راہل گاندھی کی مقبولیت میں حیرت انگیز اضافہ

سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ اب عوام کو پی ایم مودی کی باتوں پر وہ یقین نہیں رہا جو پہلے ہوا کرتا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ راہل گاندھی کے بارے میں لوگوں کی یہ رائے بدلی ہے کہ وہ ایک غیرسنجیدہ سیاست داں ہیں۔

<div class="paragraphs"><p>راہل گاندھی، تصویر ٹوئٹر INCIndia</p></div>

راہل گاندھی، تصویر ٹوئٹر INCIndia

user

سہیل انجم

بھار ت جوڑو یاترا کے بعد کانگریس کے سینئر رہنما اور سابق صدر راہل گاندھی کی مقبولیت میں زبردست اضافہ ہوا ہے۔ اضافے کا یہ رجحان مسلسل برھتا جا رہا ہے۔ مرکز کی نریندر مودی حکومت کے خلاف حزب اختلاف کے اتحاد ”انڈین نیشنل ڈیولپمنٹل انکلیوسیو الائس“ یعنی انڈیا کی جانب سے لائی جانے والی تحریک عدم اعتماد پر ہونے والی بحث کے بعد راہل گاندھی کی مقبولیت کا گراف تو اتنی تیزی سے اوپر گیا ہے کہ وزیر اعظم کی مقبولیت اس کا مقابلہ نہیں کر پائی۔ جب بحث کے دوسرے روز راہل گاندھی نے تقریر کی تو اس کا بیشتر حصہ منی پور پر مرکوز رہا۔ اس سے قبل انھوں نے اپنی یاترا کا اختصار کے ساتھ ذکر کیا اور یہ بتانے کی کوشش کی کہ اس یاترا نے جہاں ان کو بہت کچھ سیکھنے کا موقع دیا وہیں ان کے ”غرور“ کو ختم کر دیا۔ یوں تو انھوں نے یہ بات اپنے بارے میں کہی لیکن پوری دنیا جانتی ہے کہ ان کا اشارہ کس کے غرور و تکبر کی جانب تھا۔

ان کا خطاب کوئی بہت لمبا چوڑا نہیں تھا۔ نصف گھنٹے سے کچھ زائد کا تھا۔ لیکن حکومت کی جانب سے اسے دبانے کی بھرپور کوشش کی گئی۔ ان کی تقریر کے دوران لوک سبھا ٹی وی کے کیمرے کا فوکس عام طور پر اسپیکر اوم برلا کے چہرے پر رہا۔ حالانکہ یہ روایت رہی ہے کہ لوک سبھا ہو یا راجیہ سبھا کیمرے کا فوکس مقرر پر ہوتا ہے۔ جس کا دوسرے مقررین بالخصوص بی جے پی مقررین اور وزیر اعظم نریندر مودی کی تقریر کے دوران مشاہدہ کیا گیا۔ لیکن راہل گاندھی کو ایک چوتھائی سے بھی کم وقت تک لوک سبھا ٹی وی پر دکھایا گیا۔ تین چوتھائی وقت تک اسپیکر کا چہرہ دیکھنا پڑا۔ یعنی آواز راہل گاندھی کی تھی اور صورت اوم برلا کی۔


اس کے علاوہ ان کی آواز دبانے کی بھی بارہا کوشش کی گئی۔ عام طور پر تقریر کے دوران وزرا کھڑے ہو کر ردعمل کا اظہار نہیں کرتے ہیں۔ وہ بہت کرتے ہیں تو میزیں تھپتھپا دیتے ہیں۔ لیکن راہل گاندھی کی مخالفت وزرا نے بھی کی اور بڑھ چڑھ کر کی اور کھڑے ہو ہو کر کی۔ اس کا مقصد یہی تھا کہ ان کی حوصلہ شکنی ہو۔ وہ بول نہ پائیں اور ان کی تقریر عوام سن نہ سکیں۔ راہل گاندھی 2014 کے بعد سے ہی اس قسم کے حربوں کے عادی ہو چکے ہیں۔ انھیں اس طرح روکا نہیں جا سکتا۔ ان نو برسوں میں جس طرح ان کی کردار کشی کی گئی کوئی اور نیتا ہوتا تو وہ اب تک گھر بیٹھ گیا ہوتا۔ لیکن داد دینی پڑے گی راہل گاندھی کے صبر و برداشت کی کہ اتنا سب کچھ ہونے کے باوجود وہ مسلسل اپنی آواز بلند کر رہے ہیں۔

تیسرے روز جب وزیر اعظم نریندر مودی بحث کا جواب دینے کے لیے آئے تو ڈیڑھ گھنٹے تک انھوں نے منی پور کا نام ہی نہیں لیا۔ بعد میں انھوں نے صرف دو منٹ ہی خر چ کیا منی پور پر۔ وہ صرف اور صرف کانگریس کو براہ راست نشانہ بناتے رہے۔ تاریخ کے گڑے مردے اکھاڑتے رہے اور عوام میں کانگریس کی حیثیت کو کم کرنے کی کوشش کرتے رہے۔ لیکن وہ بالواسطہ طور پر راہل گاندھی کو نشانہ بنا رہے تھے۔ کانگریس کے رہنماؤں کا یہ کہنا بجا ہے کہ انہیں کانگریس فوبیا ہو گیا ہے۔ دراصل راہل ہی ایک ایسے نیتا ہیں جو وزیر اعظم پر بلا خوف و خطر حملے کرتے ہیں۔ حالانکہ حکومت نے ان کے پیچھے ای ڈی کو لگا دیا جس نے پہلے ان سے کئی روز تک اور پھر ان کی والدہ سونیا گاندھی سے کئی روز تک پوچھ تاچھ کیا۔ لیکن اس حربے کا دونوں ماں بیٹوں پر کوئی اثر نہیں پڑا۔


راہل گاندھی کی ہمت توڑنے کے لیے ایک غیر متعلق شخص کے ذریعے ان کے خلاف ہتک عزت کا مقدمہ دائر کروایا گیا جس پر عدالت نے انھیں دو سال کی سزا سنا دی۔ اس کے فوراً بعد ان کی لوک سبھا کی رکنیت ختم کر دی گئی اور ان سے ان کا بنگلہ واپس لے لیا گیا۔ لیکن بہرحال سپریم کورٹ نے ان کی سزا پر روک لگائی اور اس طرح ان کی رکنیت بحال ہوئی اور اب ان کو بنگلہ بھی واپس کیا جا رہا ہے۔ ان تمام اقدامات کا مقصد راہل کو پارلیمنٹ سے باہر رکھنا تھا تاکہ وہ ایوان میں حکومت کے خلاف نہ بول سکیں۔

رکنیت کی بحالی کے بعد انھوں نے لوک سبھا میں تقریر کی اور کہا کہ بی جے پی نے منی پور میں بھارت ماتا کا قتل کیا ہے۔ اس دوران ان کے ایک اشارے کو فلائینگ کِس کا نام دیا گیا اور پوری بی جے پی خاص طور پر اسمرتی ایرانی نے اس پر بڑا ہنگامہ کیا۔ اس کا مقصد راہل کی تقریر سے عوامی توجہ ہٹانا اور ان کو ایک اوباش شخص بنا کر پیش کرنا تھا۔ لیکن بی جے پی ان دونوں مقاصد میں بھی ناکام رہی۔ حکومت اور بی جے پی کی جانب سے راہل کے خلاف جتنے بھی اقدامات کیے گئے وہ سب ان کے حق میں مفید ثابت ہوئے۔ حالانکہ وزیر اعظم مودی نے اپنی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد کو اپنے لیے نیک شگون قرار دیا لیکن سچ یہ ہے کہ راہل مخالف اقدامات ان کے لیے نیک شگون ثابت ہو رہے ہیں۔


راہل گاندھی اور وزیر اعظم نریندر مودی کی تقریروں کے بعد کئی سروے ہوئے اور یہ جاننے کی کوشش کی گئی کہ عوام نے کس کی تقریر کو زیادہ پسند کیا۔ قارئین کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ اس کے بعد تو راہل گاندھی کی مقبولیت وزیر اعظم مودی کی مقبولیت سے بہت آگے نکل چکی ہے۔ یہ نتیجہ یو ٹیوب چینلوں کو دیکھے جانے اور راہل اور مودی کی تقریروں پر آنے والے لائکس اور ٹوئٹس کی روشنی میں اخذ کیا گیا ہے۔ سوشل میڈیا کے مشاہدے نے یہ ثابت کیا کہ اگر چہ سوشل میڈیا پلیٹ فارموں پر وزیر اعظم مودی کے فالوورز کی تعداد راہل کے فالوورز کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے لیکن تقریر سب سے زیادہ راہل گاندھی کی سنی گئی۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ گودی میڈیا کے صحافیوں کے سروے میں بھی راہل کی مقبولیت مودی کے مقابلے میں زیادہ نظر آئی۔

سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ اب عوام کو وزیر اعظم مودی کی باتوں پر وہ یقین نہیں رہا جو پہلے ہوا کرتا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ راہل گاندھی کے بارے میں لوگوں کی یہ رائے بدل گئی ہے کہ وہ ایک غیر سنجیدہ سیاست داں ہیں۔ اب تو ایسے لوگوں کی تعداد مسلسل برھتی جا رہی ہے جو راہل کو وزیر اعظم کی حیثیت سے دیکھنا چاہتے ہیں۔ حالانکہ راقم الحروف کا خیال ہے کہ اگر وزیر اعظم بننے کا کوئی موقع آئے تو شاید راہل اس کے لیے تیار نہیں ہوں گے۔ حال ہی میں شائع ہونے والی سینئر صحافی اور کالم نگار نیرجا چودھری کی کتاب سے یہ پتہ چلتا ہے کہ جب 2004 میں وزیر اعظم بننے کا موقع آیا تھا تو راہل نے ہی سونیا گاندھی کو باز رکھا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم نے اپنی دادی اور والد کو کھویا ہے اب ہم اپنی والدہ کو کھونا نہیں چاہتے۔ انھوں نے یہاں تک دھمکی دے دی تھی کہ اگر وہ نہیں مانیں گے تو وہ انتہائی قدم اٹھانے پر بھی مجبور ہو جائیں گے۔


ایسے میں سوال یہ ہے کہ تو پھر راہل سیاست کیوں کر رہے ہیں۔ اس بارے میں تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ وہ ہندوستان کی سیاست کو مثبت سمت میں موڑنا چاہتے ہیں۔ وہ سیاست کو عوامی خدمت کا ذریعہ بنانا چاہتے ہیں محض حصول اقتدار کا ذریعہ نہیں۔ 2014 کے بعد سے سیاست کو جس طرح بہت نچلی سطح پر گرا دیا گیا ہے وہ اسے اوپر اٹھانا اور اس کو اس کے حقیقی مقام تک پہنچانا چاہتے ہیں۔ بہرحال ذکر ہو رہا تھا ان کی مقبولیت کا تو ایسا لگتا ہے کہ حکومت ان کی بڑھتی مقبولیت سے خائف ہو گئی ہے۔ اس لیے اگر ان کی حوصلہ شکنی کے لیے کچھ اور اقدامات کیے جائیں تو حیرت نہیں ہونی چاہیے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔