فکر کرنے والا صحافی نہیں رہا...سید خرم رضا

معروف صحافی ظفر آغا کی رحلت کو ایک ہفتہ گزر گیا ہے، وہ ایک جوشیلے صحافی تھے جن کی ترجیح ہمیشہ ملک اور اس کے مستقبل کی فکر رہی

<div class="paragraphs"><p>ظفر آغا</p></div>

ظفر آغا

user

سید خرم رضا

ظفر آغا کے انتقال کو آج پورا ایک ہفتہ ہو گیا ہے اور ایک ہفتے بعد بھی یہ یقین نہیں ہو رہا کہ وہ اب ہمارے درمیان نہیں ہیں۔  زندہ دل اور جوش سے بھرے ہوئے صحافی جو صرف اپنے ملک اور اس کے مستقبل کے لئے جیتے تھے۔ اس دوران ان کے دوست، اہل خانہ، دفتر کے لوگ اور متعلقین آتے تھے لیکن ملک اور اس کا مستقبل ان کی ہمیشہ اولین ترجیح ہوتی تھی۔ ان کے انتقال پر ملال سے چند روز پہلے نیشنل ہیرالڈ کو اس وقت جھٹکا لگا تھا جب مہاراشٹر کی اس کی ایک بہترین صحافی سجاتا آنندن اس دنیا کو چھوڑ کر ہمیشہ کے لئے اپنے حقیقی رب سے جا ملی تھیں۔ ان کی تعزیت میں شرکت کے لئے وہ  دفتر آئے تھے اور کسی کو کیا معلوم تھا کہ اس دفتر میں چند روز بعد ہی ان کی تعزیت کرنے کے لئے دفتر آنا پڑے گا۔

اس بات کا تو بے انتہا افسوس رہے گا کہ ظفر صاحب کے جوش اور مشوروں سے ہم ہمیشہ کے لئے محروم ہو گئے ہیں لیکن یہ خیال بھی دل کو کچوچ رہا ہے کہ انتقال کے وقت وہ ملک کے مستقبل کو لے کر بے حد فکر مند اور پہلی مرتبہ ناامید نظر آئے تھے۔ انہوں نے صحافت کی وجہ سے ملک میں بہت سے نشیب و فراز دیکھے لیکن ناامیدی کبھی ان کو چھو کر بھی نہیں گزری لیکن پچھلے چند ماہ سے وہ ناامید نظر آنے لگے تھے۔


ویسے تو میرا ان کا ساتھ تقریباً 20 سال پرانا تھا اس سے پہلے صحافت میں ہمیشہ ان کو دور سے دیکھ کر سراہا کرتا تھا لیکن کس کو معلوم تھا کہ ایک دن میں ان کے اتنے قریب ہو جاؤں گا کہ روزانہ فون پر بات کرنا دن کا لازمی معمول بن جائے گا۔ فون پر بات کرنے کا معمول بھی یہ کووڈ وبا کے بعد بنا اس سے پہلے تو دفتر میں روزانہ ملنا اور ان کے کیبن میں مستقبل اور صحافت کے بارے میں باتیں کرنا دن کا لازمی حصہ تھا۔

ان ملاقاتوں میں جھگڑے بھی  اور تکرار بھی ہوتی تھی لیکن ان کا خاتمہ ہمیشہ مثبت پہلو پر ہوتا تھا۔ جوش اور پسماندہ طبقوں کے لئے کچھ کرگزرنے کی زبردست چاہ ہی تھی کہ انتقال سے کچھ روز پہلے ان کو ایک چہلم میں شرکت کے لئے الہ آباد جانا تھا، اس لئے انہوں نے جانے سے پہلے  پرانی دہلی کے کچھ نوجوانوں سے ملاقات کے لئے وقت طے کیا اور مجھ سے کہا کہ اس ملاقات کے بعد اس پر عمل ہونا چاہئے اس لئے اس کو کس طرح عملی جامع پہنانا ہے اس کو دیکھ لینا۔ کیا معلوم تھا کہ ایک ماہ پہلے ہوئی یہ ملاقات ان کے ساتھ ان کی یہ آخری ملاقات ہوگی۔


سچی صحافت کرنے والے ان جیسے کم ہی ہوں گے جن کو تمام بڑے سیاسی رہنما نام سے جانتے تھے اور ان کے لئے کچھ بھی کر گزرنے کے لئے  ہمیشہ تیار رہتے تھے لیکن ان کا مقصد صرف اپنی خبر سے ہوتا تھا۔ انہوں نے کانگریس کو ہمیشہ آڑے ہاتھوں لیا کیونکہ وہ ایک سچے صحافی تھے۔ خبر کی ہر جگہ ان کو موجود رہنا جیسے ان کی ضرورت تھی۔ ووٹنگ والے دن کسی نہ کسی علاقہ میں اپنی آنکھو سے حالات کا مشاہدہ کرنا ان کی عادت میں شمار تھا۔

شاعری ہو، بین الاقوامی تعلقات ہوں  سب پر گہری نظر رکھنا ان کی زندگی کا لازمی حصہ تھا۔ ہائی کمیشنر، سفیر اور افسران سے ملنا اور ان سے بات کرنے کے بعد حالات کو سمجھنا ان کا شغل تھا۔ احمد فراز ہوں، فیض احمد فیض ہوں، پروین شاکر ہوں، وسیم بریلوی ہوں ان سب کے چند منتخب اشعار کو پسند کرنا اور ان کو سنانا انہوں نے اپنی زندگی کا حصہ بنایا ہوا تھا۔


ویسے وہ انگریزی کے صحافی تھے لیکن گزشتہ کئی سالوں سے اردو سے ان کا لگاؤ بڑھ گیا تھا۔ اردو کیونکہ ان کی مادری زبان تھی اس لئے انہیں اردو میں لکھنے اور پڑھنے میں کبھی دشواری نہیں ہوئی۔ انہوں نے دو چیزوں پر ہمیشہ افسوس کا اظہار کیا ، ایک بابری مسجد کی شہادت پر کیونکہ انہوں نے کبھی اس ملک میں ایک مسجد کو گرائے جانے کے بارے میں تصور نہیں کیا تھا اور دوسرا یہ کہ اب ان کو ملک کے مستقبل کو لے کر فکر ہونے لگی تھی۔ ان کو اس دنیا سے جانا ہی تھا لیکن وہ اپنے ساتھ ملک کے مستقبل کی فکر کو لے کر گئے۔ اب صرف یہی دعا ہے کہ وہ ہمارے بیچ نہیں ہیں بس ان کو جو فکر تھی وہ بھی نہ رہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔