الوداع 2022: امیدیں ابھی معدوم نہیں ہوئیں، غور و فکر کا بہاؤ اب بھی جاری ہے... عبدل بسم اللہ

خارجی تقسیم تو ہوتی رہی ہے، لیکن آج ہم داخلی تقسیم کے دور میں ہیں۔ یہ جو اندر اندر منتشر ہو رہا ہے، بہت خطرناک ہے، ایسا سماجی انتشار ہم نے نہ پہلے کبھی دیکھا، نہ تصور میں کہیں تھا۔

<div class="paragraphs"><p>الوداع 2022 / یو این آئی</p></div>

الوداع 2022 / یو این آئی

user

قومی آوازبیورو

ناامیدی ہمارے لیے کفر ہے، اس لیے امید قائم رکھنی چاہیے۔ لیکن سچ جو ہے وہ سامنے ہے اور تکلیف دہ ہے۔ ابھی جس طرح کے حالات ہیں وہ فکر انگیز ہے۔ فن، ادب، ثقافت – یعنی دانشور دنیا پر ہی نظر ڈالیں تو لگتا ہے کہ کچھ ہے جس کا اظہار نہیں ہو پا رہا۔ ایسا نہیں کہ لوگوں نے چاہنا بند کر دیا ہے۔ لوگ چاہتے ہیں، سوچتے ہیں، بولتے ہیں، لکھتے ہیں، پھر بھی کچھ ہے جو اندر دبا ہوا ہے، جو ظاہر نہیں ہو پا رہا۔ سماج میں ایک عجیب طرح کا خوف سمایا ہوا ہے۔ یہ خوف بہت خطرناک ہوتا ہے۔ ہم نے بہت برے دور بھی دیکھے ہیں زندگی میں۔ اسی سماج میں بہت کچھ سرزد ہوتے دیکھا ہے پہلے بھی۔ لیکن سیاست، سماج، ادب سے جڑے ہوئے لوگ جس طرح بے باک ہوا کرتے تھے، وہ بے باکی ختم ہو گئی سی معلوم پڑتی ہے۔ اندر ایک خوف ہے کہ پتہ نہیں کب کیا ہو جائے۔ ’ہماری کس بات سے، کس لفظ سے کون سا تانا بانا بُن دیا جائے‘ کی یہ جو سوچ ہے، یہ جو بچ بچ کے کام کرنے کا ماحول بن گیا ہے وہ پریشان کرنے والا ہے۔

خارجی تقسیم تو ہوتی رہی ہے، لیکن آج ہم داخلی تقسیم کے دور میں ہیں۔ یہ جو اندر اندر منتشر ہو رہا ہے، بہت خطرناک ہے۔ ایسا سماجی انتشار ہم نے نہ پہلے کبھی دیکھا، نہ تصور میں کہیں تھا۔ کچھ لوگوں کو یہ سب حیرت انگیز لگتا ہے، مجھے یہ سب افسوسناک لگتا ہے۔


جب ہم سماج پر پریشانی کے بادل منڈلاتے دیکھتے ہیں تو اس سے سب کو فکر ہوتی ہے۔ لیکن دقت یہ ہے کہ سوچنے والا ترقی پذیر طبقہ بھی خوف کا شکار ہے۔ خوف ہے کہ جیسے بادل منڈلا رہے ہیں، وہ کب کس پر کس طرح برس جائیں، کون ان کی زد میں آ جائے، کہنا مشکل ہے۔

آپ اس میں تبدیلی کی امید پال لیں لیکن مجھے یہ امید بھی علامتی شکل میں ہی نظر آتی ہے۔ میں اس ماحول میں بہت پراعتماد نہیں ہو پاتا۔ دراصل نظریہ بہت اہم ہوتا ہے۔ سمجھنا ہوگا کہ نظریات کی نئی درخت جب کھڑی ہو جاتی ہے تو اس کے ارد گرد کوششیں تو ہوں گی لیکن نئی درخت کا نمو پانا آسان نہیں ہوتا۔ یہ بات مثبت اور منفی دونوں ہی معاملوں میں نافذ ہوتی ہے۔ آخر ’اس درخت‘ کو بھی تو اتنا وقت لگ گیا پنپنے میں۔ آزادی سے ملے نظریاتی درخت پر چوٹ کرنے میں جب اسے اتنا وقت لگا تو فطری ہے اسے بدلنے میں بھی وقت لگے گا۔ لیکن یہ سب ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہنے سے تو نہیں ہوگا۔ شکست ماننے سے بھی نہیں ہوگا۔ سوچنے والے بہاؤ میں کچھ انتشار بھلے ہی آیا ہو، لیکن یہ بہاؤ ختم نہیں ہوا ہے۔ اس بہاؤ کا بہتے رہنا ضروری ہے، اس بہاؤ میں ہی مقام ہے۔

(مضمون نگار عبدل بسم اللہ مشہور و معروف ناول نگار ہیں)

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔