انکیتا کا قتل اور بی جے پی کی ’خصوصی خدمات‘... اعظم شہاب

انکیتا کے قتل نے عورتوں کے بارے میں بی جے پی و آر ایس ایس کے سنسکار پر مہر لگادی ہے۔ اب اس کے بعد بھی بیٹی بچاؤ بیٹی پڑھاؤ کا نعرہ لگانے والوں کو چلو بھر پانی میں ڈوب مرنا چاہئے۔

انکیتا بھنڈاری کی جلتی چتا، تصویر آئی اے این ایس
انکیتا بھنڈاری کی جلتی چتا، تصویر آئی اے این ایس
user

اعظم شہاب

اپنے پردھان سیوک جی کے ساتھ ایک بڑا مسئلہ یہ بھی ہے کہ وہ اپنے نعروں وفیصلوں پر اپنی ہی پارٹی کے لوگوں سے عمل نہیں کروا پاتے۔ جب آدمی کے اپنے لوگ ہی اس کی باتوں پر عمل نہ کریں تو اس کا یہی مطلب ہوسکتا ہے کہ یا تو باتیں قابل عمل نہیں یا پھر لوگ اس کو اہمیت ہی نہیں دیتے۔ یوں بھی جب سے پردھان سیوک جی کو وشو گرو کا درجہ دیا گیا ہے، ان کے اپنے لوگ وشو کے ساتھ اپنے ملک میں بھی پردھان سیوک کی رسوائی کا سامان کیے ہوئے ہیں۔ اب یہی دیکھئے کہ پردھان سیوک نے بڑے شور شرابے کے ساتھ بیٹی بچاؤ بیٹی پڑھاؤ کا نعرہ دیا تھا، اس کی تشہیر پر ہزاروں کروڑ روپئے خرچ بھی ہوئے لیکن اس نعرے کی جس طرح دھجیاں اڑائی گئیں اور اڑائی جا رہی ہیں وہ اپنے آپ میں ایک مثال ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ دھجیاں اڑانے والے خود پردھان سیوک جی کی پارٹی کے ہی لوگ پیش پیش ہیں۔

چنڈی گڑھ یونیورسٹی کے ایم ایم ایس کا معاملہ ابھی ٹھنڈا بھی نہیں ہوا تھا کہ اسی چنڈی گڑھ کے پڑوس اتراکھنڈ سے ایک اور دل دہلا دینے والا واقعہ سامنے آگیا۔ ایک غریب گھر کی بیٹی انکیتا بھنڈاری کو محض اس لیے مارڈالا گیا کہ وہ مہمانان کو ’خصوصی خدمات‘ فراہم کرنے پر آمادہ نہیں ہوئی۔ 19سال کی انکیتا اتراکھنڈ کے ڈوبھاشری کوٹ گاؤں میں رہتی تھی۔ اس کے اہلِ خانہ اور رشتے دار سب اسی گاؤں میں ہیں۔ وہ اپنے گھر والوں کی مدد کرنا چاہتی تھی اس لئے اس نے 12ویں کے بعد ہوٹل مینجمنٹ کا کورس کیا اور کام کے لیے رشی کیش آگئی۔ پہلی تنخواہ ملنے سے قبل ہی اس کی زندگی کو ختم کر دیا گیا۔ قتل کی اس واردات میں اتراکھنڈ کی بی جے پی حکومت کے سابق وزیر ونود آریہ کے بیٹے اور اتراکھنڈ او بی سی ڈیولپمنٹ کارپوریشن کے نائب صدر اور وزیر درجہ حاصل انکت آریہ کے بھائی پلکیت آریہ پر الزام ہے۔ انکیتا بھنڈاری انہیں کے ریزارٹ میں استقبالیہ پر کام کرتی تھی۔ 17ستمبر کو وہ کام پر گئی لیکن واپس نہیں لوٹی اور 7 دن بعد اس کی لاش ایک نہر سے ملی۔ گوکہ بی جے پی نے پلکیت کے والد ونود آریہ اور بھائی انکت آریہ کو پارٹی سے نکال دیا ہے لیکن انہوں نے پردھان سیوک جی کے بیٹی بچاؤ اور بیٹی پڑھاؤ کی جو عملی تصویر پیش کی ہے اس نے بی جے پی کی عورتوں کے بارے میں سوچ کو ایک بار پھر آشکار کر دیا ہے۔


انکیتا کے قتل سے دو دن قبل یوگی جی کے اتم پردیش میں بھی اسی طرح کا ایک واقعہ سامنے آیا جس میں دوبہنوں کی اجتماعی عصمت دری کے بعد انہیں پیڑ سے لٹکا کر مار ڈالا گیا۔ یہ دونوں بہنیں 15 اور 17سال کی تھیں۔ گھروالوں کو کہنا تھا کہ انہیں اغواء کیا گیا تھا جبکہ یوگی جی کی پولیس کا کہنا تھا کہ یہ اپنی مرضی سے گھر سے گئیں تھیں۔ اسی دوران این ڈی ٹی وی پر ایک پینل ڈسکیشن ہوا تھا جس میں بی جے پی کی نمائندگی آلوک وتس فرما رہے تھے۔ اس بحث کو دیکھ کر آلوک وتس کی تعریف کیے بغیر نہیں رہا گیا کیونکہ انہوں نے نہایت صاف گوئی اور بیباکی سے بی جے پی کا موقف واضح کر دیا۔ انہوں نے کہا کہ جن دولڑکیوں کی لاشیں ملی ہیں، وہ قصداً اپنے عاشقوں کے ساتھ فرار ہوئیں۔ وتس صاحب کی ان باتوں کو سن کر وہ تمام لوگ سکتے میں آگئے ہوں گے جو اس دردناک واقعے کو یوگی حکومت کی ناکامی تصور کر رہے تھے۔ لیکن وتس صاحب نے چند جملوں میں بی جے پی کے موقف کو واضح کر دیا تھا۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ بی جے پی والوں کے یہاں عورتوں کی حرمت اور ان کے تحفظ کی کتنی زیادہ اہمیت ہے۔

ابھی گزشتہ ماہ کی بات ہے جب ملک آزادی کا امرت مہوتسو منانے میں مصروف تھا۔ پردھان سیوک جی نے لال قلعہ سے عورتوں کی حرمت اور ان کے عزت واحترام پر خوب پروچن دیئے۔ لیکن ابھی وہ لال قلعہ کی فصیل سے نیچے بھی نہیں اترے تھے کہ گجرات کی ان کی ہی پارٹی کی حکومت نے اس کا عملی نمونہ پیش کر دیا۔ کسی وزیراعظم کی باتوں پر عمل کرنے کا اس قدر تیز رفتاری کا مظاہرہ شاید ہی ملک کی تاریخ میں ملے۔ چونکہ پردھان سیوک کے دور میں سب کچھ پہلی بار ہی ہوتا ہے، اس لیے یہ عمل آوری بھی پہلی بار ہوئی کہ خود ان کے گجرات میں بلقیس بانو کیس کے گیارہ مجرمین کو بہ یک وقت رہائی مل گئی۔ یہ اجتماعی عصمت دری کے ساتھ ہی 14؍لوگوں کے قتل کے بھی مجرم تھے جس میں بلقیس بانو کی تین سالہ بچی بھی شامل تھی۔ انہیں 14؍سال بعد جیل سے رہائی مل گئی یعنی ایک قتل کی سزا ان کے لیے ایک سال جیل ہوئی۔ جیل سے باہر آنے پر مٹھائیاں کھلاکر ان کا استقبال ہوا، ان کی آرتی اتاری گئی، ان کے پیر دھوئے گئے گویا وہ کسی محاذ سے واپس آئے ہوں۔


گزشتہ ماہ جھارکھنڈ کے دمکا میں بھی ایک انکیتا کا قتل ہوا تھا۔ شاہ رخ نامی ایک سرپھرے نوجوان نے 23/اگست کو انکیتا سنگھ کو زندہ جلا دیا تھا۔ لیکن چونکہ دمکا میں انکیتا سنگھ کا قاتل شاہ رخ تھا اور حکومت اپوزیشن کی تھی، اس لیے بی جے پی کے کارکنوں نے وزیر اعلیٰ کا پتلا جلایا اور حکومت کے خلاف نعرے لگائے تاکہ مقتول کو انصاف دلایا جائے اور ملزمان کو جلد از جلد سخت سے سخت سزا دی جائے۔ اتراکھنڈ کے ڈوبھا شری کوٹ میں بی جے پی لیڈر اور سابق وزیر ونود آریہ کے بیٹے کے اوپر الزام ہے کہ اس نے انکیتا بھنڈاری کا قتل کیا، وہاں بی جے پی کی حکومت ہے، اس لیے بی جے پی نے نہ تو احتجاج کیا اور نہ ہی وزیر اعلیٰ پشکر دھامی کا پتلا جلایا، اسے کہتے ہیں منافقت۔ بی جے پی کو پلکت آریہ کے والد سابق وزیر ونود آریہ کو پارٹی سے نکالنا پڑا، وہ بی جے پی کے لیڈر اور اتراکھنڈ حکومت میں وزیر رہ چکے ہیں۔ وہ بی جے پی او بی سی مورچہ کی قومی ایگزیکٹو کے رکن اور اتر پردیش کے شریک انچارج بھی تھے۔ پلکت کے بھائی انکت آریہ کو اتراکھنڈ او بی سی ویلفیئر کمیشن کے ڈپٹی چیئرمین کے عہدے سے ہٹا دیا گیا، انہیں ریاستی وزیر کا درجہ دیا گیا تھا۔ اس واقعے کے بعد بیٹی بچاؤ بیٹی پڑھاؤ کا نعرہ لگانے والوں کو چلّو بھر پانی میں میں ڈوب مرنا چاہیے۔ اتراکھنڈ کے ڈی جی پی اشوک کمار نے صاف طور پر کہہ دیا ہے کہ انکیتا پر غلط کام کرنے کا دباؤ تھا۔ انکیتا کے قتل نے سنگھ پریوار کی عورتوں کے بارے میں سوچ پر مہر لگا دی ہے۔ اب مودی سرکار کے لیے بیٹی بچاؤ بیٹی پڑھاؤ کا نعرہ لگانا مشکل ہو جائے گا۔

(نوٹ: مضمون میں مضمون نگار کی اپنی رائے ہے اور قومی آواز کا ان کے متن سے متفق ہونا لازمی نہیں ہے)

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔