ہندوستانی مسلمانوں کے مسائل اور ان کا حل

ہندوستانی مسلمان تعلیمی، معاشی، سماجی اور سیاسی چیلنجز کا سامنا کر رہے ہیں۔ ان کا حل تعلیم، سیاسی بیداری، باہمی ہم آہنگی اور حکومتی تعاون میں ہے تاکہ وہ ترقی کی راہ پر گامزن ہوں

<div class="paragraphs"><p>ہندوستانی مسلمان / تصویر اے آئی</p></div>

ہندوستانی مسلمان / تصویر اے آئی

user

قومی آواز تجزیہ

ہندوستان ایک کثیرالمذاہب، کثیرالسان اور کثیرالثقافتی ملک ہے جس میں مسلمان دوسری سب سے بڑی آبادی ہیں۔ ہندوستانی مسلمان ایک تاریخی، تہذیبی اور ثقافتی ورثے کے حامل ہیں۔ تاہم، آزادی کے بعد سے لے کر آج تک، ہندوستانی مسلمان کئی سماجی، معاشی، تعلیمی اور سیاسی چیلنجز کا سامنا کر رہے ہیں۔ ان مسائل کی جڑیں صرف سیاسی یا اقتصادی نہیں بلکہ سماجی اور نفسیاتی سطح پر بھی پھیلی ہوئی ہیں۔

تعلیم ہر قوم کی ترقی کی کنجی ہے لیکن بدقسمتی سے ہندوستانی مسلمان تعلیمی میدان میں پیچھے رہ گئے ہیں۔ سچر کمیٹی رپورٹ (2006) کے مطابق مسلمانوں میں شرح خواندگی قومی اوسط سے کم ہے۔ مدارس کا نظام جدید تعلیمی تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں اور عصری تعلیم سے دوری نوجوانوں کو مواقع سے محروم رکھتی ہے۔

مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔ سرکاری ملازمتوں، پرائیویٹ سیکٹر اور تجارت میں ان کی نمائندگی بہت کم ہے۔ چھوٹے پیمانے کی تجارت، دستکاری اور غیر منظم مزدوری ان کا ذریعہ معاش ہے، جو ناپائیدار اور کم آمدنی والے شعبے ہیں۔

آبادی کے لحاظ سے مسلمان ایک بڑی اقلیت ہونے کے باوجود سیاسی میدان میں ان کی آواز کمزور ہے۔ اکثر سیاسی جماعتیں مسلمانوں کو ووٹ بینک کے طور پر استعمال کرتی ہیں مگر ان کے بنیادی مسائل پر توجہ نہیں دیتیں۔ نتیجتاً مسلمان اپنے سیاسی حقوق اور نمائندگی سے محروم رہ جاتے ہیں۔ گزشتہ کچھ دہائیوں سے ہندوستان میں مسلمانوں کے خلاف تعصب اور نفرت میں اضافہ ہوا ہے۔ مختلف ریاستوں میں فرقہ وارانہ فسادات، موب لنچنگ اور گائے کے تحفظ کے نام پر تشدد کے واقعات مسلمانوں کو خوف میں مبتلا کرتے ہیں۔ میڈیا کا ایک حصہ بھی مسلمانوں کی منفی تصویر پیش کرتا ہے۔


مسلمانوں کو اکثر شک کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ ان کی حب الوطنی پر سوال اٹھائے جاتے ہیں اور انہیں ’غیر‘ سمجھا جاتا ہے۔ اس سے ان کی ذہنی صحت، خود اعتمادی اور قومی یکجہتی متاثر ہوتی ہے۔ مسلمان خواتین کو دوہری پسماندگی کا سامنا ہے، ایک طرف وہ عام صنفی امتیاز کا شکار ہیں، دوسری طرف مذہبی و سماجی پابندیوں نے ان کی ترقی کی راہیں مسدود کر دی ہیں۔ تعلیم، روزگار اور صحت کی سہولیات تک ان کی رسائی محدود ہے۔

اس کے حل کے لئے مسلمانوں کو تعلیم کو اپنی پہلی ترجیح بنانا ہوگا۔ والدین کو بچوں، خاص کر بچیوں کی تعلیم پر توجہ دینی چاہیے۔ مدارس کی اصلاح ضروری ہے تاکہ دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ جدید مضامین (سائنس، ریاضی، انگریزی) کو بھی شامل کیا جائے جو بہت حد تک شامل کر لئے گئے ہیں۔ سرکار کو مسلمانوں کے لیے اسکالرشپ، تعلیمی ادارے اور ہاسٹل جیسی سہولیات بڑھانے کی ضرورت ہے۔

مسلمانوں کو چھوٹے کاروبار، ہنر مندی، اور اسٹارٹ اپس میں آگے بڑھنے کے مواقع دیے جائیں اور اس تعلق سے سرکار کو مسلمانوں کی مدد کرنی چاہئے۔ بینکوں کو چاہیے کہ مسلمانوں کو آسان قرضہ جات مہیا کریں تاکہ وہ مالی طور پر خود مختار بن سکیں۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ صرف ووٹ ڈالنے تک محدود نہ رہیں بلکہ سیاسی جماعتوں میں فعال کردار ادا کریں۔

باشعور، تعلیم یافتہ مسلمان نوجوانوں کو سیاست میں آ کر قیادت کرنی چاہیے اور سیاسی پارٹیوں کو بھی بلا تفریق مسلم نوجوانوں کو ان کی صلاحیت کے مطابق سیاسی جگہ دینی چاہئے۔ مسلمانوں کو اپنے مسائل کے لیے منظم ہو کر آواز اٹھانی ہوگی، بجائے اس کے کہ وہ صرف احتجاج تک محدود رہیں۔


مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ مختلف مذاہب کے ساتھ باہمی ہم آہنگی اور میل جول کو فروغ دیں جس شعبہ میں مسلمانوں کے ایک طبقہ نے اس کو ہمیشہ سے اپنا شعور بنایا ہوا ہے۔ بین المذاہب مکالمہ، ثقافتی پروگرام اور مشترکہ سماجی خدمات کے ذریعے ایک دوسرے کو قریب لایا جا سکتا ہے۔ میڈیا میں مثبت مسلمان کرداروں کو اجاگر کرنا چاہیے۔

مسلم خواتین کی تعلیم، صحت اور روزگار کے شعبے میں شراکت کو بڑھایا جانا چاہئے۔ کمیونٹی سطح پر خواتین کے لیے خصوصی پروگرام، تربیتی ورکشاپس اور خود روزگاری کے منصوبے شروع کیے جائیں۔ خواتین کے مذہبی اور قانونی حقوق پر آگاہی پیدا کی جائے۔

مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اپنے قانونی حقوق سے آگاہ ہوں اور ضرورت پڑنے پر قانونی چارہ جوئی کریں۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ فرقہ وارانہ جرائم پر سختی سے کاروائی کرے اور انصاف کی فراہمی کو یقینی بنائے۔ انسانی حقوق تنظیموں کو چاہیے کہ مسلمانوں کے خلاف امتیازی سلوک کے خلاف آواز بلند کریں۔

ہندوستانی مسلمان ایک عظیم ورثے کے امین ہیں، مگر اس وقت کئی چیلنجز سے دوچار ہیں۔ ان مسائل کا حل صرف حکومت یا سیاسی جماعتوں کی ذمہ داری نہیں بلکہ خود مسلمانوں کو بھی چاہیے کہ وہ بیدار ہوں، منظم ہوں اور ترقی کے راستے پر گامزن ہوں۔ تعلیم، اتحاد، سیاسی شعور اور سماجی اصلاح کے ذریعے مسلمان نہ صرف اپنی حالت بدل سکتے ہیں بلکہ ملک کی ترقی میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ وقت کا تقاضا ہے کہ مسلمان شکوہ شکایت سے نکل کر عمل کی راہ اپنائیں، تبھی ایک باوقار، خوشحال اور محفوظ مستقبل ممکن ہو سکے گا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔