ظفر آغا ایسے دور میں ہمیں الوداع کہہ گئے جب ان کی سب سے زیادہ ضرورت محسوس ہو رہی ہے!

ظفر آغا کی شخصیت زندگی کے جوش و خروش سے بھرپور تھی لیکن انہوں نے بہت کچھ اپنے سینے میں چھپا کر رکھا تھا۔ وہ ایسے دور میں ہمیں الوداع کہہ کر چلے گئے جب ان کی سب سے زیادہ ضرورت محسوس ہو رہی ہے

<div class="paragraphs"><p>تصویر قومی آواز</p></div>

تصویر قومی آواز

user

ناگیندر

میں ظفر صاحب کو زیادہ نہیں جانتا۔ اتنا بھی نہیں جان پایا، جتنا جان لینا چاہتا تھا۔ دراصل ان سے ملاقات سنڈے نوجیون، ہیرالڈ اور قومی آواز فیملی میں شامل ہونے کے بعد ہوئی۔ رسمی طور پر میری ان سے ’پیٹریاٹ ہاؤس‘ میں دو ملاقاتیں ہوئیں، غالباً 83 کے لگ بھگ جب میں یونیورسٹی سے فارغ ہو کر صحافت کی دنیا میں آ رہا تھا اور لکھنؤ سے دہلی کا سفر شروع کر دیا تھا، بس کسی موقع کا انتظار تھا۔ تاہم وہ ملاقاتیں بھی یادداشت میں اسی وقت درج ہوئیں جب میں ظفر صاحب سے دہلی میں ملا اور فون پر بات کی۔ ان باتوں اور ملاقاتوں میں جب پیٹریاٹ کا ذکر ہوا تو مجھے یاد آیا کہ ان دنوں میں پیٹریاٹ کے بیورو چیف چندر موہن مشرا جی سے ملنے گیا تھا اور پھر وہاں ظفر صاحب سے بھی ملاقات ہوئی تھی، ظاہر ہے مشرا جی نے ان کا تعارف کرایا ہوگا۔ مشرا جی کمیونسٹ پارٹی سے وابستہ تھے اور یہی وجہ تھی کہ ان سے اجے بھون کے راستے ملاقات ہوئی۔ بہر کیف، فی الحال یہ بات موضوع بحث نہیں ہے۔

ظفر صاحب سے میری ملاقات کم ہی ہوتی تھی لیکن جب بھی ہم فون پر بات کرتے تو وہ جوش و خروش سے لبریز ہوتے۔ میرا صرف لکھنؤ سے ہونا ہی انہیں پرجوش کر دیتا۔ کوئی نہ کوئی کہانی ان کی زبان پر آ ہی جاتی۔ فون پر نہیں لگتا کہ ہم کسی ایسے شخص سے بات کر رہے ہیں جو اس عمر میں بیماری میں مبتلا ہے۔

آخری بات چیت شاید 15 یا 20 دن پہلے ہوئی تھی۔ میں نے پوچھا، ظفر صاحب، کتاب کا کام کہاں تک پہنچا ہے؟ فرمایا اگر آپ جیسے لوگ بار بار یاد دلانے والے ہوں تو پورا ہو ہی جائے گا! (پھر بیماری کی مجبوری بھی بتائی)۔


میں نے انہیں یاد دلایا کہ ہم سب نے اس دن ان کے کیبن میں وعدہ کیا تھا کہ ’’آپ صرف بول کر ڈیوائس پر آواز ریکارڈ کر دیں، ٹیکسٹ کو ایڈٹ کرنے کے لیے ہم سب تیار ہیں۔"‘‘ وہ بہت پرجوش نظر آتے تھے لیکن میں اس جوش کے پیچھے چھپے خوف کو بھی محسوس کر سکتا تھا!

مجھے یہ دیکھنے کا موقع نہیں ملا کہ ظفر صاحب کیا لکھ رہے تھے لیکن مجھے لگتا ہے کہ وہ جو کچھ لکھ پائے ہوں گے وہ کافی اہمیت کا حامل ہوگا۔ اس کی کمزور ہوتی یادوں کے خانے میں بہت کچھ تھا جو کریدنے پر ظاہر ہونے لتا تھا لیکن افسوس ہم زیادہ کرید نہیں پائے۔ اس بہت کچھ میں سے کیا کچھ ان کے لیپ ٹاپ تک پہنچا معلوم نہیں لیکن ایسا لگتا ہے کہ بہت کچھ باہر آنا باقی رہ گیا۔

اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ہم سب سوچتے ہیں لیکن وقت پر احساس نہیں کرتے۔ تاہم اس کی عملی وجوہات بھی ہیں۔ میں نے یہ غلطی کئی بار کی ہے۔ اب لگتا ہے کہ اس بار ظفر صاحب کے معاملے میں ایسا ہی ہوا۔ حال ہی میں جب راج صاحب (تھیٹر کے تجربہ کار راج بساریہ) صاحب کا انتقال ہوا تو یہ احساس بیدار ہوا۔ کئی بار سوچنے اور فیصلہ کرنے کے باوجود ان کے ساتھ بیٹھنا ممکن نہیں تھا۔ اس کی بہت سی چیزیں اس کے ساتھ چلی گئیں۔ آج ظفر صاحب رخصت ہو رہے ہیں تو مجھے پھر محسوس ہو رہا ہے کہ ہم سے بہت بڑی غلطی ہو گئی ہے, شاید ہم سب سے!


ہم کب تک ایسی غلطیاں کرتے رہیں گے؟ اب سوچنے کا وقت ہے! شاید کوئی ایسی چیز ہے جسے ہم اپنے بزرگوں کی یادوں کے دریچوں سے نکال کر محفوظ کر سکتے ہیں۔

ظفر صاحب کی رحلت ایک ایسی ولولہ انگیز شخصیت کی خاموش رخصتی ہے جس نے اپنے دل میں بہت کچھ چھپا رکھا تھا۔ ان کا انتقال ایک ایسے وقت میں ہوا ہے جب ہم ان جیسے مزید لوگوں کی شدید ضرورت محسوس کر رہے ہیں۔ ظفر صاحب کے انتقال نے ایک خلا پیدا کر دیا۔

الوداع ظفر صاحب! ہم آپ کو یاد کریں گے!

22 مارچ 2024 کی صبح پھر سے سرد ہو گئی ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔