مردہ ضمیر حکومتوں سے بیداری کی اپیل

کناڈا کے دو ڈاکٹروں نے غزہ میں جنگ بندی پر زور دیتے ہوئے اپنی ایک اپیل میں عالمی برادری سے کہا ہے، ”دنیا کو بیدار ہونے اور اسرائیل کی بمباری اور ناکہ بندی ختم کرنے کی ضرورت ہے“

<div class="paragraphs"><p>غزہ کی صورت حال / یو این&nbsp; آئی</p></div>

غزہ کی صورت حال / یو این آئی

user

سراج نقوی

کناڈا کے دو ڈاکٹروں نے غزہ میں جنگ بندی پر زور دیتے ہوئے اپنی ایک اپیل میں عالمی برادری سے کہا ہے، ”دنیا کو بیدار ہونے اور اسرائیل کی بمباری اور ناکہ بندی ختم کرنے کی ضرورت ہے۔“

یہ دونوں ڈاکٹر اسی فروری میں غزہ میں مریضوں کا علاج کرتے ہوئے ایک ہفتے سے زیادہ کا وقت گزار کر واپس کناڈا آئے ہیں ڈاکٹروں نے الجزیرہ چینل سے بات کرتے ہوئے رفح اور خان یونس میں اپنے وقت اور حکومتوں پر مستقل جنگ بندی کے لیے دباؤ ڈالنے کے لیے اپنے تجربات کو استعمال کرنے کے اپنے منصوبوں پر بھی گفتگو کی۔

کناڈائی ڈاکٹروں کے انسانی درد مندی کے اس جذبے کو سلام لیکن ان ڈاکٹروں کو کون سمجھائے کہ حقوق انسانی کا سب سے بڑا علمبردار ہونے کا مدعی امریکہ غزہ کے مظلوموں کے تعلق سے مردہ ضمیری کا شکار ہے۔ صہیونی دولت سے دنیا بھر میں شورشوں، سازشوں اور تخریبی کارروائیوں کی پشت پناہی کرنے والے ملک سے یہ امید کرنا کہ وہ اسرائیل کو جنگ بندی کے لیے مجبور کر سکتا ہے، دیوار میں سر مارنے کے مترادف ہے۔ دنیا کو اس غلط فہمی کو دل سے نکال دینا چاہیے کہ اسرائیل پر امریکہ دباؤ ڈالنے کی پوزیشن میں ہے۔ بلکہ سچ یہ ہے کہ اسرائیل حامی صہیونی سرمایہ داروں اور صنعتکاروں کے ہاتھ میں ہی امریکہ کا نظام ہے اور بائیڈن ہوں یا کوئی دوسرا امریکی صدر ان کی اوقات صیہونیت کی کٹھ پتلی سے زیادہ کچھ نہیں۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو امریکی دباؤ کو بار بار نظر انداز کرنے والے اسرائیل کا امریکہ وہی حشر کرتا کہ جو عراق، لیبیا یا دیگر ممالک کا کر چکا ہے اور جہاں ایسا کرنے میں امریکہ کامیاب نہیں ہوا تو اس کا سبب پالیسی کا لچیلا پن نہیں بلکہ امریکہ سے نبرد آزما ہونے والی طاقتوں کی مضبوط قوت ارادی تھی۔ ویتنام، افغانستان اور ایران کو اس معاملے میں مثال کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے۔ ایران اگر تقریباً پانچ دہائی کی اقتصادی پابندیاں جھیلنے کے باوجود امریکہ اور اسرائیل کے قابو میں نہیں آ سکا ہے تو اس کا سبب ایران کی اپنے دم پر کھڑے ہونے کی طاقت ہے، جسے صہیونی دولت اور امریکی سازشیں بھی کمزور نہیں کر سکی ہیں۔ بہرحال یہ الگ موضوع ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ امریکہ اور اسرائیل سے جنگ بندی کی اپیل کرنا کناڈائی ڈاکٹروں کے جذبہ انسانیت کا ثبوت تو ہو سکتا ہے لیکن مردہ ضمیر حکومتوں پر ان اپیلوں کا کوئی اثر ہوگا اس کی توقع کرنا خود فریبی کے سوا کچھ نہیں۔


ایسا نہیں ہے کہ غزہ میں فلسطینیوں پر ہونے والے مظالم پر دنیا کے لوگوں نے آنکھیں بند کر لی ہوں، لیکن یہ بات بہرحال درست ہے کہ دنیا کی بیشتر حکومتوں نے عموماً اور امریکہ، برطانیہ و مغربی طاقتوں نے خصوصاً اس معاملے میں اپنی مردہ ضمیری اور بے حسی کا ہی ثبوت دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حماس نے اپنے تازہ بیان میں غزہ کے قتل عام کے لیے اسرائیل کو بھی مجرم قرار دیا ہے۔

29فروری کی صبح اسرائیلی فوج کی طرف سے غزہ میں کیے گئے قتل عام کو سفاکیت کی تازہ مثال قرار دیتے ہوئے حماس نے کہا ہے کہ فاقہ کش فلسطینیوں کے اجتماعی قتل عام کے اس خونخوار واقعے میں نہ

صرف غاصب نازی اسرائیلی فوج مجرم ہے بلکہ فلسطینیوں کو بھوکا پیاسا مارنے میں اسرائیل کی مدد کرنے کے لیے استعماری ملک امریکہ بھی برابر کا مجرم ہے۔ واضح رہے کہ حماس نے جمعرات کے روز اسرائیل کے ذریعہ کیے گئے جس خون خرابے کا ذکر کیا ہے اس میں غذائی امداد کے لیے جمع ہوئے 100 سے زیادہ فلسطینی بچے اور خواتین کی شہادت ہوئی ہے، جبکہ ایک ہزار سے زیادہ شہریوں کے زخمی ہونے کی خبر ہے۔ حماس نے اسرائیل کے اس حملے کو منظم دہشت گردی سے تعبیر کیا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی حماس نے پورے عزم کے ساتھ یہ بھی واضح کیا ہے کہ اسرائیل فلسطینیوں کے خلاف مسلسل بربریت اور جنگی جرائم کے ارتکاب سے اپنے مذموم اور مکروہ مقاصد حاصل نہیں کر سکتا۔

حماس نے عرب لیگ اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ فوری طور پر اجلاس کریں اور غزہ میں بڑے پیمانے پر قتل عام اور نسلی تطہیر کو روکنے کے لیے مجرم ریاست کے خلاف قدم اٹھائیں لیکن حماس کی یہ اپیل صدا بہ صحرا ہی ثابت ہوگی۔ اس لیے کہ فلسطینیوں کے حقوق اور مفادات کے تعلق سے امریکہ سمیت دنیا کی کئی حکومتوں کا ضمیر مردہ ہو چکا ہے۔ ان حکومتوں پر کناڈائی ڈاکٹروں یا پھر مظلوم فلسطینیوں کی اپیلوں اور فریاد کا کوئی اثر نہیں ہو سکتا اور عرب لیگ ہویا اقوام متحدہ یہ دونوں ہی ادارے اب صرف چند طاقتوں کی کٹھ پتلی سے زیادہ کی حیثیت نہیں رکھتے۔ حالانکہ ان دونوں ہی اداروں میں ایسے اعلیٰ افسران ہیں کہ جن کے ضمیر زندہ ہیں اور جنہوں نے عالمی طاقتوں سے فلسطینیوں پر ہونے والے مظالم روکنے کی اپیلیں بھی کی ہیں اور اسرائیل پر سخت تنقید بھی کی ہے لیکن ان تمام باتوں کا کیا نتیجہ نکلا یہ دنیا جانتی ہے۔ یہ امریکہ ہی ہے کہ جو غزہ میں جنگ بندی سے متعلق قرار داد کو سلامتی کونسل میں تین مرتبہ ویٹو کر کے فلسطینیوں کے قتل عام کی صہیونی حکومت کو اجازت دینے کا مجرم ہے۔ یہ اسرائیل کو مشرق وسطیٰ پر تھوپنے کے لیے ذمہ دار برطانیہ ہی ہے کہ جس نے چند روز قبل جنگ بندی سے متعلق الجزائر کی قرارداد سے غیر حاضر رہ کر فلسطینیوں کے تئیں اپنی منافقت کا ثبوت دیا ہے۔ ایسے میں اقوام متحدہ سے فلسطینیوں کے لیے کسی اچھے عمل کی امید کرنا لا حاصل ہی ہے۔ تقریباً یہی معاملہ عرب لیگ کا بھی ہے۔ اس تنظیم نے مسلم حکومتوں کے درمیان فلسطین، مسجد اقصی‘، ماضی کے عرب ایران تنازعہ پر کوئی مثبت پیش رفت یا کم از کم غور و فکر کی بھی ضرورت محسوس نہیں کی۔ ایسے میں عرب لیگ مظلوم فلسطینیوں کے لیے کوئی ٹھوس اور متحدہ موقف اختیار کرے گی اس کی امید کس طرح کی جا سکتی ہے؟ تادم تحریر تو غزہ کے تازہ قتل عام پر کسی مسلم ملک کا کوئی سخت بیان تک سامنے نہیں آیا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ اگر مسلم ممالک میں آپسی اتحاد ہوتا تو آج اسرائیل کا وجود ہی نہیں ہوتا۔


بہرحال اقوام متحدہ، عرب لیگ یا پھر دیگر مسلم اور غیر مسلم ممالک کا تازہ صورتحال پر کچھ بھی موقف ہو لیکن روس اور کولمبیا نے اسرائیل کی تازہ دہشت گردی پر سخت تنقید کی ہے۔ کولمبیا کے صدر گستاوپیٹرو نے غزہ کی الرشید اسٹریٹ پر جمعرات کے روز کیے گئے اسرائیل کے تازہ اور وحشیانہ حملے کو”ہولو کاسٹ“ قرار دیا ہے۔کولمبیا نے اسرائیل سے اسلحہ کی تمام خریداری معطل کرنے کا بھی فیصلہ کیا ہے۔ کولمبیا کا یہ فیصلہ یقناً قابل تعریف ہے۔ اس لیے کہ اس سے اسرائیل کو معاشی سطح پر کمزور کرنے کی مہم کو مضبوط کرنے میں مد ملے گی لیکن سوال یہ ہے کہ اسرائیل کے مظالم پر ’گھڑیالی آنسو‘ بہانے والی طاقتوں کو کب شرم آئیگی اور کب ان کے مردہ ضمیر بیدار ہونگے؟ کولمبیا کے علاوہ روس ایسا دوسرا ملک ہے کہ جس نے اسرائیل کے ذریعہ کی گئی تازہ نسل کشی پر اپنے سخت موقف کا اظہار کیا ہے۔ روس نے اس صورتحال کے لیے امریکہ کو بھی کٹہرے میں کھڑا کیا ہے۔ کیوبا نے بھی فلسطینیوں کے تئیں اظہار یکجہتی کرتے ہوئے تازہ قتل عام کی مذمت کی ہے۔

بہرحال بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا امریکہ کی اندھی حمایت کے ہوتے ہوئے اسرائیل کی دہشت گردی کو روکا جا سکتا ہے؟ جواب یہ ہے کہ جب تک دنیا امریکہ کی چودھراہٹ کے خلاف کھڑے ہونے کا حوصلہ نہیں دکھاتی اور عالمی اداروں میں امریکی دبدبے کو ختم کرنے کی کوئی ٹھو حکمت عملی تیار نہیں کرتی اس وقت تک اسرائیل کو روکنا ممکن نہیں۔البتہ حماس کا حوصلہ ہی ا س معاملے میں امید کی ایک کرن ہے اور تادم تحریر حماس نے اسرائیلی دہشت گردی کے سامنے جھکنے کا کوئی اشارہ نہیں دیا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔