آخر یوگی آدتیہ ناتھ کو گھر میں کیوں گھیر رہی بی جے پی کی اعلیٰ قیادت؟

بی جے پی تنظیم سے وابستہ یوگی کے ایک قریبی رہنما کا کہنا ہے کہ 'یوگی ان لیڈروں میں سے نہیں ہیں، جو وقت کے ساتھ جھگڑے بھول جاتے ہیں۔ اعظم خان کے حشر سے ان کے تیوروں کو سمجھا جا سکتا ہے۔

یوگی آدتیہ ناتھ / ویڈیو گریب
یوگی آدتیہ ناتھ / ویڈیو گریب
user

کے. سنتوش

لکھنؤ: سیاسی گلیارہ ہو یا پھر گاؤں قصبوں کے چوراہے۔ ہر جگہ وزیر اعظم نریندر مودی کے ہندوتوا کے مشتعل پیروکار اور یوپی کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کا نام لیا جا رہا ہے۔ ایک بڑا طبقہ وزیر اعظم عہدے کے لئے یوگی کو مودی کا جانشین بھی قرار دینے لگا ہے۔ لیکن یوگی کے گھر میں ہی جس طرح ان کے پرانے مخالفین کو اعلیٰ قیادت کی جانب سے اہم عہدوں پر بیٹھایا جا رہا ہے، اس سے طرح طرح کی چہ میگوئیاں ہو رہی ہیں۔ سوال اٹھ رہے ہیں کہ آیا یوگی ہندو ووٹروں کو مائل کرنے کے لئے بی جے پی کے محض ’پوسٹر بوائے‘ ہیں؟ اور کیا بی جے پی میں ایک خیمہ انہیں انہی کے گھر میں گھیر کر ان کی سیاسی طاقت کو ختم کرنے کی سازش کر رہا ہے؟

یوگی کے گھر میں گھر جانے کی بات کو گزشتہ دنوں اس وقت تقویت ملی جب ان کے مخالف شیو پرتاپ شکلا کو ہماچل پردیش کا گورنر مقرر کر دیا گیا۔ شیو پرتاپ شکلا ہی وہ چہرہ ہیں، جن کی مخالفت کر کے یوگی نے 21 سال پہلے قومی سطح پر شناخت بنائی تھی۔ اسی لیے جیسے ہی سابق مرکزی وزیر مملکت برائے خزانہ شیو پرتاپ شکلا کا نام سرخیوں میں آتا ہے، وزیر اعلیٰ یوگی اور ان کے تعلقات کو لے کر چرچے ہونے لگتے ہیں۔ دونوں کی کام کرنے کی سرزمین گورکھپور ہے لیکن یوگی کے عروج اور شیو پرتاپ کے سیاسی پس منظر میں جانے کا دور ایک ہی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ شیو پرتاپ نے یوگی کی مخالفت کے بعد بھی بی جے پی نہیں چھوڑی۔ اس کے نتیجے میں 14 سال کے ’بنواس‘ کے بعد انہیں یوپی انتخابات سے عین قبل 2016 میں راجیہ سبھا کے رکن کے طور پر نامزد کیا گیا۔ اس کے بعد 2017 میں انہیں مرکزی کابینہ میں وزیر مملکت برائے خزانہ کی کرسی حاصل ہوئی۔ اب جبکہ شیو پرتاپ کو اہم ذمہ داری کے ساتھ ہماچل کا گورنر بنایا گیا ہے تو ایک بار پھر یوگی کے ساتھ ان کے تعلقات کو لے کر بحث شروع ہو گئی ہے۔ گورنر بنائے جانے کے بعد شیو پرتاپ یوگی کے گورکھ ناتھ مندر میں پوجا کرنے پہنچے لیکن یوگی نے ایسا کچھ نہیں کہا جس سے یہ اشارہ ملتا کہ ان کے تعلقات میں گرمجوشی آئی ہے۔


دراصل، گورکھ ناتھ مندر کے موجودہ سربراہ اور وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے 2002 میں بی جے پی کے خلاف آل انڈیا ہندو مہاسبھا سے ڈاکٹر رادھاموہن داس اگروال کو بی جے پی امیدوار شیو پرتاپ شکلا کے خلاف میدان میں اتارا تھا۔ یہی نہیں یوگی آدتیہ ناتھ نے جلسوں میں شرکت کی تھی۔ یہ الزام لگایا گیا کہ شیو پرتاپ نے تین بار ریاستی حکومت میں وزیر رہنے کے بعد بھی گورکھپور کی ترقی کے لیے کچھ نہیں کیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ صدر ودھان سبھا کی یہ سیٹ بی جے پی بری طرح ہار گئی۔ بی جے پی کے ٹکٹ پر مسلسل 4 بار گورکھپور شہر سیٹ جیتنے والے شیو پرتاپ شکلا ڈاکٹر رادھا موہن داس اگروال سے 5ویں الیکشن میں بری طرح ہار گئے۔ آل انڈیا ہندو مہاسبھا کے ڈاکٹر اگروال 38830 ووٹ حاصل کر کے جیت گئے۔ سماج وادی پارٹی کے پرمود ٹیکریوال 20382 ووٹوں کے ساتھ دوسرے نمبر پر رہے جبکہ بی جے پی کے شیو پرتاپ شکلا کو 14509 ووٹ ملے۔ 2007 میں بی جے پی نے شیو پرتاپ کی جگہ ہندو مہاسبھا سے جیت حاصل کرنے والے ڈاکٹر رادھا موہن داس اگروال امیدوار بنا دیا۔

انہوں نے 49714 ووٹ حاصل کرکے بی جے پی کا پرچم بلند کیا۔ پھر 2012 اور 2017 میں بھی بی جے پی نے ڈاکٹر رادھا موہن داس اگروال کو میدان میں اتارا اور وہ جیت گئے۔ جس رادھا موہن کو یوگی نے شیو پرتاپ کے خلاف کھڑا کر کے گورکھپور میں نئی ​​سیاست کا اسکرپٹ لکھی تھی، وہی رادھا موہن اب یوگی کے سخت مخالف ہیں۔ دراصل، 2022 میں یوگی نے ڈاکٹر رادھا موہن کی اسمبلی سیٹ گورکھپور صدر سے الیکشن لڑا اور جیت گئے۔ اس دوران ڈاکٹر رادھا موہن داس کی ویڈیو بھی وائرل ہوئی، جس میں وہ یوگی حکومت کو ٹھاکروں کی حکومت کہتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔ ڈاکٹر رادھا موہن داس اگروال جو یوگی کے اس اقدام کے بعد پس منظر میں چل رہے تھے، کو راجیہ سبھا بھیج کر بی جے پی کی اعلیٰ قیادت نے بہت سی قیاس آرائیوں کو ختم کر دیا بلکہ کئی سوالوں کو بھی جنم دیا۔ انہیں راجیہ سبھا بھیجنے کے بعد بی جے پی کی مرکزی قیادت نے رادھا موہن کو کیرالہ کا انچارج بنایا ہے۔ اس کے ساتھ انہیں نصف درجن سے زائد کمیٹیوں کا رکن بھی نامزد کیا گیا ہے۔ رادھا موہن نے تقرری کے لیے وزیر اعظم نریندر مودی، وزیر داخلہ امت شاہ اور قومی صدر جے پی نڈا کا شکریہ ادا کیا، لیکن غلطی سے بھی یوگی آدتیہ ناتھ کا نام ان کے پریس نوٹ یا زبان پر نہیں آیا۔ البتہ جب شہری ان کی رہائش گاہ یا پروگراموں میں شہر کا مسئلہ رکھتے ہیں تو ان کا دو ٹوک جواب ہوتا ہے کہ جاؤ، اپنے وزیر اعلیٰ سے کہو!


نشاد پارٹی کے قومی صدر ڈاکٹر سنجے نشاد کی یوگی سے مخالفت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ یوگی کی مخالفت کے باوجود ڈاکٹر نشاد کو یوپی کابینہ میں جگہ ملی۔ خیال رہے کہ نشاد پارٹی کے عروج کے بعد سے یوگی ڈاکٹر سنجے کی مخالفت کر رہے ہیں۔ گورکھپور لوک سبھا سیٹ پر بی جے پی کے اوپیندر دت شکلا کو ڈاکٹر سنجے نشاد کے بیٹے پروین نشاد نے شکست دی تھی جو یوگی کے وزیر اعلی بننے کے بعد خالی ہوئی تھی۔ نشادوں کو درج فہرست ذات کا درجہ دینے کے مطالبے کے احتجاج کے دوران کلکٹریٹ میں ڈاکٹر سنجے نشاد کے بیٹے کی پٹائی کی گئی اور گورکھ ناتھ مندر جانے والے نشادوں پر پولیس نے بے دردی سے لاٹھی چارج کیا۔ یوگی کی تمام مخالفتوں کے باوجود ڈاکٹر سنجے نشاد کو مودی-شاہ کے آشیرواد سے ایم ایل سی بنایا گیا۔ مہاراج گنج سے ایم پی اور مرکزی وزیر مملکت برائے خزانہ پنکج چودھری کا شمار بھی یوگی کے مخالفین میں ہوتا ہے۔ انہیں ذات کی مجبوری کہیں یا یوگی کے گھر کا گھیراؤ کرنے کی کوشش، اعلیٰ قیادت میں پنکج کا قد مسلسل بڑھ رہا ہے۔ پنکج کو ریاست میں ایک کرمی لیڈر کے طور پر کھڑا کیا جا رہا ہے۔

حال ہی میں گورکھپور-ایودھیا سیٹ سے ایم ایل سی الیکشن جیتنے والے دیویندر پرتاپ سنگھ سے یوگی کی مخالفت بھی عام ہے۔ یوگی کی مخالفت کا نتیجہ ہے کہ پارٹی نامزدگی کے آخری دن تک امیدوار کے نام کا اعلان نہیں کر سکی۔ دیویندر پرتاپ سنگھ نے بغیر کسی اعلان کے بی جے پی امیدوار کے طور پر پرچہ نامزدگی داخل کیا۔ بعد میں ریاستی قیادت نے دیویندر سنگھ کی امیدواری کا اعلان کیا۔ خیال رہے کہ دیویندر سنگھ ایک بار ایس پی کے ٹکٹ پر ایم ایل سی منتخب ہوئے تھے۔ اس کے بعد انہوں نے گئورکشا پیٹھ کو لے کر کئی الزامات لگائے تھے۔ تب سے یوگی اور دیویندر پرتاپ آپس میں لڑ پڑے ہیں۔ یہی نہیں بانس گاؤں سے بی جے پی کے ایم پی کملیش پاسوان اور ان کے ایم ایل اے بھائی ڈاکٹر ویملیش پاسوان کو بھی یوگی کا مخالف مانا جاتا ہے۔ کملیش پاسوان نے اپنے والد سابق ایم ایل اے اوم پرکاش پاسوان کے قتل کے بعد گئورکشا پیٹھ پر سنگین الزامات لگائے تھے۔ بی جے پی تنظیم سے وابستہ یوگی کے ایک قریبی رہنما کا کہنا ہے کہ 'یوگی ان لیڈروں میں سے نہیں ہیں، جو وقت کے ساتھ جھگڑے بھول جاتے ہیں۔ اعظم خان کے حشر سے ان کے تیوروں کو سمجھا جا سکتا ہے۔ یوگی اپنے مخالفین کی تاجپوشی پر تب تک خاموش ہیں جب تک ان کی حیثیت برقرار رہتی ہے۔ لوک سبھا انتخابات کے بعد یوپی میں بہت کچھ بدلنے والا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


/* */