’ہندو ہوں، پر خطرے میں نہیں ہوں‘، غیر مسلم خاتون نے دہلی جامع مسجد کے ساتھ شیئر کی ہاتھ جوڑے تصویر

گزشتہ دنوں مختلف جلوسوں کے دوران ہوئے تشدد کے واقعات نے جہاں اقلیتی طبقہ کی فکر میں اضافہ کیا ہے، وہیں کچھ ایسی غیر مسلم شخصیتیں ہیں جنھوں نے اپنے عمل سے ہندو-مسلم یکجہتی کا اظہار کر رہی ہیں۔

تصویر ٹوئٹر@DaminiY26747626
تصویر ٹوئٹر@DaminiY26747626
user

تنویر

ہندوستان میں ایک طرف ہندو-مسلم اتحاد کو نقصان پہنچانے کی کوششیں ہو رہی ہیں، تو دوسری طرف کئی ایسے لوگ بھی ہیں جو ملک کی جمہوریت کو زندہ رکھنے کے لیے پرعزم ہیں۔ ملک کی کچھ ریاستوں میں گزشتہ دنوں مختلف جلوسوں کے دوران ہوئے تشدد کے واقعات نے جہاں اقلیتی طبقہ کی فکر میں اضافہ کر دیا ہے، وہیں کچھ ایسی غیر مسلم شخصیتیں ہیں جو اپنے عمل سے اقلیتی طبقہ کی ہمت بڑھا رہی ہیں اور ہندو-مسلم یکجہتی کا اظہار کر رہی ہیں۔ ایک ایسی ہی تصویر 27 اپریل کو سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹوئٹر پر وائرل ہوئی، جس میں ہندوستانی تہذیب کی بہترین جھلک دکھائی پڑ رہی ہے۔

یہ ٹوئٹ دامنی یادو نامی ٹوئٹر ہینڈل سے کیا گیا جس میں دہلی کے تاریخی جامع مسجد کی تصویر ہے۔ اس تصویر میں افطار کے لیے پہنچی لوگوں کی بھیڑ دکھائی دے رہی ہے اور ایک جانب دامنی یادو سر پر دوپٹہ ڈالے اور ہاتھ جوڑے کھڑی ہیں۔ حالانکہ یہ سرٹیفائیڈ ٹوئٹر ہینڈل نہیں ہے، اس لیے اس تصویر کی صداقت سے متعلق کوئی دعویٰ نہیں کیا جا سکتا۔ اس تصویر کے ساتھ دامنی یادو نے ٹوئٹ میں لکھا ہے ’’ہندو ہوں، پر خطرے میں نہیں ہوں۔‘‘ اس ٹوئٹ کو اب تک ہزاروں لوگ لائک کر چکے ہیں اور کئی لوگوں نے ان کی سوچ اور تصویر کی تعریف بھی کی ہے۔ ایک ٹوئٹر صارف نے لکھا ہے ’’خطرہ صرف نفرت کرنے والوں کو لگتا ہے، محبت والوں کے لیے تو کہیں بھی خطرہ نہیں ہے۔‘‘


واضح رہے کہ دہلی کے جہانگیر پوری علاقہ میں ہنومان جینتی کے موقع پر نکالے گئے جلوس میں فرقہ وارانہ تشدد پیدا ہو گیا تھا۔ اس کے بعد ہندوتوا تنظیموں نے اقلیتی طبقہ کے خلاف زہر اگلنا شروع کر دیا اور ایسا ظاہر کرنے لگے کہ ہندو خطرے میں ہے۔ کئی غیر مسلم شخصیتوں اور سماجی کارکنان نے جہانگیر پوری تشدد کے لیے شرپسند ہندو افراد کو ذمہ دار ٹھہرایا، اور غیر مسلم خاتون کی ایک ویڈیو بھی گزشتہ دنوں سامنے آئی تھی جس میں وہ کہتی ہوئی دکھائی دی تھی کہ ہندوؤں کو مسلمانوں سے کوئی خطرہ نہیں ہے۔ ویڈیو میں خاتون نے واضح لفظوں میں کہا تھا کہ جہانگیر پوری تشدد کی اصل وجہ ہندوتوا تنظیموں کے کارکنان تھے جو اسلحے لیے ہوئے تھے اور مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز باتیں کر رہے تھے۔ غیر مسلم خاتون نے یہ بھی بتایا کہ وہ کئی سالوں سے جہانگیر پوری میں رہ رہی ہے اور مسلم اکثریتی علاقے میں اس نے کبھی بھی خطرہ محسوس نہیں کیا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔