مودی حکومت کے 9 سال: خارجہ پالیسی میں متعدد تبدیلیاں، ملکی روایات سے انحراف

ہندوستان میں سب سے زیادہ میڈیا پر سینسر، اقلیتوں کے استحصال کے حوالے سے مودی حکومت پر لعن طعن کی جا رہی ہے۔ اس صورتحال پر قابو پانے کی ضرورت ہے۔

<div class="paragraphs"><p>وزیر اعظم نریندر مودی / Getty Images</p></div>

وزیر اعظم نریندر مودی / Getty Images

user

نواب علی اختر

ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ بدلتے وقت کی مناسبت سے اس کی پالیسیاں تبدیل ہوتی رہیں، حکومت حالات کے مطابق اپنی ترجیحات متعین کرے لیکن اس کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ ملک کو اپنی بنیاد اور روایات سے ہرگز روگردانی نہیں کرنا چاہئے کیونکہ یہی قوم کی اصل شناخت ہوتی ہیں جس سے عالمی اسٹیج پرملک پہچانا جاتا ہے۔ ان تمام حقائق کے درمیان مئی 2014 میں نریندر مودی نے پہلی بار وزیر اعظم کے طور پر ملک کا اقتدار سنبھالا اور اپنے پہلے دور میں ہی یعنی 5 سال کے عرصے میں ایک مخصوص طبقے کو خوش رکھنے کے لیے ملک کی خارجہ پالیسی میں متعدد تبدیلیاں کیں، جنہیں ملکی روایات سے انحراف کہا جا سکتا ہے اس سے کئی دوست ممالک ہندوستان سے ناراض بھی ہوگئے۔

یہ سلسلہ ابھی رُکانہیں ہے۔ حال ہی میں مودی حکومت نے اپنی مدت کار کے 9 سال پورے کئے ہیں۔ ان سالوں میں اکثر یہ سوال اٹھتے رہے ہیں کہ اتنے برسوں میں ہندوستان کی خارجہ پالیسی میں آخر کیا تبدیلیاں آئی ہیں جن کے نفع ونقصان کے تجزیہ پر زور دیا جاتا رہا ہے۔ حالانکہ ہندوستان کے حوالے سے پڑوسی ملک پاکستان اورچین کے پیٹ میں ہمیشہ درد ہوتا رہتا ہے جن کاعلاج کرنے میں مودی حکومت پوری طرح ناکام نظر آرہی ہے جب کہ بی جے پی اور 2014 میں اس کے وزیراعظم عہدے کے امیدوار رہے نریندرمودی نے لوک سبھا الیکشن ’پاکستان‘ کے موضوع پرلڑا تھا گویا وہ ہندوستان کے لئے نہیں بلکہ پاکستان کا اقتدارحاصل کرنے کیے لئے لڑا گیا ہو اور اب جبکہ بی جے پی اقتدارمیں ہے تو اس کے رہنماؤں کو پاکستان کے حوالے سے سانپ سونگھ گیا ہے۔


بہرحال مودی کے دوسرے دور کے تیزی سے بدلتے عالمی حالات کے مدنظر ہندوستان کی ترقی کے لیے نئے امکانات کی تلاش ضروری ہے، امکانات کا دائرہ جتنا وسیع ہوگا، ہندوستان کی ترقی کا دائرہ بھی اتنا ہی وسیع ہو جائے گا۔ آج کا ہندوستان اور آج کی دنیا مختلف ہے۔ دنیا کے سامنے بہت سے چیلنجز ہیں۔ آج کے دور میں چین ایک بہت بڑی طاقت کے طور پر ابھرا ہے اور اس کا ہندوستان کے ساتھ رویہ جارحانہ ہے۔ دوسری طرف امریکہ اب اتنا طاقتور نہیں رہا جتنا پہلے ہوا کرتا تھا۔ آج کی دنیا میں ہندوستان کو جن چیلنجوں کا سامنا ہے، تاریخ میں اس کا کوئی وجود نہیں ہے۔ دوسری جانب روس اور یوکرین کے درمیان گزشتہ کئی دنوں سے جنگ جاری ہے۔ اس دوران دنیا واضح طور پر دو کیمپوں میں بٹی ہوئی نظر آتی ہے۔

 دنیا کے ممالک یا تو امریکہ (یوکرین) کے ساتھ ہیں یا روس کے ساتھ لیکن اس ماحول میں ہندوستان نے اپنا موقف غیر جانبدار ظاہر کرکے روایتی ہندوستان کی خارجہ پالیسی کا اظہار کیا ہے۔ حالانکہ اس جنگ کے دوران کواڈ ممالک بالخصوص آسٹریلیا میں ہندوستان کی غیر جانبداری کی پالیسی کی سخت مذمت کی گئی۔ آسٹریلیا اور جرمنی جیسے ممالک ہندوستان کے اس غیر جانبدارانہ رویے کو براہ راست پسند نہیں کر رہے ہیں۔ اس سب کے باوجود ہندوستان نے روس یوکرین جنگ میں اپنی غیرجانبداری کی پالیسی پر عمل کیا۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں انہوں نے روس کے خلاف ووٹنگ میں حصہ نہ لے کر اپنے موقف کو مزید مضبوط کیا۔


اسی طرح سال 2021 میں جہاں ایک طرف پوری دنیا کورونا کا شکار تھی وہیں دوسری طرف اسرائیل اور فلسطین آمنے سامنے آگئے تھے۔ ایسے میں کچھ ممالک گروپ بندی میں پڑ گئے اور انہوں نے اپنی سہولت کے مطابق حمایت کے لیے ایک ملک کا انتخاب کیا۔ اس سب کے درمیان جس ملک پر پوری دنیا کی نظریں جمی ہوئی تھیں وہ ہندوستان تھا۔ فلسطین اور ہندوستان کے تعلقات شروع سے ہی دوستانہ رہے ہیں۔ دونوں ملکوں کے درمیان اتنے اچھے تعلقات رہے ہیں کہ 70 کی دہائی میں فلسطین لبریشن آرگنائزیشن (پی ایل او) کے سربراہ یاسر عرفات اندرا گاندھی کو اپنی بڑی بہن سمجھتے تھے اور ان کی کسی بات سے گریز نہیں کرتے تھے۔ سال 1974 میں ہندوستان نے فلسطین لبریشن آرگنائزیشن کو تسلیم کیا تھا۔ ہندوستان ایسا کرنے والا پہلا غیر مسلم ملک تھا۔ اس کے ساتھ ہی سال 1988 میں ہندوستان بھی فلسطین کو ایک قوم کے طور پر تسلیم کرنے کی حمایت میں کھڑا ہوا۔ 

ہندوستان ہمیشہ سے فلسطین کے لیے ایک الگ ملک اور مشرقی یروشلم کو اپنی راجدھانی بنانے کے حق میں رہا ہے لیکن 2021 میں جب دونوں ممالک آمنے سامنے تھے، تب ہندوستان نے پہلی بار فلسطین اور اسرائیل کے درمیان مسئلہ کو حل کرنے کے لیے ’دو قومی حل‘ کا ذکرنہیں کیا۔ شاید ایسا پہلی بار ہوا جب فلسطین-اسرائیل بحران کو لیکرہندوستان نے اپنے بیان سے اس اہم لائن کوحذف کر دیا ہو۔ اس سے قبل سلامتی کونسل میں ہندوستان نے کہا تھا کہ ہم دونوں فریقوں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ زیادہ سے زیادہ تحمل کا مظاہرہ کریں اور ایسے اقدامات سے گریز کریں جس سے کشیدگی نہ بڑھے اور یروشلم اور آس پاس کے مقامات پر جمود میں یکطرفہ تبدیلیوں سے گریز کریں۔ کبھی کھل کر فلسطین کی حمایت کرنے والے ہندوستان نے فریقین کے حوالے سے متوازن بیان دیا تھا۔ لیکن مودی حکومت اب کھل کر اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات مضبوط کر رہی ہے جو کئی مسلم ممالک کو ناگوار گزر رہا ہے وہیں مسلمان بھی فلسطین کے حوالے سے مودی حکومت کی پالیسی کو لیکر تذبذب کا شکار ہیں۔


اگرمودی حکومت کی خارجہ پالیسی میں پڑوسی ممالک سے تعلقات بہتر کرنا شامل ہے تو یہ ہندوستان کے لیے نیک شگون ہوگا۔ موجودہ وقت میں سارک کے 8 اور ان کے علاوہ برما، ایران، ماریشش اور وسطی ایشیا کے پانچوں جمہوری ممالک کو ملا کر یہ 16ممالک دنیا کی طاقت اور خوشحالی کے ذخائر بن چکے ہوتے لیکن اب بھی دیرنہیں ہوئی ہے، جنوبی اور وسطی ایشیائی تعاون کا ڈھانچہ مضبوط کرنے کی ضرورت ہے جس کے بعد ہماری مشترکہ مارکیٹ ہوگی، مشترکہ پارلیمنٹ اور مشترکہ فیڈریشن ہوسکتے ہیں۔ اگر ایسا ہو جائے تو 21ویں صدی کو ایشیا کی صدی بننے سے کوئی نہیں روک سکتا ہے۔

اگر اس نقشے کے مطابق ہندوستان خارجہ پالیسی اختیار کرے تو ملک کی غربت 5سالوں میں دور ہوسکتی ہے، اور اگرہندوستان امیر ہوگا تو اس کے پڑوسی بھی غریب نہیں رہ سکتے کیونکہ جنوبی ایشیا کی غربت، ناخواندگی، تنگی اور ناانصافی کو ہندوستان تنہا دور نہیں کرسکتا، سب مل کرکریں گے۔ ہندوستان کے پڑوسی ممالک کی زمین میں اتنا تیل، لوہا، سونا، گیس، ایلومینیم، تانبا وغیرہ انمول مال بھرا ہوا ہے کہ اس علاقے کو ہم دنیا کی طاقت کا ذخیرہ کہہ سکتے ہیں۔ اگرپڑوسیوں سے ہمارے تعلقات خوشگوار ہوں اوراقتصادی فیڈریشن بن جائے تو ہندوستان کے کروڑوں نوجوان ان ممالک میں جاکردولت پیدا کرسکتے ہیں اور جب دولت برسنے لگے گی تو جنوبی ایشیا کے ملک اپنے باہمی جھگڑوں کو اپنے آپ زمین کے نیچے دفن کردیں گے۔


لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ مودی حکومت کو سیاسی نفع ونقصان کو اپنے ذہن سے نکال کر ملک کے لئے نفع ونقصان کو پیش نظر رکھنا ہوگا۔ عوام اور ممالک کو خوش رکھنے کی سنجیدہ پالیسی ہی کسی قوم کی بہتری کا ضامن ہوتی ہے۔ ایسا ہرگز نہیں ہونا چاہئے کہ ملک کے مسلمانوں کو خاطر میں نہ لایا جائے، ان کاعرصہ حیات تننگ کر دیا جائے اور دنیا کے قدرتی وسائل سے مالامال امیر مسلم ممالک سے پینگیں بڑھائی جائیں۔ دوستی کا دائرہ بڑھانا اچھی بات ہے مگر اس پالیسی کو پہلے اپنے ’گھر‘ میں لاگو کرنا چاہئے کیونکہ حالیہ تقریباً تمام غیرملکی تجزیات اور رپورٹوں میں ہندوستان کی تنقید کی گئی ہے۔ ہندوستان میں سب سے زیادہ میڈیا پر سینسر، اقلیتوں کے استحصال کے حوالے سے مودی حکومت پر لعن طعن کی جا رہی ہے۔ اس صورتحال پر قابوپانے کی ضرورت ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔