کانگریس کے سوشل میڈیا سیل نے بی جے پی کے سوشل میڈیا سیل کو پچھاڑ دیا

بی جے پی کا سوشل میڈیا سیل جس طرح راہل گاندھی کے خلاف بے بنیاد، مضحکہ خیز اور توہین آمیز مہم چلاتا رہا ہے اس سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کانگریس کے سوشل میڈیا سیل کے حملوں سے وہ گھبرا اٹھا ہے۔

<div class="paragraphs"><p>تصویر بشکریہ سوشل میڈیا</p></div>

تصویر بشکریہ سوشل میڈیا

user

سہیل انجم

گزشتہ دنوں ایک چھوٹی سی خبر پر نظر پڑی تو چونک جانا پڑا۔ خبر یہ تھی کہ کانگریس کے سوشل میڈیا سیل نے بی جے پی کے سوشل میڈیا سیل کو پچھاڑ دیا ہے اور اب عوام تک رسائی کے معاملے میں یا سوشل میڈیا کی زبان میں کہیں تو ویوز، ہٹس، لائکس، ٹوئٹس اور ری ٹوئٹس کے معاملے میں کانگریس بہت آگے نکل گئی ہے۔ یہ خبر پڑھ کر حیرانی ہوئی۔ لہٰذا اس کی صداقت کا پتہ لگانے کی خواہش ہوئی۔ جب اس سلسلے میں کانگریس کے رہنماؤں سے رابطہ قائم کیا گیا تو انھوں نے اس حوالے سے بہت سی تفصیلات فراہم کر دیں جن میں فیس بک، ٹوئٹر، انسٹا گرام اور یو ٹیوب کا ماہانہ جائزہ بھی شامل تھا۔ یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ سوشل میڈیا کے تمام پلیٹ فارمس نے ایک سال کے اندر زبردست چھلانگ لگائی ہے اور اب ایسا لگتا ہے کہ بی جے پی کے سوشل میڈیا سیل کو وہاں تک پہنچ پانا آسان نہیں ہوگا۔ یاد رہے کہ سپریہ شرینیت کانگریس کے سوشل میڈیا سیل کے ہیڈ ہیں اور ان کے اس عہدے پر فائز ہونے کے بعد سوشل میڈیا سیل نے زبردست چھلانگ لگائی ہے۔

تفصیلات کے مطابق گزشتہ سال جولائی میں کانگریس کا ٹوئٹر امپریشن 48 ملین تھا جو کہ امسال مئی میں بڑھ کر 165 ملین ہو گیا ہے۔ یعنی اس میں 243 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ اس کے ساتھ ہی ٹوئٹر پر کانگریس کے فالوورز بڑی تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔ خیال کیا جاتا ہے کہ جلد ہی ان کی تعداد دس ملین یعنی ایک کروڑ تک پہنچ جائے گی۔ حالا نکہ ٹوئٹر پر بی جے پی کے فالوورز کی تعداد بیس ملین سے زیادہ ہے لیکن پھر بھی اس کے لائک اور ری ٹوئٹ کانگریس کے مقابلے میں کم ہوتے جا رہے ہیں۔ بی جے پی کے پچھلے تیس ٹوئٹ کی ریچ محض پانچ لاکھ ہے جبکہ کانگریس کے پچھلے تیس ٹوئٹ کی ریچ 48 لاکھ سے زیادہ ہے۔ یعنی تیس ٹوئٹ کی ریچ میں تقریباً 43 لاکھ کا فرق ہے۔


ٹوئٹر کے علاوہ کانگریس کے سوشل میڈیا کے دوسرے ہینڈلز پر بھی عوامی رسائی میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ گزشتہ سال جولائی میں کانگریس کے یو ٹیوب پر 21 ملین ویوز تھے جبکہ امسال مئی میں یہ تعداد بڑھ کر 51 ملین ہو گئی ہے۔ گزشتہ سال جولائی میں کانگریس کے انسٹا گرام پر 1.45 ملین ویوز تھے جو کہ امسال مئی میں بڑھ کر 20 ملین ہو گئے ہیں۔ اسی طرح فیس بک ریچ گزستہ سال 13 ملین تھی جو امسال مئی میں تقریباً 16 ملین ہو گئی۔ 

بی جے پی 2014 کے بہت پہلے سے ہی سوشل میڈیا پر سرگرم ہے۔ اُس الیکشن میں نریندر مودی کی ہدایت پر بی جے پی نے سوشل میڈیا کا بڑے پیمانے پر استعمال کیا تھا اور چونکہ نئی نسل سوشل میڈیا سے زیادہ فرینڈلی ہے اس لیے بی جے پی اس نسل تک بہت آسانی سے پہنچ گئی۔ اس وقت کانگریس کے منصوبہ سازوں میں سوشل میڈیا کے اس طرح استعمال کا خیال تک نہیں آیا تھا۔ اس کے بعد بھی کئی برس تک کانگریس اس شعبے میں بی جے پی سے بہت پیچھے رہی۔ لیکن جب سے سینئر رہنما جے رام رمیش کو کانگریس کا کمیونی کیشن ہیڈ بنایا گیا ہے پارٹی نے اس جانب توجہ دینی شروع کر دی ہے جس کے نتیجے میں مذکورہ صورت حال سامنے آئی ہے۔


سپریہ شرینیت سوشل میڈیا ہیڈ ہونے کے علاوہ پارٹی کی قومی ترجمان بھی ہیں۔ وہ اس سے قبل ٹائمز گروپ کی ایگزیکٹو ایڈیٹر رہ چکی ہیں۔ وہ سوشل میڈیا کی شاندار اور باریک سمجھ رکھتی ہیں۔ انہی کی حکمت عملی کا نتیجہ ہے کہ کچھ ہی مہینوں میں کانگریس کی سوشل میڈیا نے بی جے پی کے سوشل میڈیا کو چاروں شانے چت کر دیا ہے۔ دراصل انھوں نے کانگریس کی حکمت عملی میں بنیادی تبدیلی کی ہے۔ انھوں نے پارٹی کو دفاعی لائن اختیار کرنے کے بجائے جارحانہ اور حملہ آور لائن پر ڈالا ہے۔

سپریہ شرینیت کی نیوز کانفرنس دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ وہ زبردست تیاری کرکے آتی ہیں اور ان کو نہ صرف یہ کہ سیاست کی اچھی سمجھ ہے بلکہ ان کے پاس معلومات یا انفارمیشن کا خزانہ بھی ہے۔ وہ اعداد و شمار کے ہتھیار سے لیس رہتی ہیں اور بی جے پی کو اسی کے ہتھیار سے مات دیتی ہیں۔ گزشتہ دنوں انھوں نے ایک انوکھی پریس کانفرنس کی۔ وہ جب ٹیبل پر آئیں تو وہاں انھوں نے ایک ٹوکری رکھی جس میں ٹماٹر، مرچ اور کئی سبزیاں بھی تھیں۔ انھوں نے جب یہ کہا کہ ہم پولیس کی حفاظت میں آئے ہیں کیونکہ ہمارے پاس جو چیزیں ہیں ان کے راستے میں لٹ جانے کا خطرہ تھا، تو بے ساختہ ہنسی آگئی۔ اس وقت ان اشیا کی گرانی پر اس سے زبردست چوٹ نہیں ہو سکتی۔


اسی طرح پون کھیڑا بھی کمال کے آدمی ہیں۔ وہ اس وقت ملک کے ایسے کامیاب ڈبیٹر ہیں جن کا نام دیگر ڈبیٹرز میں سرفہرست ہے۔ جب اس بارے میں ہم نے کانگریس کے میڈیا سیل کے ایک اہم رکن سابق ممبر آف پارلیمنٹ م افضل سے دریافت کیا تو انھوں نے کہا کہ کانگریس کے سوشل میڈیا سیل کے بارے میں جو تفصیلات سامنے آئی ہیں وہ بالکل درست ہیں اور انھیں کوئی بھی سوشل میڈیا پلیٹ فارمس پر جا کر چیک کر سکتا ہے۔ انھوں نے بتایا کہ پون کھیڑا نے جو کہ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے ہیڈ ہیں، جو حکمت عملی بنائی ہے اس سے بھی پارٹی کو زبردست فائدہ پہنچ رہا ہے۔ م افضل اسی شعبے سے وابستہ ہیں۔

م افضل کے مطابق سینئر پارٹی رہنما راہل گاندھی کی بھارت جوڑو یاترا سے پارٹی کارکنوں اور رہنماؤں میں ایک نیا جوش پیدا ہوا ہے۔ اس یاترا نے پارٹی کے سوشل میڈیا سیل کو زبردست تقویت بخشی ہے۔ اسی کے ساتھ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ سوشل میڈیا نے بھی بھارت جوڑو یاترا کو مشتہر کرنے میں بڑا اہم کردار ادا کیا۔ اس نے یاترا کو ملک کے عام شہریوں تک پہنچا دیا۔ جے رام رمیش نہ صرف یہ کہ شروع سے آخر تک یاترا میں شامل رہے ہیں بلکہ انھوں نے اس دوران دہلی آکر یا دوسرے شہروں میں بھی میڈیا اور بالخصوص سوشل میڈیا سے رابطہ قائم کیے رکھا۔


ہمیں آزاد ذرائع سے یہ بھی اطلاع ملی ہے کہ یاترا کے دوران متعدد نیوز چینلوں نے ان سے رابطہ قائم کیا اور یاترا کی کوریج کرنے کی خواہش ظاہر کی۔ لیکن کانگریس نے ان کو اس کی اجازت نہیں دی۔ کیونکہ ان کی یہ درخواست بربنائے خلوص نہیں بلکہ بربنائے شرانگیزی رہی ہے۔ جے رام رمیش نے اس دوران متعدد پریس کانفرنسیں بھی کیں۔ اس یاترا نے کرناٹک اور ہماچل پردیش میں کانگریس کی کامیابی میں اہم کردار ادا کیا۔ امید کی جاتی ہے کہ آنے والے اسمبلی انتخابات اور پھر پارلیمانی انتخابات میں بھی یاترا کا اثر دکھائی دے گا۔

بی جے پی کا سوشل میڈیا سیل جس طرح راہل گاندھی کے خلاف بے بنیاد، مضحکہ خیز اور توہین آمیز مہم چلاتا رہا ہے اس سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کانگریس کے سوشل میڈیا سیل کے حملوں سے وہ گھبرا اٹھا ہے۔ بی جے پی کے سوشل میڈیا سیل کے سربراہ امت مالویہ فوٹو اور ویڈیو میں چھیڑ چھاڑ کرکے راہل گاندھی کو پہلے بھی بدنام کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں اور اب بھی کر رہے ہیں۔ اس تعلق سے ان کے خلاف مقدمہ بھی درج کرایا گیا ہے۔ بی جے پی کی اس حرکت کے جواب میں کانگریس نے ایسی کوئی غیر اخلاقی حرکت نہیں کی۔ اس کی جانب سے صحیح حقائق عوام کے سامنے پیش کیے جاتے ہیں جس کا خاصا اثر پڑتا ہے۔


کانگریس کے سوشل میڈیا سیل نے حالیہ دنوں میں کرنٹ ایشوز کو خوب اٹھایا ہے۔ اس نے ملک کو درپیش یومیہ مسائل پر گفتگو کرکے اور مہنگائی اور بے روزگاری کے مسائل کو اٹھا کر عوام کے ایک بڑے طبقے کو اپنی جانب راغب کیا ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی کی بھوپال میں تقریر کے بعد یونیفارم سول کوڈ کا مسئلہ گرم ہو گیا ہے۔ لا کمیشن نے اس پر عوام سے رائے طلب کی ہے۔ مسلمانوں کے ساتھ ساتھ دیگر اقلیتی طبقات کی جانب سے بھی اس کی مخالفت کی جا رہی ہے۔ کانگریس نے اس معاملے کو بھی اٹھایا اور اس کے میڈیا سیل نے اس پر حکومت کو اپنا موقف واضح کرنے کو کہا ہے۔ کانگریس کی اس پالیسی کی وجہ سے ہی آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے ایک وفد نے کانگریس صدر ملکارجن کھڑگے سے ملاقات کی ہے۔

کانگریس کو چاہیے کہ وہ اس معاملے پر بی جے پی کے خلاف کھل کر اور جارحانہ انداز میں مہم چلائے۔ کیونکہ یونیفارم سول کوڈ نہ تو مذہبی اقلیتوں کے حق میں ہے اور نہ ہی مجموعی طور پر ملک کے مفاد میں ہے۔ بی جے پی اس معاملے کو ہوا دے کر عوام کو مذہب کے نام پر تقسیم کرنا چاہتی ہے تاکہ پارلیمانی انتخابات میں اس سے فائدہ اٹھا سکے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔