، یا اپنے گھروں میں تازہ روٹیوں کی خوشبو محسوس کرتے ہیں، تو شاذ و نادر ہی ہمیں اس سفر کی سختیوں کا احساس ہوتا ہے جو ہمیں یہاں تک لایا۔ آج ہندوستان کے گودام اناج سے بھرے ہیں، کسان اپنی پیداوار سے نہ صرف اپنی ضروریات پوری کرتے ہیں بلکہ اضافی گندم فروخت کر کے بہتر زندگی گزارنے کے قابل بھی ہو چکے ہیں۔ یہی نہیں، ہم اناج برآمد کر کے عالمی سطح پر بھی اپنی پہچان بنا چکے ہیں۔ لیکن یہ خوشحالی ہمیشہ سے ہمارا مقدر نہ تھی۔ آزادی سے قبل اور کچھ برسوں بعد تک کسانوں کو شدید مشکلات کا سامنا تھا۔ گندم کی پیداوار انتہائی کم تھی، کھیت بارشوں پر منحصر تھے، آبپاشی کا نظام ناکافی تھا اور بیشتر علاقوں میں فصلیں خشک سالی کا شکار ہو کر برباد ہو جاتی تھیں۔ کسان لگان ادا کرنے سے قاصر رہتے تھے اور قحط کے حالات پیدا ہو جایا کرتے تھے۔ یہ وہ دور تھا جب بھوک کا سایہ ہر دیہات اور ہر گھر پر منڈلاتا تھا۔

آزادی کے بعد بھی زرعی شعبے میں کوئی فوری بہتری نہیں آئی۔ غذائی بحران بڑھتا گیا اور ہندوستان کو اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے امریکہ جیسے ملکوں سے گندم درآمد کرنا پڑی۔ پی ایل- 480 اسکیم کے تحت امریکہ سے بھاری مقدار میں گندم آئی، جس کے ساتھ کچھ نئی بیج ورائٹیاں بھی ہندوستان پہنچیں۔ ان میں سونورا 64 جیسے بیج شامل تھے، جو زیادہ پیداوار کے حامل تھے لیکن ساتھ ہی غیر ملکی جڑی بوٹیاں، مثلاً گاجر گھاس بھی یہاں در آئی، جو آج تک ایک سنگین مسئلہ بنی ہوئی ہے۔ ان ابتدائی مشکلات کے باوجود، یہ ورائٹیاں ہندوستان میں زراعت کی سمت تبدیل کرنے کی بنیاد بنیں۔

اس سنگین صورتحال سے نکلنے کے لیے جس دور اندیش قیادت نے سنگ میل کی حیثیت اختیار کی، ان میں سب سے نمایاں نام پنڈت جواہر لال نہرو کا ہے۔ نہرو جی نے ابتدا ہی سے زراعت کو سائنس سے جوڑنے کی اہمیت کو سمجھا اور زرعی تحقیق و ترقی کے مراکز قائم کیے۔ انہوں نے بڑے پیمانے پر آبپاشی منصوبے شروع کرائے، ڈیموں کی تعمیر کروائی اور کسانوں کو جدید زرعی طریقوں سے روشناس کرانے کے لیے تعلیمی ادارے قائم کیے۔ ان کا وژن تھا کہ ہندوستان کو غذائی خود کفالت کی منزل تک پہنچایا جائے اور کسانوں کو باعزت زندگی فراہم کی جائے۔ نہرو جی کے ان اقدامات نے ایک ایسا مضبوط ڈھانچہ کھڑا کیا جس پر آگے چل کر سبز انقلاب کی عمارت تعمیر ہوئی۔

سبز انقلاب کے باقاعدہ ظہور کا سہرا ان رہنماؤں کو بھی جاتا ہے جنہوں نے نہرو کے بعد اس مشن کو آگے بڑھایا۔ لال بہادر شاستری نے ’جے جوان، جے کسان‘ کا نعرہ دے کر کسانوں میں نئی روح پھونکی۔ ڈاکٹر ایم ایس سوامیناتھن نے نورمن بورلاگ کی تحقیق کو ہندوستانی حالات کے مطابق ڈھالا اور نئے ہائی ییلڈ ورائٹی بیج تیار کیے۔ اندرا گاندھی نے اپنے دور اقتدار میں زرعی شعبے کو مزید تقویت دی۔ کھادوں، بیجوں اور زرعی قرضوں پر دی جانے والی حکومتی امداد نے کسانوں کو طاقتور بنایا۔ انہی اقدامات کی بدولت پنجاب، ہریانہ اور مغربی اتر پردیش جیسے علاقوں میں گندم کی پیداوار میں حیران کن اضافہ ہوا اور ہندوستان غذائی خود کفالت کے سنگ میل پر پہنچ گیا۔


سبز انقلاب نے نہ صرف بھوکمری کا خاتمہ کیا بلکہ دیہی معیشت کو بھی نئی زندگی دی۔ کسانوں کی آمدنی بڑھی، زندگی کے معیار میں بہتری آئی اور ہندوستان دنیا کے ان چند ممالک میں شامل ہو گیا جہاں زرعی پیداوار برآمد کی جانے لگی۔ ایک ایسا ملک جو کبھی اپنے لوگوں کے لیے دانے دانے کو ترستا تھا، آج عالمی سطح پر اناج کا بڑا کھلاڑی بن چکا تھا۔ یہ سب کچھ ان عظیم رہنماؤں، سائنسدانوں اور کسانوں کی محنت اور قربانیوں کا نتیجہ تھا جنہوں نے حالات کا رخ موڑنے میں اپنا کردار ادا کیا۔

مگر سبز انقلاب کی یہ داستانیں خوش کن ہونے کے باوجود آج کے ہندوستانی کسان کی حالت پر ایک تلخ سوال بھی چھوڑتی ہیں۔ بدقسمتی سے، جس بنیاد پر سبز انقلاب کی عمارت کھڑی کی گئی تھی، وقت کے ساتھ ساتھ اس بنیاد کو کمزور ہونے دیا گیا۔ کسانوں پر اتنی توجہ نہیں دی گئی جتنی کہ دی جانی چاہیے تھی۔ زراعت آج پس پشت چلی گئی ہے۔ موجودہ حکومت کے بعض فیصلے کسانوں پر مسلط کر دیے جاتے ہیں، جس کی وجہ سے انہیں اپنے حقوق کے لیے بارہا طویل احتجاج کرنا پڑتا ہے۔ حالیہ برسوں میں ہم نے دیکھا کہ کسان ایم ایس پی یعنی کم از کم امدادی قیمت کی قانونی گارنٹی کے لیے کئی مہینوں تک احتجاج کرتے رہے، مگر ان کے مطالبات مکمل طور پر پورے نہیں کیے گئے۔ کسانوں کی یہ جدوجہد یہ ظاہر کرتی ہے کہ زرعی شعبے کو آج بھی تحفظ اور تعاون کی اشد ضرورت ہے۔

ایک اور گمبھیر مسئلہ زرعی زمینوں کا تیزی سے ختم ہونا ہے۔ ترقی کے نام پر گاؤں اور شہروں کے باہر جو کھیتیاں کبھی سبز لہلہاتی تھیں، آج وہ سیمینٹ کے جنگلوں میں تبدیل ہو رہی ہیں۔ ان زمینوں پر رہائشی کالونیاں، صنعتی علاقے اور سڑکیں بنائی جا رہی ہیں۔ اگر یہ رجحان اسی رفتار سے جاری رہا تو مستقبل میں غذائی سلامتی شدید خطرے میں پڑ سکتی ہے۔ حکومت اگر سنجیدگی سے چاہے تو کچھ ایسے عملی اقدامات کر سکتی ہے جن سے زرعی زمینوں کا تحفظ ممکن ہو۔ قوانین بنا کر اور ان پر سختی سے عمل کروا کر کھیتوں کو برباد ہونے سے بچایا جا سکتا ہے۔

کسانوں کو صرف سہولتیں دینا ہی کافی نہیں بلکہ انہیں جدید اور دانشمندانہ کھیتی کی تربیت بھی دینا ناگزیر ہے۔ آج دنیا تیزی سے بدل رہی ہے، کاروبار اور صنعتیں نئی ٹیکنالوجی سے ترقی کر رہی ہیں۔ اگر کسانوں کو بھی سائنسی طریقوں، مارکیٹ کے رجحانات، منافع بخش فصلوں کے انتخاب اور قدرتی وسائل کے تحفظ کی تربیت دی جائے تو وہ بھی خوشحالی کی راہ پر گامزن ہو سکتے ہیں۔ کسان کو محض ایک محنت کش کے بجائے ایک ماہر زرعی کاروباری بنانے کی ضرورت ہے۔


اس سارے منظرنامے میں جب ہم گندم کے کھیتوں کی فراوانی دیکھیں، جب بھوسے سے لدی ہوئی گاڑیاں سڑکوں پر گزرتی ہوئی دکھائی دیں، جب کسانوں کے چہروں پر خوشی کے آثار دیکھیں یا جب اپنے گھروں میں گندم کی خوشبو سے مہکتی ہوئی روٹی تیار ہوتی ہو تو ہمیں ایک لمحے کے لیے ضرور ان قربانیوں اور کاوشوں کو یاد کرنا چاہیے جنہوں نے یہ منظر ممکن بنایا۔ ہمیں پنڈت جواہر لال نہرو، لال بہادر شاستری، اندرا گاندھی، ڈاکٹر ایم ایس سوامیناتھن اور نورمن بورلاگ جیسے عظیم رہنماؤں، سائنسدانوں اور ان کروڑوں کسانوں کا شکریہ ادا کرنا چاہیے جنہوں نے خون پسینہ ایک کر کے ہندوستان کو غذائی خود کفالت کی منزل تک پہنچایا۔

مگر شکرگزاری کے ساتھ ساتھ ہمیں یہ بھی یاد رکھنا ہو گا کہ زراعت کی ترقی ایک جاری عمل ہے۔ کسانوں کو تحفظ، احترام اور مواقع فراہم کرنا آج بھی اتنا ہی ضروری ہے جتنا کہ آزادی کے بعد تھا۔ اگر ہم نے اس شعبے کو نظرانداز کیا تو آنے والے دنوں میں نہ صرف کسانوں کی زندگی مزید دشوار ہوگی بلکہ ہمارا غذائی مستقبل بھی خطرے میں پڑ سکتا ہے۔ لہٰذا آج کی نسل اور حکومت دونوں پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ کسانوں کی محنت کی قدر کریں، زرعی زمینوں کا تحفظ کریں اور زراعت کو ترقی کا ستون بنائیں تاکہ ہم نہ صرف اپنے آج کو بلکہ آنے والے کل کو بھی محفوظ بنا سکیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔