روپیہ 72 کے پار، تیل کی قیمتوں سے ہاہاکار، ’نصیب والی‘ سرکار لاچار

مودی حکومت گرتے روپے سے نمٹنے کے لیے متوسط طبقہ سے مہنگی ایکسائز ڈیوٹی وصولتی رہے یا پھر تیل سے حاصل ہو رہے خزانہ کو قربان کر کے ترقی کی رفتار کم کرے، دونوں صورت میں اس کو خسارہ ہی ہے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

راہل پانڈے

وزیر مالیات ارون جیٹلی بی جے پی کے ایک موثر ترجمان تصور کیے جاتے ہیں، لیکن جب بات وزارت مالیات چلانے کی آتی ہے تو معاملہ ٹائیں ٹائیں فس ہو جاتا ہے۔ اب ان کی حکومت کے دن ختم ہونے میں 7 مہینے کا بھی وقت نہیں بچا اور امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ پٹرول اور روپے میں سے کون پہلے سنچری لگائے گا۔ اور بدقسمتی ہے کہ جب وہ حکومت سے باہر جائیں گے تو وراثت میں ایسے ہی حالات چھوڑ کر جائیں گے۔

ماہرین کا اندازہ ہے کہ مئی 2019 تک خام تیل 100 ڈالر فی بیرل کی سطح چھو لے گا اور اشارہ یہی مل رہا ہے کہ تب تک پٹرول بھی سنچری لگا چکا ہوگا۔ اور نصیب والی حکومت پر اُچھال مارتے خام تیل اور تیز رفتاری کے ساتھ نیچے آتے روپے کا دوہرا حملہ ہوگا۔ حکومت کو اپنا کام جاری رکھنے کے لیے تیل سے ملنے والے خزانہ کی ضرورت ہے اور ان حالات کو سنبھالنے کے لیے اس کے پاس مالی متبادل نہیں بچے ہیں جو اس نے خود ہی پیدا کیے ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ 2019 کی سرگوشی لیے آنے والے دنوں میں ہمیں حکومت کی طرف سے اقتصادی دلائل کی جگہ لفظوں کا کھیل زیادہ دیکھنے کو ملے گا۔

پٹرول اور ڈیزل کی قیمتیں ریکارڈ سطح پر پہنچ چکی ہیں اور عام متوسطہ طبقہ اس سے پریشان ہے، لیکن اس سے نمٹنے کے لیے حکومت وہی کر رہی ہے جو اس کے بس میں ہے، یعنی پروردگار سے دعا کر رہی ہے کہ قیمتیں نیچے آ جائیں۔ 5 ستمبر کو دہلی میں پٹرول 79 روپے 40 پیسے فی لیٹر تک پہنچ گئی جب کہ ایک سال قبل یہ 69 روپے 71 پیسے پر تھی۔ ایک سال میں پٹرول کی قیمت میں 10 روپے کا اضافہ بہت زیادہ ہے۔ خام تیل کی قیمتوں میں اُچھال کے سبب اسے کسی حد تک قابل قبول مانا جا سکتا ہے لیکن یہ تصویر کا صرف ایک پہلو ہے۔

آج دیکھیں تو خام تیل کی قیمت 77 ڈالر کے قریب ہے۔ جب کہ اپریل میں 67 ڈالر کے قریب تھا۔ موجودہ وقت میں 70 سے 75 ڈالر کی قیمت کو عام تصور کیا جا رہا ہے، لیکن مرکزی حکومت کے لیے اس سے سنگین مسئلہ کھڑا ہو سکتا ہے۔ اس محاذ پر ہونے والی تنقید کے جواب میں اب حکومت کے پاس کھسیانے کے علاوہ دوسرا کوئی چارہ نہیں ہے، کیونکہ پٹرول-ڈیزل پر ایکسائز ڈیوٹی میں تخفیف کی گنجائش ختم ہو چکی ہے۔

گزشتہ سال اکتوبر میں حکومت نے پٹرولیم مصنوعات پر ایکسائز ڈیوٹی میں 2 روپے فی لیٹر کی تخفیف کی تھی، لیکن اس وقت خام تیل 60 ڈالر فی بیرل تھا۔ اور اب ایکسائز ڈیوٹی میں کوئی گنجائش نہیں بچی ہے کیونکہ موڈی کا اندازہ ہے کہ ایکسائز ڈیوٹی میں ایک روپیہ گھٹانے کا مطلب بھی 13000 کروڑ روپے کے خزانے کا نقصان ہے۔ ایسے میں حکومت کو خرچ میں تخفیف کرنی ہوگی کیونکہ مالی نظام درست رہے۔ لیکن حکومت کے پاس یہ متبادل بھی نہیں بچا ہے کیونکہ خرچ میں تخفیف کا مطلب ہوگا شرح ترقی پر بریک لگنا اور عین انتخابات کے وقت ترقی میں گراوٹ اس کے لیے بحران پید اکر سکتی ہے۔

وزیر مالیات سے یہ سوال پہلے بھی پوچھا گیا ہے اور انھوں نے صاف کہا ہے کہ ایسے کسی بھی قدم سے ہندوستان پر بے قابو قرض کا بحران کھڑا ہو جائے گا۔ انھوں نے اشارہ دیا تھا کہ حکومت چلانے کے لیے انھیں تیل سے ہونے والے خزانہ کی ضرورت ہے اور اگر حکومت ایکسائز ڈیوٹی کم کرتی ہے تو اس کے سامنے مصیبت کھڑی ہو جائے گی۔ اس وقت حکومت پٹرول پر 19 روپے 48 پیسے فی لیٹر کی ایکائز ڈیوٹی لگاتی ہ۔ وہیں دہلی کی کیجریوال حکومت ایک لیٹر پٹرول پر 16 روپے 83 پیسہ کا ویٹ لگاتی ہے۔

اگر خام تیل کی قیمت 80-75 ڈالر فی بیرل کی رینج میں رہتے ہیں تو بھی حکومت حالات قابو میں کر سکتی تھی، لیکن روپے میں تیز گراوٹ کے سبب اس کے ہاتھوں کے طوطے اڑے ہوئے ہیں۔ مرکز میں مودی حکومت نے جب اقتدار سنبھالی تو ایک ڈالر کی قیمت 58 روپے 29 پیسے تھی، اس وقت سے اب تک تقریباً 23 فیصد گراوٹ کے ساتھ 5 ستمبر کو ایک ڈالر 71 روپے 75 پیسے کا ہو گیا۔ پچھلے ایک مہینے میں تو روپے میں 3 روپے 42 پیسے کی زبردست گراوٹ درج ہوئی ہے۔

ایک طرف روپیہ گراوٹ کے روز نئے تاریخی ریکارڈ بنا رہا ہے، اور خام تیل میں بھی آگ لگی ہے۔ ایسے میں کوئلہ درآمد بھی 45 فیصد بڑھ چکا ہے۔ اتنا ہی نہیں، کم قیمتی زیورات کی درآمد میں 44 فیصد اور میٹل و معدنیات کی درآمد میں 47 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ اس کے برعکس ہمارے یہاں سے برآمدگی میں سستی دیکھنے کو مل رہی ہے جس سے تجارتی خسارہ جولائی 2017 کے 11.45 ارب ڈالر کے مقابلے جولائی 2018 میں 18.02 ارب ڈالر کا ہو گیا ہے۔ ہمارے تجارتی خسارے میں جتنا اضافہ ہوگا، روپیہ اتنا ہی کمزور ہوتا چلا جائے گا۔

مانا جا رہا ہے کہ آنے والا وقت بھی روپے کو سنبھالنے میں ناکام رہے گا اور مئی 2019 تک اس کے 74 روپے چھونے کا اندیشہ ہے۔ یہ وہ وقت ہے جب مودی حکومت دوبارہ فتح کی کوشش کر رہی ہوگی، اس وقت خام تیل بھی 100 ڈالر فی بیرل پہنچنے کا انازہ ہے۔ اگر یہ اندازہ سچ ثابت ہوا تو دہلی میں پٹرول کی قیمتیں 100 روپے کے پار چلی جائیں گی۔ غور طلب ہے کہ جب یو پی اے حکومت اقتدار سے باہر گئی تو اس وقت پٹرول 64 روپے فی لیٹر تھا۔

بی جے پی کی قیادت والی این ڈی اے حکومت کے سامنے اب چیلنج ہے کہ انتخابی موسم میں متوسط طبقہ سے 19 روپے 48 پیسے فی لیٹر کا ایکسائز ڈیوٹی وصولتی رہے یا پھر تیل سے ہونے والی آمدنی کو قربانی دے کر ترقی کی رفتار کم کرے۔ دونوں ہی حالات میں نصیب والی حکومت کی قسمت ساتھ چھوڑتی نظر آ رہی ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔