جمعۃ الوداع: محتاط رہیے، کسی بدعت کا شکار ہونے سے بچیے!

جمعۃ الوداع کو عبادت و ریاضت ضرور کرنی چاہیے، لیکن یہ بھی سمجھنا چاہیے کہ اس کو رمضان کے دیگر جمعوں پر کوئی فوقیت نہیں دی گئی ہے۔

نماز، تصویر آئی اے این ایس
نماز، تصویر آئی اے این ایس
user

تنویر احمد

رمضان المبارک کا مہینہ اپنے اختتام کی طرف بڑھ رہا ہے۔ 27 اپریل کو رواں ماہِ مبارک کا آخری جمعہ یعنی جمعۃ الوداع ہے۔ اس موقع پر مسلم طبقہ کے بیشتر افراد خود کو زیادہ سے زیادہ عبادت و ریاضت میں مشغول رکھنا چاہتے ہیں۔ عبادت و ریاضت میں مشغول ہونا تو ٹھیک ہے، لیکن مسلمانوں کو ساتھ ہی یہ بھی دھیان رکھنا چاہیے کہ اسلام میں جمعۃ الوداع یعنی رمضان المبارک کے آخری جمعہ کو اس ماہِ مبارک کے دیگر جمعوں پر کوئی فوقیت نہیں دی گئی ہے۔ یعنی جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ جمعۃ الوداع کو عبادت کرنے کا ثواب رمضان کے دیگر جمعوں سے زیادہ ہوتا ہے، تو وہ غلطی پر ہیں۔

’مدارس اسلامیہ اور عصری تقاضے‘ کتاب کے مصنف حفظ الرحمن بن شیخ عبدالقوی نے کہا کہ ’’قرآن و حدیث میں جمعۃ الوداع کو لے کر کوئی خاص فضیلت کا تذکرہ نہیں ہے۔ کچھ لوگ ہیں جو رمضان المبارک کے آخری جمعہ میں نئے کپڑے پہننے اور خاص اہتمام کرنے کو ترجیح دیتے ہیں، انھیں سمجھنا چاہیے کہ یہ بدعت ہے۔ کسی بھی ایسی چیز کا انتظام کرنا جس کا تذکرہ کتاب و سنت میں موجود نہیں وہ بدعت ہے۔ اس لیے جمعۃ الوداع کے موقع پر کسی بھی خاص عمل سے پرہیز کرنا چاہیے۔‘‘ حفظ الرحمن بن شیخ عبدالقوی نے یہ بھی کہا کہ ’’لوگوں میں عام چلن دیکھنے کو مل رہا ہے کہ چاند رات کو خوب مارکیٹنگ کرتے ہیں، خوشی مناتے ہیں۔ عشرۂ اخیرہ میں اس سے بچنا چاہیے کیونکہ چاند رات کو ’یوم الجزا‘ کہا گیا ہے، اس موقع پر عبادت کرنی چاہیے اور اللہ سے اپنے لیے بہتر انعام کا مطالبہ کرنا چاہیے۔‘‘


جمعۃ الوداع کے تعلق سے ایک خاص خطبہ کو لے کر بھی لوگوں میں بڑی غلط فہمی ہے۔ اس غلط فہمی کو دور کرنے کے لیے دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند کا فتویٰ نمبر 48405 دیکھنا چاہیے جس میں سوال کیا گیا تھا کہ ’’الوداع جمعہ کا خطبہ کب سے شروع ہوا تھا، سب سے پہلے کس نے پڑھا تھا؟ اور اس کی اہمیت کیا ہے؟ کیا الوداع جمعہ کے حقوق اور خطبہ الگ ہونے چاہئے؟ یا پھر کوئی بھی خطبہ پڑھا جاسکتا ہے؟‘‘ اس کے جواب میں لکھا گیا ’’الوداع جمعہ کا خطبہ کب سے شروع ہوا، سب سے پہلے اس خطبہ کو کس نے پڑھا، اس کی صراحت مجھے نہیں مل سکی۔ البتہ خطبہ کا وجود قرون مشہود لہا بالخیر میں نہیں تھا، فقہاء نے اس خطبہ کے پڑھنے کا ذکر نہیں کیا۔ اس خطبہ کی کوئی فضیلت ثابت نہیں بلکہ علماء نے اس کو مکروہ و بدعت تک لکھا ہے۔ اس لیے رمضان کے آخری جمعہ میں بھی عام خطبہ ہی پڑھا جائے۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔‘‘

جمعۃ الوداع اور جمعۃ الوداع کے مخصوص خطبہ سے متعلق مزید وضاحت کے لیے دارالافتاء، جامعۃ العلوم الاسلامیہ (پاکستان) کا فتویٰ بھی دیکھ لیجیے۔ سوال کیا گیا ہے ’’شریعت میں ’الوداعی جمعہ‘ کی کیا حیثیت ہے؟ کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم اس کی تیاری کرتے تھے؟ نیز جمعۃ الوداع میں جو مخصوص خطبہ پڑھا جاتا ہے صحیح ہے یا نہیں؟ قرآن و حدیث کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں!‘‘ اس کا جواب دیا گیا ’’رمضان المبارک کے آخری جمعے کی تیاری اور بطور ’جمعۃ الوداع‘ منانا نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور فقہاء کرام سے ثابت نہیں ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم رمضان المبارک کا مکمل آخری عشرہ اعتکاف اور راتوں کو جاگ کر عبادت میں گزارتے تھے، پورے عشرے میں عبادت کا اہتمام تو احادیث میں منقول ہے، لیکن آخری جمعے کے لیے نئے کپڑے سلوانا، تیاری کرنا یا خاص عبادت کرنا احادیث سے ثابت نہیں ہے۔ نیز ’الوداع والفراق والسلام یا شهر رمضان‘ وغیرہ کے الفاظ سے خطبۃ الوداع پڑھنا حضرت سید الکونین علیہ الصلاۃ والسلام، خلفاء راشدین رضوان اللہ علیہم اجمعین اور ائمہ مجتہدین رحمہم اللہ سے ثابت نہیں ہے۔ اس کو اکابر اہلِ فتاوی نے مکروہ اور بدعت لکھا ہے۔ ابوالحسنات حضرت مولانا عبد الحی لکھنوی رحمہ اللہ نے ’مجموعۃ الفتاوی‘ اور ’خلاصۃ الفتاوی‘ (329/4) کے حاشیہ میں اور حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی رحمہ اللہ نے ’فتاوی رشیدیہ‘ (ص: 123) میں، اور حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ نے ’امداد الفتاوی‘ (685/1)میں، اورحضرت مفتی اعظم دارالعلوم دیوبند، مفتی عزیز الرحمن صاحب رحمہ اللہ نے ’فتاوی دارالعلوم دیوبند‘ (96/5) میں اور فقیہ الامت حضرت مفتی محمود حسن صاحب گنگوہی رحمہ اللہ نے ’فتاوی محمودیہ‘ مطبع ڈابھیل (296/8)، مطبع میرٹھ (416/12) میں، اور مفتی محمد شفیع رحمہ اللہ نے ’امداد المفتیین‘ (ص: 404) میں بدعت اور مکروہ لکھا ہے۔ (بحوالہ فتاوی قاسمیہ) فقط واللہ اعلم۔‘‘


ظاہر ہے کہ رمضان المبارک سبھی مہینوں کا سردار ہے، اور اس میں عبادات اور نیکیوں کا ثواب دیگر مہینوں کے مقابلے بہت بڑھ جاتا ہے۔ ایسے میں اس پورے ماہ پورے انہماک کے ساتھ عبادت کرنی چاہیے اور نیک اعمال پر توجہ دینی چاہیے۔ جمعۃ الوداع کو بھی عبادت و ریاضت کرنی چاہیے، لیکن یہ بھی سمجھنا چاہیے کہ اس کو رمضان کے دیگر جمعوں پر کوئی فوقیت نہیں دی گئی ہے۔ اس لیے آنے والے جمعۃ الوداع میں عبادات و نیک اعمال ضرور کیجیے، لیکن محتاط بھی رہیے، کسی بدعت کا شکار ہونے سے بچیے!

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔