مودی حکومت کے 9 سال: پہاڑ جیسی مدت، جسے سر کرنا کسی مہم سے کم نہیں تھا!...ظفر آغا

یقیناً پچھلے 9 برس پہاڑ سر کرنے سے کم مشکل نہیں تھے، لیکن ان 9 برسوں میں قوم نے تمام تر ناانصافیوں کے باوجود پہاڑ سر کرنے کی کوشش بھی کی اور اس میں اس کو تھوڑی بہت کامیابی بھی حاصل ہوئی

<div class="paragraphs"><p>ہندوستانی مسلمان / Getty Images</p></div>

ہندوستانی مسلمان / Getty Images

user

ظفر آغا

کسی قوم کی تاریخ میں 9 برس کی مدت کوئی بہت بڑا عرصہ نہیں ہوتی ہے۔ لیکن کبھی کبھی یہ قلیل مدت بھی قوموں کے لیے ایک پہاڑ بن جاتی ہے جس کو اکثر سر کر پانا محال محسوس ہوتا ہے۔ ہندوستانی اقلیتوں اور خصوصاً مسلم اقلیت کے لیے مئی 2014 سے مئی 2023 کی یہ 9 برسوں کی مدت کسی ایک پہاڑ کو سر کرنے جیسی مہم سے کم نہیں تھی۔ جی ہاں، یہ ہندوستانی سیاست میں نریندر مودی کی حکمرانی کے 9 برس ہیں اور مئی 2024 کو یہ ایک دہائی پوری کر لے گی۔ اس دور کو آزاد ہندوستان کے مسلمانوں کا سب سے بدترین دور کہا جائے تو مبالغہ نہیں ہوگا۔ یوں تو صبح آزادی 15 اگست 1947 کو ملک کے بٹوارے کے بعد بھی ہندوستانی مسلمان ایک سخت امتحان سے دو چار تھا۔ ملک میں فرقہ پرستی کا طوفان، فسادات کی آگ اور لاکھوں انسانوں کا گھر بار چھوڑ کر بارڈر سے اِدھر اُدھر منتقل ہونے جیسے واقعات پیش آ رہے تھے، لیکن پھر اس بے سر و سامانی کے حالات میں گاندھی جی نے مسلمانوں کے سر پر ہاتھ رکھا اور جواہر لال نہرو نے فرقہ پرستی کی آگ بجھانے کا کام کیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ بٹوارے کے باوجود ملک میں حالات جلد ہی سدھر گئے اور کیا ہندو اور کیا مسلمان سب اپنی اپنی زندگی بنانے میں مصروف ہو گئے۔ لیکن پچھلے 9 برس میں ہر سال اس ملک کے مسلمان کے لیے ایک بڑی سے بڑی بری خبر لے کر آتا رہا۔ سنہ 2015 میں دادری میں اخلاق کی موب لنچنگ سے بری خبر کی شروعات ہوئی۔ یہ اپنی نوعیت کی عجیب و غریب موت تھی جس میں ایک کثیر ہندو مجمع نے اخلاق کے گھر میں گھس کر اس کو اس شبہ میں مار ڈالا کہ اس کے گھر میں گائے کا گوشت رکھا ہے۔ یہ کوئی فساد نہیں تھا۔ اس طرح موب لنچنگ میں مارا محض ایک شخص گیا تھا، لیکن اس موب لنچنگ کا سیاسی پیغام بہت خطرناک تھا۔ اور وہ یہ کہ کوئی بھی مسلمان اب گھر یا باہر کہیں بھی محفوظ نہیں ہے۔ فسادات میں مارے جانے والوں کی تعداد اور نقصان کے مقابلے یہ حکمت عملی بہت ہی خطرناک تھی۔ کیونکہ موب لنچنگ کے ذریعہ ہندوتوا طاقتوں نے مسلمانوں میں دہشت پھیلا دی اور اسی کے ساتھ ساتھ عام ہندوؤں میں مسلمانوں کے خلاف نفرت کے بیج بو دیے۔

پچھلے نو برسوں میں یہی دہشت اور ہندو منافرت ہندوستانی مسلمان کی قسمت بن گئی۔ اس پر سے ستم یہ بھی رہا کہ مودی حکومت اور بی جے پی کی ریاستی حکومتوں نے کھل کر یہ اشارے دیے کہ یہ ہندو اکثریت کی حکومتیں ہیں جن میں مسلمانوں کے لیے کچھ نہیں ہے۔ تب ہی تو یوپی جیسی اہم ریاست کا چناؤ 80 بمقابلہ 20 کے نعرے پر لڑا گیا اور بی جے پی حکومت بنانے میں کامیاب رہی۔ الغرض ان نو برسوں میں صرف موب لنچنگ ہی نہیں بلکہ کبھی بابری مسجد کی زمین تک ہاتھ سے گئی، تو کبھی تین طلاق کا حق ختم ہوا اور کبھی مسلم اکثریتی صوبہ جموں و کشمیر آئین کی شق 370 کھو کر اپنا خصوصی کردار ہی نہیں بلکہ ایک ریاست کا بھی کردار کھو بیٹھا۔ اگر چھوٹی بڑی ناانصافیوں کی فہرست تیار کی جائے تو ایک طویل فہرست ہوگی، جیسے آسام میں کئی لاکھ افراد اپنی شہریت کھو کر کیمپوں میں بھیج دیے گئے۔ جب اس شہریت قانون کے خلاف شاہین باغ تحریک شروع ہوئی تو پہلے حکومت نے اس پر کان دھرنے سے انکار کر دیا، اور پھر تحریک ختم ہونے سے کچھ پہلے ہی دہلی میں مسلمانوں کے خلاف سخت دنگے بھڑک اٹھے۔ اکثر مبصرین کا خیال تھا کہ یہ مسلمانوں کو شاہین باغ تحریک کھڑا کرنے کا جواب تھا۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ شرجیل امام اور عمر خالد جیسے جوانوں کو، جو شاہین باغ تحریک سے منسلک تھے، سب کو جیل میں ڈال دیا گیا جہاں وہ آج بھی سزا کاٹ رہے ہیں۔


الغرض اس طرح کی مصیبتوں کا سلسلہ جاری ہے اور اس کے تھمنے کے آثار نظر نہیں آتے۔ لیکن ان برسوں کی سب سے خطرناک بات یہ ہے کہ حکومت نے کھل کر یہ پیغام دیا کہ وہ محض ہندو حامی حکومت ہے اور اس کے لیے مسلمان جیسی دوسری نمبر کی کثیر التعداد آبادی کی کوئی حیثیت نہیں۔ اس سے بھی خطرناک بات یہ رہی کہ مسلم منافرت کی بی جے پی حکمت عملی اس قدر کامیاب رہی کہ گلی محلوں اور گاؤں دیہاتوں تک مسلمان ہندو دشمن سمجھا جانے لگا۔ نوبت یہاں تک آئی کہ مسلمان سبزی بیچنے والوں تک کو اکثر ہندو بستیوں سے باہر نکال دیا گیا۔ یعنی سماجی سطح پر مسلمانوں کا معاشی بائیکاٹ بھی شروع ہو گیا۔ لب و لباب یہ کہ مسلم منافرت میں ڈوبے یہ 9 برس مسلم اقلیت کے لیے پہاڑ سر کرنے سے بھی مشکل ثابت ہوئے۔

لیکن ہر مصیبت اور سنگین حالات اکثر قوموں کو کچھ بہت اہم سبق دے جاتے ہیں۔ اس اعتبار سے ہندوستانی مسلمانوں کے لیے یہ 9 برس کی مصیبتیں کچھ بہت اہم تبدیلیوں کا پیغام بھی لے کر آئے۔ سب سے پہلے تو بابری مسجد اور تین طلاق کے ہاتھوں سے نکلنے کے بعد ایک بڑی مسلم آبادی کو یہ سمجھ میں آنے لگا کہ قدامت پسند مسلم لیڈران خواہ وہ علما ہوں یا دوسرے، قوم کو جذباتی مسائل میں الجھا کر مذہب کے نام پر قوم کی ترقی میں نقصان دہ ثابت ہوتے ہیں۔ یہ ایک بڑی سماجی تبدیلی ہے جس کا اب اکثر لوگ کھل کر اعتراف کرنے لگے ہیں۔ دوسری سب سے اہم سماجی تبدیلی جو پیدا ہو رہی ہے وہ یہ کہ مسلم معاشرہ کا اب رجحان جدید تعلیم کی جانب بڑھتا جا رہا ہے۔ اور آج کا مسلم نوجوان تعلیم حاصل کر زندگی کے ہر شعبہ میں بلندیوں کو سر کر رہا ہے۔ اچھی بات یہ ہے کہ اس میں لڑکے اور لڑکیاں دونوں ہی شامل ہیں۔ اس کی تازہ ترین مثال کم و بیش 30 مسلم لڑکے لڑکیوں کی یو پی ایس سی میں کامیابی ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی خبر آئی ہے کہ حیدر آباد کی مسلم لڑکی عالمی باکسنگ چمپئن بن گئی ہے۔ مسلم لڑکے لڑکیوں نے اچھی تعداد میں جیوڈیشیل سروسز میں کامیابی بھی حاصل کی۔ یہ محض اس بات کا ثبوت نہیں کہ مسلمانوں کا رجحان تعلیم کی طرف بڑھ رہا ہے، بلکہ اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ قوم دقیانوسی سماجی زنجیریں توڑ کر مثبت جدیدیت کے دور یعنی مین اسٹریم میں شامل ہو رہی ہے۔ یہ مودی حکومت کی مصیبتوں سے سبق حاصل کر قوم نے خود سیکھا ہے۔ ابھی اس سلسلے میں اور بہت کچھ کرنا باقی ہے اور وہ راستے بھی کھلیں گے۔ آخری بات یہ کہ کرناتک کے سیاسی نتائج نے سنہ 2024 کے لوک سبھا چناؤ کے لیے نئے امکان پیدا کیے ہیں۔ اگر مسلم ووٹرز نے اس چناؤ میں عقلمندی سے ووٹ کر دیا تو حالات اور بدل سکتے ہیں۔


یقیناً پچھلے 9 برس پہاڑ سر کرنے سے کم مشکل نہیں تھے، لیکن ان 9 برسوں میں قوم نے تمام تر ناانصافیوں کے باوجود پہاڑ سر کرنے کی کوشش بھی کی اور اس میں اس کو تھوڑی بہت کامیابی بھی حاصل ہوئی۔ یعنی گھبرائیے مت اور ہمت و سوجھ بوجھ سے کام لیجیے۔ مصیبتیں ہمیشہ نہیں رہتی ہیں۔ آخر صبح آتی ہی ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔