خود نوشت سوانح یا احسان فراموشی کی دستاویز؟... سراج نقوی

بہرحال ٓازاد کا ریکارڈ اس بات کا گواہ ہے کہ کانگریس نے انھیں جب بھی کوئی اہم ذمہ داری سونپی وہ اسے نبھانے میں ناکام رہے اور یہ ناکامی 2014 میں راجیہ سبھا رکن اور اپوزیشن لیڈر بننے کے بعد تک جاری رہی۔

<div class="paragraphs"><p>سوشل میڈیا</p></div>

سوشل میڈیا

user

سراج نقوی

سابق کانگریس لیڈر غلام نبی آزاد کی خود نوشت سوانح آج کل درباری میڈیا کی سرخیوں میں ہے۔ ظاہر ہے ہر وہ بات جو کانگریس یا کسی بھی بڑی اپوزیشن پارٹی کے کسی باغی لیڈر نے کہی ہو اور ساتھ ہی مودی کی قصیدہ خوانی بھی کی ہو، اسے درباری میڈیا فوراً لپک لیتا ہے اور اس پر اس طرح گفتگو شروع ہو جاتی ہے کہ جیسے ملک کا سب سے اہم مسئلہ یہی ہے۔ کانگریس چھوڑ کر اپنی پارٹی بنانے والے کشمیری لیڈر غلام نبی آزاد کی خود نوشت سوانح کا بھی یہی معاملہ ہے۔ حکمراں جماعت غلام نبی آزاد کو ان کی ’مودی خوانی‘ کا مستقبل میں کیا انعام دے گی اس پر فی الحال کوئی قیاس آرائی مناسب نہیں، لیکن جس انداز سے وہ کانگریس پر تنقید کر رہے ہیں اسے کانگریس کے تعلق سے ان کی احسان فراموشی کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ اس لیے کہ ان کی طرف سے کانگریس پر لگائے گئے الزامات کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ تما م الزامات آزاد کے اس frustration کی پیداوار ہیں کہ جو ان میں کانگریس کے ذریعہ دوبارہ راجیہ سبھا نہ بھیجنے کے سبب پیدا ہوا ہے۔

غلام نبی آزاد کی مذکورہ خود نوشت سوانح کا رسم اجرا حال ہی میں ہوا ہے۔ کیونکہ اس کتاب میں ایسا بہت کچھ ہے جو بی جے پی یا مودی سرکار کو کانگریس کے خلاف مورچہ کھولنے میں مددگار ہو سکتا ہے اس لیے آزاد درباری میڈیا کے بھی نور نظر بنے ہوئے ہیں۔ اس کتاب کے تعلق سے وہ چینلوں کو انٹرویو دے رہے ہیں اور کانگریس کے خلاف وہ سب کچھ کہہ رہے ہیں جو اکثر باغی لیڈر کہتے ہیں۔ ایسے ہی ایک انٹر ویو میں غلام نبی آزاد نے کہا ہے کہ وہ اس لیے کانگریس کے صدر نہیں بن پائے کہ وہ مسلمان ہیں۔ کانگریس غلام نبی آزاد کے اس الزام کا کیا جواب دیتی ہے یہ وہ جانے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ غلام نبی آزاد کانگریس کے ان چند اور گنے چنے لیڈروں میں رہے ہیں جنھیں بغیر کسی عوامی مقبولیت کے بھی کانگریس نے بہت نوازا، اور ا س کا سبب یہ تھا کہ کانگریس انھیں مسلم چہرے کے طور پر تسلیم کرتی رہی۔ حالانکہ یہ بھی سچ ہے کہ کانگریس میں ہر دور میں ایسے مقبول عام مسلم لیڈر رہیں جن کی عوام پر مضبوط گرفت تھی اور جن کی کوششوں سے کانگریس کو مسلمانوں کی حمایت بھی ملتی رہی، جبکہ دوسری طرف غلام نبی آزاد پر بھروسہ کر کے کانگریس نے انھیں جو بھی ذمہ داریاں دیں ان پر وہ کبھی کھرے نہیں اترے۔


آزاد کے مذکورہ الزام کو اگر درست مان لیا جائے تو پھر ان سے یہ سوال بھی کیا جانا چاہیے کہ کانگریس اعلیٰ قیادت نے انھیں مختلف مواقع پر جو اہم ذمہ داریاں دیں اس میں ان کا مسلمان ہونا رکاوٹ کیوں نہیں بنا؟ ان سے یہ سوال بھی کیا جانا چاہیے کہ اپنی راجیہ سبھا رکنیت کے آخری دور میں جب وہ راجیہ سبھا میں کانگریس پارلیمانی پارٹی کے لیڈر تھے انھوں نے کانگریس قیادت کے سامنے اپنا یہ دکھ کیوں نہیں بیان کیا کہ پارٹی کے لیے ان کی ’بے مثال خدمات‘ کے عوض انھیں پارٹی صدر بنایا جانا چاہیے۔ آزاد نے شائد انکساری سے کام لیا ورنہ ان کا درد تو شائد یہ بھی ہو کہ جب سونیا نے وزیر اعظم بننے سے انکار کرکے منموہن سنگھ کی اس عہدے کے لیے حمایت کی تھی تو آزاد کا نام اس عہدے کے لیے آگے بڑھایا جانا چاہیے تھا۔

آزاد کو راجیہ سبھا نہ بھیجنے کے کانگریس کے فیصلے سے پہلے آزاد نے پارٹی کے خلاف کبھی لب کشائی تک نہیں کی، اور یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ آزاد چاہتے تھے کہ ان جیسے ہوا باز لیڈر کو صرف اس بنا پر نوازا جاتا رہے کہ وہ پارٹی کا مسلم چہرہ ہیں۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ ہندوستان کے مسلمانوں میں ان کی کوئی حیثیت کبھی نہیں رہی۔ اپنی کتاب کی رسم اجرا کے بعد ایک درباری چینل کو دیئے گئے اس انٹرویو میں آزاد نے پارٹی کے لیے اپنی مبینہ خدمات کا بھی خوب ڈھول بجایا اور کہا کہ وہ آنجہانی اندرا گاندھی کے لیے 1978میں جیل بھی گئے۔ غلام نبی آزاد کے اس ’احسان‘ کو ان کی کم فہمی پر ہی محمول کیا جانا چاہیے۔ اس لیے کہ اگر اندرا گاندھی کی حمایت میں جیل جانا ہی کسی لیڈر کو پارٹی صدر بنانے کے لیے ایک مضبوط بنیاد ہو سکتی ہے تو کانگریس کے وہ ہزاروں کارکن بھی عہدہ صدارت کے حقدار قرار پائیں گے کہ جن کی حیثیت ’گمنام شہیدوں‘ سے زیادہ نہیں رہی۔


آزاد کا کہنا ہے کہ انھوں نے راہل گاندھی کے سبب کانگریس چھوڑی ہے۔ سوال یہ ہے کہ جب راہل کانگریس کے صدر تھے تب انھوں نے اس کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے کانگریس چھوڑنے کا فیصلہ کیوں نہیں کیا؟ اور کیوں راجیہ سبھا میں دوبارہ نہ بھیجے جانے کے پارٹی قیادت کے فیصلے کے بعد ہی راہل کی قیادت پر انھوں نے سوالیہ نشان لگایا؟ آزاد کا یہ بھی الزام ہے کہ کانگریس میں آزادی کے بعد کوئی بھی مسلمان پارٹی صدر نہیں بن پایا، لیکن اس الزام کے بعد انھیں یہ بھی بتانا چاہیے کہ جس پارٹی میں مسلمانوں کے ساتھ اس حد تک تفریق برتی جا رہی تھی اس میں وہ کیوں ’ملائی‘ کھاتے رہے اور اس وقت پارٹی چھوڑنے کا فیصلہ کیا جب پارٹی نے ان پر اپنے احسانات کا سلسلہ ترک کر دیا؟

غلام نبی ٓزاد کہتے ہیں کہ ”راہل گاندھی نے 2019 میں کانگریس کا عہدہ صدارت کیوں چھوڑا اگر یہ بتا دیں تو زلزلہ آجائے گا، اور وہ یہ بتانا نہیں چاہیں گے۔“ عجیب بات ہے کہ آزاد ایک طرف کانگریس اور اس کی قیادت کے خلاف تند و تیز حملوں سے بھی گریز نہیں کر رہے ہیں اور دوسری طرف راہل گاندھی کے ذریعہ کانگریس کا عہدہ صدارت چھوڑنے کے ’پیچھے کی کہانی‘ بتانے سے بھی گریزاں ہیں۔ دراصل اس طرح کا بیان اپنی سابقہ پارٹی کے تعلق سے عوام میں بے بنیاد شک و شبہات پیدا کرنے کی کوشش کے سوا کچھ نہیں۔ آزاد کہتے ہیں کہ انھوں نے کانگریس کو بہت کچھ دیا لیکن انھیں ملا کچھ نہیں۔ لیکن یہ ان کی احسان فراموشی کے سوا کچھ نہیں۔ انھیں 1980 میں یوتھ کانگریس کا صدر اس وقت بنایا گیا جب کانگریس کی اس ذیلی تنظیم کی اہمیت سنجے گاندھی کے سبب اصل کانگریس سے بھی کچھ زیادہ تھی، اور آزاد کا سیاسی کیرئر شروع ہوئے صرف سات سال ہوئے تھے۔ انھیں مہاراشٹر کے واشم پارلیمانی حلقے سے ٹکٹ دیا گیا اور وہ وہاں سے اگر جیتے تو اس لیے نہیں کہ بہت مقبول تھے۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اس وقت کانگریس ’کاٹھ کے الّو‘ کو بھی واشم سے امیدوار بناتی تو جیت جاتا۔ آزاد 1982 میں اس وقت اندرا گاندھی کی کابینہ میں شامل کیے گئے کہ جب ان کی عمر صرف 32 سال تھی۔ دراصل انھیں کابینی عہدہ اندرا گاندھی کی حمایت میں جیل جانے کے سبب ہی ملا تھا۔


راجیو گاندھی کے دور اقتدار میں بھی وہ کافی طاقتور لیڈر مانے جاتے تھے۔ حالانکہ زمینی سیاست میں وہ اس وقت بھی زیرو ہی تھے۔ نرسمہا راؤ اور سیتا رام کیسری کے دور میں بھی ان کا رتبہ کم نہیں ہوا اور وہ اقتدار کے مزے لوٹتے رہے۔ سونیا کے کانگریس صدر ہونے کے بعد بھی ان کی طاقت کم ہونا تو کجا اس میں اضافہ ہی ہوا۔ انھیں کئی ریاستوں کا تنظیمی انچارج بنایا گیا۔ 2005 میں جب کانگریس نے کشمیر میں اپنی حکومت بنائی تو کشمیر میں رہنے والے کسی کانگریسی لیڈر کے مقابلے میں آزاد جیسے کشمیر سے باہر رہے کشمیری کو گاندھی خاندان سے وفاداری کے سبب وزیر اعلیٰ بنایا گیا۔ حالانکہ کشمیر میں انھیں ناپسندیدہ کشمیری لیڈر کے طور پر ہی دیکھا جاتا تھا۔ 2014 میں جب کانگریس اقتدار سے بے دخل ہو گئی تب بھی آزاد کو پارٹی کا وفادار مان کر نہ صرف راجیہ سبھا بھیجا گیا بلکہ راجیہ سبھا میں اپوزیشن لیڈر بھی بنایا گیا۔ اس کے باوجود آزاد کو لگتا ہے کہ کانگریس کو انھوں نے بہت کچھ دیا اور انھیں اس کے بدلے میں کچھ نہیں ملا تو اسے ان کی احسان فراموشی کے سوا کیا کہا جائے؟

یہ بھی حقیقت ہے کہ کانگریس نے انھیں جہاں تنظیمی سطح کی ذمہ داریاں سونپیں وہاں وہ پارٹی کو جیت دلانے میں ناکام ہی رہے۔ بہرحال ٓازاد کا ریکارڈ اس بات کا گواہ ہے کہ کانگریس نے انھیں جب بھی کوئی اہم ذمہ داری سونپی وہ اسے نبھانے میں ناکام رہے اور یہ ناکامی 2014 میں راجیہ سبھا رکن اور اپوزیشن لیڈر بننے کے بعد تک جاری رہی۔ اس کے باوجود کانگریس نے انھیں کشمیر معاملوں کی ذمہ داری سونپی تھی، لیکن جس آدمی کو اپنی ہوم اسٹیٹ میں کبھی پسندیدگی کی نگاہ سے نہیں دیکھا گیا ہو وہ یہ ذمہ داری کس طرح نبھا سکتا تھا، لہٰذا آزاد الزام تراشی کا سہارا لیکر کانگریس سے الگ ہوگئے اور اب نہ جانے کس لالچ کے تحت وزیر اعظم نریندر مودی کے تعلق سے کبھی یہ دعوی ٰکرتے ہیں کہ انھوں نے کبھی انتقامی جذبے کے تحت کام نہیں کیا، کبھی انھیں عظیم اسٹیٹس مین بتا کر ان کی قصیدہ خوانی کرتے ہیں، کبھی مودی انھیں بڑے دل والے نظر آتے ہیں اور کبھی وہ انھیں ’انسانیت‘ رکھنے والا بتاکر پدم شری ایوارڈ کا قرض اتارتے نظر آتے ہیں۔ مسئلہ یہ نہیں کہ آزاد یہ سب کچھ کیوں کہہ رہے ہیں۔ بلکہ اصل بات یہ ہے کہ پوری سیاسی زندگی کانگریس کے احسانوں سے دبے آزاد مودی کی قصیدہ خوانی کانگریس چھوڑنے کے بعد کیوں کر رہے ہیں؟ شائد اس لیے کہ بغیر اقتدار کے رہنے کی ان کو عادت نہیں رہی اور کانگریس میں انھیں اب اس کے مواقع کم نظر آتے ہیں۔ ان کی خود نوشت سوانح بھی ان کی اسی موقع پرستی اور احسان فراموشی کی دستاویز ہے۔

(یہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات ہیں، قومی آواز کا متفق ہونا ضروری نہیں)

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔