غزہ کے اسپتال پر بمباری اور بجلی پانی روک کر اسرائیلی حکمراں جنگی جرائم کا ارتکاب کر رہے

صیہون نے ہگانہ نام کی دہشت گرد تنظیم کی تشکیل کی جس نے فلسطین میں دہشت گردانہ کارروائی شروع کر دی تھی اور تبھی سے کسی نہ کسی شکل میں فلسطینیوں کی مزاحمت کا سلسلہ بھی چل رہا ہے۔

<div class="paragraphs"><p>Getty Images</p></div>

Getty Images

user

عبیداللہ ناصر

دنیا کے ممتاز مفکر اور دانشور پروفیسر نوم چومسکی نے فلسطین-اسرائیل جنگ پر یہ دل چیر دینے والا تبصرہ کر کے پورے تنازعہ کا احاطہ کر لیا ہے کہ ’’تم میرا پانی لے لو، میرے زیتون کے درختوں کو آگ لگا دو، میرے گھر پھونک دو، میرا روزگار چھین لو، میری زمین پر قبضہ کر لو، میرے باپ کو قید کر لو، میری ماں کو قتل کر دو، میرے وطن پر بموں کی بارش کر دو، ہمیں بھوکا پیاسا مار دو، ہماری عزت اتارتے رہو، مگر مجرم بھی ہمیں ہیں... کیونکہ ہم نے ایک راکٹ چھوڑ دیا تھا۔‘‘ دنیا میں اگر کسی قوم کے ساتھ ظلم، زیادتی، ناانصافی، تشدد اور عالمی برادری کی بے حسی کی تاریخ لکھی جائے گی تو من حیث القوم دنیا کی مظلوم ترین قوم فلسطینیوں کی ہی تاریخ ہوگی مگر اس کے ساتھ ہی ایک بات اور لکھی جائے گی، وہ یہ کہ دنیا کا بدترین ظلم اور ناانصافی جھیلنے والی اس بہادر غیرت مند قوم نے اپنے حق اور انصاف کے حصول کے لیے جو مزاحمت کی ہے، جو قربانیاں دی ہیں اور بہادری کا مظاہرہ کیا ہے وہ بے مثال ہے۔

انتھونی بوردیان نے فلسطینیوں کی ہمت اور بہادری کا ذکر کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’آج دنیا میں زیادہ تر چیزیں چین کی بنی ہوئی ہیں مگر ہمت اور حوصلہ فلسطین کا ہی بنا ہوا ملیگا۔‘‘ 1917 میں برٹش وزیر خارجہ لارڈ باالفورس کے رسوائے زمانہ اعلانیہ کے بعد کہ تاج برطانیہ فلسطین میں یہودیوں کو بسانے کے لیے ان کے لیے ایک الگ ملک اسرائیل کے قیام کو منظوری دیتا ہے، یہودیوں کی انتہا پسند تنظیم صیہون نے ہگانہ نام کی دہشت گرد تنظیم کی تشکیل کی جس نے فلسطین میں دہشت گردانہ کارروائی شروع کر دی تھی اور تبھی سے کسی نہ کسی شکل میں فلسطینیوں کی مزاحمت کا سلسلہ بھی چل رہا ہے۔ 1948 میں اسرائیل کے باقاعدہ قیام اور فلسطین کی تقسیم کے بعد یہ مزاحمت پوری شدت سے شروع ہو گئی تھی، لیکن اسرائیل کے قیام کے بعد ہگانہ کے دہشت گردوں کو اسرائیل کی فوج میں شامل کر لیا گیا۔ ادھر فلسطینیوں نے بھی کئی تنظیمیں بنا کر اپنی مزاحمت شروع کر دی۔ یہاں یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ اسرائیل کے خلاف اس مزاحمت میں صرف فلسطینی مسلمان ہی نہیں شامل تھے بلکہ فلسطینی عیسائی اور یہودی بھی شال تھے۔ جارج ہباش عیسائی تھے تو لیلیٰ خالد یہودی تھیں۔ مختصر یہ کہ بقول فیض ’نہ اپنی جیت نئی ہے نہ ان کی ہار نئی‘۔


فلسطینیوں کی مزاحمت اور اسرائیل کے مظالم دونوں ساتھ ساتھ جاری ہیں اور اگر عالمی برادری یہ سمجھتی ہے کہ بغیر کسی انصاف پر مبنی آبرو مندانہ تصفیہ کے یہ مسئلہ حل ہو جائے گا تو وہ احمقوں کی جنت میں رہتا ہے۔ یہ درست ہے کہ امریکا برطانیہ اور دیگر مغربی ملکوں کی اندھی حمایت سے اسرائیل اب تک فاتح رہا ہے لیکن یہ بھی درست ہے کہ بے مثال قربانیاں دے کر بھی فلسطینیوں نے شکست نہیں تسلیم کی ہے۔ رہ گئی عرب اور مسلم ملکوں کی بات تو ان سے اس مسئلہ پر چاہے جتنا پیسہ لے لو، چاہے جتنی لفاظی کرا لو، لیکن یہ ساحل کے تماشائی ہی بنے رہیں گے۔ یہ ڈوبنے والے سے ہمدردی تو کریں گے لیکن امداد نہیں کریں گے، ورنہ بقول مرحوم علامہ خمینی کے اگر عرب عوام ایک ساتھ مل کر ایک ایک لوٹا پانی ڈالیں تو اسرائیل اس میں بہہ جائے گا، مگر اے کاش؟

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔