بہار نئی تاریخ لکھنے کی راہ پر...سہیل انجم

کانگریس نے تیجسوی یادو کو مہاگٹھ بندھن کا وزیر اعلیٰ امیدوار قرار دے کر این ڈی اے کو چت کر دیا، ابھی وہ جھٹکے سے سنبھلا بھی نہیں تھا کہ ممکنہ مسلم نائب وزیر اعلیٰ کے اعلان نے دوسری کاری ضرب لگا دی

<div class="paragraphs"><p>مہا گٹھ بندھن کی پریس کانفرنس / آئی اے این ایس</p></div>
i
user

سہیل انجم

بہار میں اسمبلی انتخابات کی گہما گہمی شروع ہو چکی ہے۔ انتخابی میدان میں یوں تو ایک نئی جماعت پرشانت کشور کی ’جن سوراج پارٹی‘ اور اسد الدین اویسی کی پرانی پارٹی ’اے آئی ایم آئی ایم‘ اور کچھ چھوٹی پارٹیاں بھی قسمت آزمائی کر رہی ہیں لیکن اصل مقابلہ بی جے پی کی قیادت والے این ڈی اے اور کانگریس کی قیادت والے مہا گٹھ بندھن یا ’انڈیا اتحاد‘ کے درمیان ہے۔ بظاہر یہ اسی طرح کا ایک الیکشن ہے جیسا کہ پہلے بھی ہوتا رہا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس بار بہار کا الیکشن کچھ الگ ہے۔ بہار ایک نئی تاریخ لکھنے جا رہا ہے۔ انتخابی میدان میں بظاہر مہا گٹھ بندھن کا پلڑا بھاری دکھائی دیتا ہے لیکن انتخابات میں آخری لمحوں میں بھی بہت کچھ الٹ پلٹ جاتا ہے اور نتائج کچھ کے کچھ ہو جاتے ہیں۔

انتخابی مہم کے آغاز سے قبل این ڈی اے کی پوزیشن مضبوط دکھائی دے رہی تھی اور مہا گٹھ بندھن کی کمزور لیکن کانگریس کے ایک داؤ نے این ڈی اے کو بظاہر چت کر دیا ہے۔ اس داؤ سے لگنے والا زخم ابھی بھرا بھی نہیں تھا کہ دوسری ضرب بھی لگ گئی۔ ابھی تک کسی بھی محاذ نے وزیر اعلیٰ کے امیدوار کا اعلان نہیں کیا تھا جس پر این ڈی اے کے رہنما مہا گٹھ بندھن کو گھیرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ حالانکہ خود این ڈی اے نے بھی اعلان نہیں کیا ہے لیکن گزشتہ دنوں جب راجستھان کے سابق وزیر اعلیٰ اور سینئر کانگریس رہنما اشوک گہلوت نے پٹنہ میں جا کر ایک پریس کانفرنس کی اور آر جے ڈی رہنما اور سابق نائب وزیر اعلیٰ تیجسوی یادو کو وزیر اعلیٰ کا امیدوار بنانے کا اعلان کیا تو اس محاذ کو گھیرنے والا این ڈی اے خود گھر گیا۔ گہلوت نے تیجسوی کے نام کے اعلان کے ساتھ ’وکاس شیل انصاف پارٹی‘ کے لیڈر مکیش سہنی کو نائب وزیر اعلیٰ کا امیدوار قرار دیا۔

اس اعلان سے زخم خوردہ این ڈی اے کے رہنما اور ترجمان یہ پوچھنے لگے کہ ساڑھے تین فیصد آبادی کے لیڈر کو تو نائب وزیر اعلیٰ بنایا جا رہا ہے لیکن ساڑھے انیس فیصد آبادی والوں میں سے یعنی مسلمانوں میں سے کسی کو نائب وزیر اعلیٰ کیوں نہیں بنایا گیا۔ ذرا سوچیے کہ بی جے پی مسلمانوں کے حق میں آواز بلند کر رہی ہے جو کسی مسلمان کو اپنا امیدوار بنانا پسند نہیں کرتی لیکن اس سے پہلے کہ وہ لوگ مزید تنازع پیدا کریں تیجسوی یادو نے ایک انٹرویو میں اشارہ دے دیا کہ ایک نائب وزیر اعلیٰ مسلمان بھی ہو سکتا ہے۔ خود اشوک گہلوت نے بھی اپنی پریس کانفرنس میں اس سلسلے میں واضح طور پر کہا تھا کہ بعد میں ایک اور نائب وزیر اعلیٰ بنایا جائے گا۔ مہا گٹھ بندھن کے اس دوسرے داو پر این ڈی اے والوں سے کوئی جواب نہیں بن پا رہا ہے۔

اس الیکشن میں ابھی تک کسی بھی محاذ کی جانب سے انتخابی منشور جاری نہیں کیا گیا ہے۔ توقع ہے کہ مہا گٹھ بندھن کی جانب سے 28 اکتوبر کو منشور جاری کیا جائے گا۔ تجزیہ کاروں کے مطابق اس میں پولیس فورس کو سیاست سے الگ کرنے، اسٹیشن انچارجوں کی شفاف تقرری اور لا اینڈ آرڈر کو مضبوط کرنے سمیت متعدد ایشوز پر زور دیا جائے گا۔ مہا گٹھ بندھن نے ریاست میں لا اینڈ آرڈر کی خراب صورتحال کے پیش نظر اس حکومت کو غنڈہ راج قرار دیا ہے۔ اس کے علاوہ روزگار پر خصوصی توجہ دی جائے گی تاکہ روزگار کی تلاش میں بہار کے نوجوانوں کو دوسری ریاستوں کا رخ نہ کرنا پڑے۔


سینئر کانگریس رہنما راہل گاندھی نے بھی اس جانب اشارہ کیا ہے۔ انھوں نے گزشتہ دنوں کہا کہ بہار کا نوجوان بے روزگاری سے پریشان ہے۔ وہ دوسری ریاستوں میں جانے کے لیے مجبور ہے۔ وہ ملازمتوں کے لیے ہونے والے امتحانوں کے پرچے لیک ہونے سے بھی فکرمند ہے۔ جب وہ انصاف کا مطالبہ کرتا ہے تو اس پر لاٹھیاں برسائی جاتی ہیں۔ یاد رہے کہ گزشتہ دنوں ایسے کئی واقعات پیش آئے ہیں جب ملازمت اور روزگار کا مطالبہ کرنے والے نوجوانوں پر لاٹھی چارج کیا گیا ہے۔ انھوں نے وہاں کے نوجوانوں کو یہ یقین دلایا کہ ہم نوجوانوں کے بہتر مستقبل کے تحفظ کے لیے تمام ضروری اقدامات کریں گے۔

تیجسوی یادو نے جہاں ہر گھر کے لیے روزگار اور روزی روٹی کو یقینی بنانے کا اعلان کیا ہے وہیں کانگریس نے مفت بجلی اور گیس سلینڈر پر چھوٹ کا اعلان کیا ہے۔ بہار میں خواتین ووٹر ایک بڑی طاقت ہے۔ این ڈی اے نے خواتین کو دس دس ہزار روپے دینے کا اعلان کیا ہے۔ تیجسوی نے بھی اس مخصوص ووٹر کی فلاح و بہبود پر نظر رکھی ہے۔ انھوں نے ”خود امداد گروپوں“ سے وابستہ خواتین کو ملازمت اور تیس ہزار روپے ماہانہ وظیفہ دینے کا بھی اعلان کیا ہے۔ انھوں نے کنٹریکٹ ملازمین کی ملازمتوں کو مستقل کرنے کا بھی اعلان کیا ہے۔ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ مہا گٹھ بندھن کے ان اعلانات کا خوشگوار اثر پڑے گا۔

یوں تو بہار میں کئی ایشوز ہیں جن کا انتخابی امکانات پر اثر پڑے گا لیکن ان میں سب سے اہم روزگار کا مسئلہ ہے۔ تھنک ٹینک لوک نیتی۔سی ایس ڈی ایس نے 2015 میں ایک سروے کیا تھا جس کے مطابق بہار میں 9 فیصد رائے دہندگان کے لیے سب سے اہم مسئلہ روزگار تھا۔ لیکن 2020 میں یہ بڑھ کر 21 فیصد ہو گیا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ 2015 تک بہار میں اتنی بے روزگاری نہیں تھی جتنی کہ 2020 یا اب تک ہو گئی ہے۔ بہار میں بے روزگاری کی شرح پانچ فیصد سہ ماہی اور تین فیصد سالانہ ہے۔ جبکہ قومی سطح پر یہ شرح علیٰ الترتیب ساڑھے پانچ فیصد اور چار فیصد ہے۔ بہار میں نوجوان سب سے زیادہ ہیں اور وہی سب سے زیادہ بے روزگار ہیں۔ لہٰذا نوجوانوں کے لیے اگر کوئی مسئلہ سب سے بڑا ہے تو وہ روزگار کا ہے۔

لیبر اور بے روزگاری سے متعلق مرکزی وزارت کے ایک سروے کے مطابق بہار میں بے روزگاری کی شرح تین اعشاریہ چار فیصد ہے جبکہ قومی شرح تین اعشاریہ دو فیصد ہے۔ یعنی قومی شرح سے زیادہ۔ لیکن شہری علاقوں میں صور تحال کہیں زیادہ خراب ہے جہاں نوجوانوں کی بے روزگاری کی شرح دس اعشاریہ آٹھ فیصد ہے۔ پرائیویٹ سیکٹر میں صرف ایک اعشاریہ نو فیصد نوجوان ملازمت کرتے ہیں۔ جبکہ یہ شرح قومی سطح پر گیارہ اعشاریہ تین فیصد ہے۔ اس بے روزگاری کی وجہ سے سالانہ ہزاروں نوجوان بہار چھوڑنے پر مجبور ہوتے ہیں۔


صحت، تعلیم، ٹرانسپورٹ اور شہری منصوبہ بندی کے شعبوں میں بنیادی ڈھانچہ بے حد خراب ہے۔ حالیہ دنوں میں جو بارش ہوئی ہے اس نے تو بنیادی ڈھانچے کی قلعی کھول دی ہے۔ اسپتال، اسکول، سرکاری عمارتوں اور سڑکوں کی حالت تو انتہائی خستہ ہو گئی۔ جس کی وجہ سے روزمرہ کی زندگی عذاب بن کر رہ گئی۔ شمالی بہار میں سیلاب ایک اہم ایشو ہے۔ حالیہ سیلاب کی وجہ سے ہزاروں خاندان بے گھر ہو گئے اور انھیں محفوظ مقامات پر پناہ لینی پڑی۔ ان ایشوز کے علاوہ کرپشن کا بھی بول بالا ہے۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ وزیر اعلیٰ نتیش کمار بیمار ہیں۔ وہ صرف ایک مکھوٹہ ہیں سرکار افسر شاہی چلا رہی ہے۔

بہار میں اسمبلی کی کل 243 نشستیں ہیں۔ جن پر دو مرحلوں میں یعنی چھ نومبر اور گیارہ نومبر کو ووٹ ڈالے جائیں گے۔ 14 نومبر کو ووٹوں کی گنتی ہوگی۔ رائے دہندگان کی مجموعی تعداد سات کروڑ بائیس لاکھ ہے۔ اسمبلی کی مدت 22 نومبر کو ختم ہو جائے گی اور انتخابات سے متعلق تمام سرگرمیاں 16 نومبر تک مکمل کر لی جائیں گی۔ اگر انتخابی نتائج مہا گٹھ بندھن کے حق میں آئے تو سیاسی استحکام قائم ہو جائے گا کیونکہ وزیر اعلیٰ کی کرسی کے لیے لڑائی نہیں ہوگی۔ لیکن اگر این ڈی اے کی حکو مت آئی تو پھر سیاسی بحران پیدا ہو جائے گا۔ کیونکہ وزیر اعلیٰ نتیش کمار وزیر اعلیٰ سے کم پر تیار نہیں ہوں گے اور بی جے پی اس بار انھیں کسی بھی قیمت پر وزیر اعلیٰ بنانے کے موڈ میں نہیں ہے۔