احمد آباد نیشنل کنونشن: کانگریس نے بی جے پی کے قلعہ میں گھس کر بڑی جنگ کا کیا آغاز... ڈاکٹر سوربھ باجپئی

سردار پٹیل نے کانگریس کی صدارت صرف ایک بار کی، لیکن 1931 کے کراچی اجلاس کی اپنی صدارتی تقریر میں بھی ان کا سب سے زیادہ زور اسی بات پر رہا کہ ’سب سے پہلے جو سوال آتا ہے، وہ ہے ہندو-مسلم اتحاد‘۔

<div class="paragraphs"><p>تصویر @INCIndia</p></div>

تصویر @INCIndia

user

ڈاکٹر سوربھ باجپئی

نفسیاتی جنگ کی ایک حکمت عملی ہے کہ حملہ وہاں پر کرو جہاں سامنے والا خود کو غیر مفتوح تصور کرتا ہو۔ احمد آباد میں کانگریس بھی اسی انداز کو اختیار کرتی ہوئی دکھائی دی۔ اپنے قومی کنونشن کے لیے ریاست گجرات کے انتخاب سے لے کر سردار پٹیل کی وراثت کو از سر نو قائم کرنے کی بات یہی ظاہر کرتی ہے۔ یعنی کانگریس اب سیدھے طور پر حریف کے قلعہ میں گھس کر جنگ لڑنے کا ذہن بنا رہی ہے۔ کانگریس کی وراثت پر قبضہ کرنے کے لیے بی جے پی مستقل کوششیں کر رہی ہے، اور اس کے لیے سردار پٹیل اس کے سب سے بیش قیمتی اور طاقتور ’سمبل‘ بنے ہوئے ہیں۔ تحریک آزادی میں شمولیت کی کسی بھی وراثت کی عدم موجودگی میں بی جے پی ایک تاریخی خلا کا سامنا کرتی رہی ہے۔ اسی کو بھرنے کی کوشش میں وہ کانگریس کے انہی ’سمبل‘ کا رخ کر لیتی ہے، جسے وہ مٹانا چاہتی ہے۔

سب سے پہلے تو یہ سمجھنا ہوگا کہ سردار پٹیل تاحیات کانگریس کے ایک مضبوط سپاہی رہے۔ 1917 میں وہ گودھرا میں منعقد گجرات سیاسی سمیلن میں موجود ہوتے ہیں اور ایک سال کے اندر ہی کھیڑا کسان ستیاگرہ میں گاندھی جی کے ساتھ نظر آتے ہیں۔ 1920 تک انھوں نے اپنی قانونی پریکٹس چھوڑ دی اور پوری دلجمعی کے ساتھ تحریک عدم تعاون میں شامل ہو گئے۔ پھر 1928 میں قابل ذکر عزم کے ساتھ وہ بارڈولی ستیاگرہ کی قیادت کرتے نظر آتے ہیں۔ ’سردار‘ کے لقب سے انھیں بارڈولی کی خواتین نے ہی نوازا تھا، جو ان کی بے خوف قیادت اور لوگوں کے ساتھ گہرے رشتے کے تئیں احترام کا ہی غماز تھا۔


یہی وہ وقت تھا جب وہ کانگریس کے تنظیمی معاملوں سے فعال طور پر جڑے، پہلے گجرات میں اور پھر دھیرے دھیرے پورے ملک میں۔ جب جواہر لال نہرو شاید گاندھی کے بعد سب سے مقبول لیڈر تھے، سردار پٹیل کانگریس کے سب سے اثردار منتظم اور کنوینر کی شکل میں ابھرے۔ وہ نہرو، راجندر پرساد اور مولانا آزاد کے ساتھ مل کر کام کرتے ہوئے اثردار کمیٹیوں کا مضبوط حصہ بنے۔

انگریزوں اور عبوری حکومت یا پھر 15 اگست 1947 کے بعد کی قومی حکومت کے ساتھ گفت و شنید کا معاملہ ہی نہیں، جیسے جیسے ہندوستان آزادی کی طرف بڑھ رہا تھا، اقتدار کی منتقلی میں سردار پٹیل کا کردار اہم ہوتا گیا۔ آزادی کے بعد نہرو کابینہ میں وہ نائب وزیر اعظم اور وزیر داخلہ رہے۔ ہندوستانی آئین کو تیار کرنے میں بھی اہم کردار نبھایا اور آئین ساز اسمبلی کی کئی اہم کمیٹیوں کی صدارت بھی کی، جس میں بنیادی حقوق، اقلیتی اور قبائلی و بائیکاٹ شعبوں پر مشاورتی کمیٹی کے ساتھ ہی علاقائی آئین کمیٹی شامل تھی۔


سردار پٹیل نے کانگریس کی صدارت صرف ایک بار ہی کی، لیکن 1931 کے کراچی اجلاس کا وہ واحد اجلاس آج بھی تاریخی اہمیت کا حامل ہے۔ پارٹی نے بنیادی حقوق پر تاریخی قرارداد ان کی قیادت میں ہی پاس کیا تھا۔ آج جب مرکز و ریاستوں میں بی جے پی حکومتیں لگاتار انہی حقوق کو کمزور کرنے پر آمادہ ہیں، ایسے میں ان کو سردار پٹیل کا نام لینے کا کوئی اخلاقی حق بھی ہے؟ اتنا ہی نہیں، کراچی اجلاس کی اپنی صدارتی تقریر میں بھی ان کا سب سے زیادہ زور اسی بات پر رہا کہ ’سب سے پہلے جو سوال آتا ہے وہ ہے ہندو-مسلم اتحاد، یا کہیں فرقہ وارانہ یکجہتی کا سوال‘۔

اب دوسری اہم بات... بی جے پی ایک ایسے لیڈر پر اپنا دعویٰ کیسے کر سکتی ہے جو ہندو-مسلم اتحاد کے لیے پرعزم رہا ہو۔ ایک ایسا اصول جس کے ساتھ وہ تاحیات اعتماد اور ہمت دونوں کے ساتھ مضبوطی سے کھڑا رہا؟ ہندو-مسلم اتحاد کے لیے سردار پٹیل کا عزم حقیقی معنوں میں بے مثال تھا۔ اپنی پوری سیاسی زندگی میں وہ لگاتار فرقہ وارانہ خیر سگالی کی اہمیت کو نشان زد کرتے رہے۔ ان کے اپنے ہی الفاظ ہیں کہ ’’میری کوشش ہے میں دونوں طبقات کے درمیان سب سے مضبوط سیمنٹ کا کردار نبھا سکوں۔ اور میں چاہوں گا کہ اگر ضرورت پڑے تو میں اپنے خون سے دونوں کو جوڑ پاؤں۔ لیکن ایسا کرنے سے پہلے مجھے مسلمانوں کے سامنے یہ ثابت کرنا ہوگا کہ میں ان سے اتنی ہی محبت کرتا ہوں، جتنا میں ہندوؤں سے کرتا ہوں۔‘‘


نسل کشی کی خوفناکی کے درمیان بھی ان کی ذمہ داری کا جذبہ کبھی کم نہیں ہوا۔ اب اگر بی جے پی-آر ایس ایس میں سردار پٹیل کی وراثت پر قبضہ کرنے کی اتنی ہی بے چینی ہے، تو یہاں ان کے لیے مزید ایک لٹمس ٹیسٹ موجود ہے۔ ہندو راشٹر کے ایک حامی کو سردار پٹیل کے ذریعہ دیا گیا یہ جواب ان کے سیکولر نظریہ کو بہت مضبوطی سے ظاہر کرتا ہے: ’’مجھے نہیں لگتا کہ ہندوستان کو ایک ایسے ہندو اسٹیٹ کی طور پر ماننا ممکن ہے، جس کا راج دھرم ہی ہندو مذہب ہو۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ یہاں دیگر اقلیتیں بھی ہیں، جن کی حفاظت ہماری ابتدائی ذمہ داری ہے۔‘‘

آج جس طرح بی جے پی-آر ایس ایس لگاتار اقلیتوں کو حاشیے پر دھکیل رہے ہیں، ان کے گھروں پر بلڈوزر چلوا رہے ہیں اور ہولی کے موقع پر مساجد کو ڈھکنا ہی ان کا کام رہ گیا ہے، سردار پٹیل کا نظریہ اس کے بالکل برعکس ہے۔ ان کے الفاظ اور رویہ ایک ایسا آئینہ دکھاتے ہیں جو انھیں شرمندہ نہیں بھی تو شرمسار کرنے کے لیے کافی ہیں۔ وی. شنکر اپنی کتاب ’مائی رمیننس آف سردار پٹیل‘ میں ایک حیرت انگیز واقعہ یاد دلاتے ہیں، جب سردار پٹیل دہلی میں حضرت نظام الدین اولیاء کی درگاہ کی حفاظت کے لیے درمیانی شب اچانک نکل پڑے تھے۔ یہ جانکاری ملنے پر کہ درگاہ پر شرپسندوں نے قبضہ کر لیا ہے، انھوں نے فوراً شال اوڑھی اور اپنے پرسنل سکریٹری کی طرف مخاطب ہو کر بڑے عزم کے ساتھ کہا: ’’اس سے پہلے کہ ہم ان کی ناراضگی مول لیں، چلو سَنت کے پاس چلتے ہیں۔‘‘


اور اب، پوری دلیل کی بنیاد میں آتے ہیں۔ مہاتما گاندھی کے قتل کے بعد اس وقت کے وزیر داخلہ سردار پٹیل نے آر ایس ایس پر پابندی کیوں لگائی؟ 4 فروری 1948 کو وزارت داخلہ نے آر ایس ایس پر پابندی عائد کرتے ہوئے کہا کہ اس کے کچھ اراکین آگ زنی، ڈکیتی اور قتل جیسے تشدد آمیز واقعات میں شامل تھے اور ان کے پاس غیر قانونی اسلحے ملے۔ حکومت نے ان پر ایسے پرچے تقسیم کرنے کا بھی الزام عائد کیا جو لوگوں کو اسلحہ اٹھانے، حکومت کی تذلیل اور پولیس و فوجیوں کو اکسانے والے تھے۔

بعد میں 14 نومبر 1948 کو وزارت داخلہ نے آر ایس ایس لیڈر ایم ایس گولوالکر کے ذریعہ کیے گئے اچھے روہی کے وعدے کا جواب دیا۔ حالانکہ وزیر داخلہ سردار پٹیل مبینہ طور پر 2 دور کی میٹنگوں کے بعد بھی مطمئن نہیں تھے۔ وزارت داخلہ کے اس پریس بیان میں، جو یقینی طور سے وزیر داخلہ کے حکم پر ہی جاری کیا گیا تھا، حکومت نے کہا کہ آر ایس ایس سے جڑی سرگرمیوں ’ملک مخالف، انہدامی اور یکسر پُرتشدد‘ بنی ہوئی ہیں۔ اس کو اس طرح بھی سمجھیں– یہ سردار پٹیل کی اپنی وزارت تھی جس نے آر ایس ایس کو ’ملک مخالف‘ قرار دیا تھا۔ کیا اس کے بعد بھی اب ثابت کرنے کے لیے کچھ باقی رہ جاتا ہے؟ آر ایس ایس کے پاس سردار پٹیل پر دعویٰ کرنے کی کوئی جائز بنیاد نہیں ہے۔


اب ایک آخری بات... آر ایس ایس کا ایک پرانا خواب ہے، نہرو کے بارے میں جھوٹ پھیلانا۔ کبھی وہ نیتا جی کو ان کے خلاف کھڑا کرنے کی کوشش کرتا ہے، تو کبھی سردار پٹیل کو۔ لیکن یہاں بھی حقائق خود ہی بولتے ہیں، اور کوئی کتنا بھی انکار کر لے، انھیں جھوٹا نہیں بنا سکتا۔ دونوں لیڈران میں ایک دوسرے کے لیے گہری اپنائیت، انکساری اور احترام کا جذبہ تھا۔ اس کی کئی مثالیں ان کے خطوط اور ان کے بارے میں لکھی گئی یادداشتوں میں دیکھے جا سکتے ہیں۔

جب نہرو نے سردار پٹیل کو کابینہ میں شامل ہونے کا رسمی دعوت نامہ دیا، پٹیل کا جواب گرمجوشی بھرا اور احترام والا تھا۔ انھوں نے کہا کہ ان کا اپنی بقیہ زندگی نہرو کی قیادت میں خدمت کرنے کے لیے وقف رہے گا، بلکہ پوری ایمانداری اور عزم کا وعدہ بھی کیا۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ ہندوستان میں کوئی دوسرا نہیں جس نے ملک کے لیے نہرو سے بڑی قربانی دی ہو۔ ہماری شراکت داری اٹوٹ ہے اور یہی ہماری اجتماعی طاقت کا ذریعہ ہے۔


مہاتما گاندھی کے قتل کے بعد سردار پٹیل نے استعفیٰ کی پیشکش کی۔ جواب میں نہرو نے بڑی سنجیدگی سے کہا کہ باپو کی موت نے سب کچھ بدل دیا ہے، اور آگے بھی مزید مشکل چیلنجز نظر آ رہے ہیں۔ وہ ان افواہوں سے پریشان تھے جن میں ان کے اور پٹیل کے درمیان سنگین نااتفاقیوں کی باتیں کہی گئی تھیں اور انھوں نے ایسی غلط فہمیاں ختم کرنے کی گزارش کی۔ نہرو نے پٹیل کو 25 سالوں میں ساتھ ساتھ گزارے طویل سفر کی یاد دلائی اور کہا کہ وقت کے وقت کے ساتھ پٹیل کے تئیں ان کی اپنائیت اور احترام بڑھتا ہی گیا ہے۔ ان کا ماننا تھا کہ اس مشکل وقت میں دوستوں اور رفیق کار کی شکل میں ایک ساتھ کھڑے رہنا ان کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔

تو، تصویر لگانے یا مجسمہ کھڑا کر دینے سے کوئی وارث نہیں بن جاتا۔ سچا وارث ہونے کا مطلب ہے نظریات کو آگے بڑھانا۔ کیا بی جے پی یا آر ایس ایس میں آج سردار پٹیل کی طرح بولنے کی ہمت ہے؟ بالکل نہیں۔ اور اب، کانگریس نے احمد آباد میں کمر کس لی ہے اور لوگوں تک سچائی پہنچانے کا عزم کر لیا ہے۔ بی جے پی-آر ایس ایس نے جھوٹ بول کر ملک کو گمراہ کیا، لیکن کانگریس اب اپنی وراثت کو واپس لینے، اپنے نظریات کو پھر سے قائم کرنے اور اپنے نریٹیو (داستان) کو نئی شکل دینے کو تیار ہے۔ آخر کار، یہ کانگریس کی ہی داستان ہے جو اس ملک کی اصل داستان کہتی ہے... وہی داستان جس کی مخالفت کرنے میں بی جے پی-آر ایس ایس نے برسوں گزار دیے ہیں۔

(مضمون نگار تحریکِ آزادیٔ ہند کی وراثت کے لیے وقف ادارہ ’راشٹریہ آندولن مورچہ‘ کے کنوینر ہیں)

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔