شہر نامہ: محراب اور گنبد کاارتقاء ... پارٹ-3

اصلی محراب کو سب سے پہلے روم کے لوگوں نے استعمال کیا وہ محرابوں کی دیوار بناتے تھے اور ان کے اوپر نالی بناتے تھے، جو شہروں تک پانی پہنچانے کے لئے استعمال ہوتی تھی۔

تصویر قومی آواز/سہیل ہاشمی
تصویر قومی آواز/سہیل ہاشمی
user

سہیل ہاشمی

اس سلسلے کی پچھلی قسط میں ، میں نے یہ عرض کیا تھا کہ محراب اور گنبد کا باہمی رشتہ بہت گہرا ہے، نیز یہ کہ جنہیں محراب بنا نا نہیں آتا تھا وہ گنبد نہیں بنا سکتے،۔اسی سلسلے کو آگے بڑھاتے ہیں اور اس سے اگلی قسط میں فن تعمیر اور مذہب اور گنبد اور اسلام کے باہمی رشتوں کے بارے میں بات چیت کریں گے۔

اصلی محراب کو سب سے پہلے روم کے لوگوں نے استعمال کیا وہ محرابوں کی دیوار بناتے تھے اور ان کے اوپر نالی بناتے تھے، جو شہروں تک پانی پہنچانے کے لئے استعمال ہوتی تھی۔

تصویر بشکریہ ٹوروپیا ڈاٹ کام
تصویر بشکریہ ٹوروپیا ڈاٹ کام

لمبے عرصے تک محرابوں کا استعمال پانی کی نہریں اور پل بنانے کے لئے ہوتا تھا، پھر ایک ہی جسامت کی محرابیں اس طرح بنائی جانے لگیں جس طرح ڈبل روٹی کے ٹوسٹ ایک دوسرے سے ملا کر رکھے جاتے ہیں ، اب جو عمارت بنی اس کی چھت لکھنؤ کے بڑے امام باڑے کی چھت سے ملتی جلتی شکل کی تھی۔ ایسی چھتوں کو محراب دار یا کمانی دار چھت بھی کہا جاسکتا ہے۔ یا یوں سمجھ لیجیے جیسے دو متوازی دیواروں کے اوپر ایک بہت بڑی ناؤ پلٹ کر رکھ دی جائے۔ اس شکل کی عمارت کو غالباً کسی ایسی شخص نے تصور کیا ہوگا جس نے کسی الٹی ناؤ کے نیچے رات بسر کی تھی۔

اگر اجنتا جانے کا کبھی اتفاق ہو تو بودھ بھکشوں کے لئے بنے وہاروں اور عبادت کے لئے بنے چیتیہ گرہوں کی چھتوں کو دیکھئے ان سب کی شکل ایک الٹی ناؤ جیسی ہے اوربہت سے قدیم کلیساؤں اور بادشاہوں کے محلوں کی چھتیں بھی اسی وضع قطع کے ہیں ۔

تصویر بشکریہ فیکٹ فار یو ویب سائٹ
تصویر بشکریہ فیکٹ فار یو ویب سائٹ
اجنتا غاروں کی چھتوں کا ایک منظر
تصویر قومی آواز/سہیل ہاشمی
تصویر قومی آواز/سہیل ہاشمی
ورسیی محل میں ایک چھت - پیرس

کلیساؤں کی چھتوں اور اجنتا کی چھتوں میں ایک بنیادی فرق ہے، اجنتا کے سارے غار ایک ہی پتھر کو تراش کر بنائے گئے ہیں ، فرش ، دیواریں ، ستون اور چھت ، سب کچھ ایک بہت بڑی چٹان میں تراشے گئے ہیں، کہیں کوئی جوڑ نہیں ہے جبکہ سنگ کلیدی والی محراب کا کمال یہ ہے کہ یہ چھوٹے چھوٹے قاش نما پتھروں کو جوڑ کر بنائی جاتی ہے۔اجنتا دراصل فن تعمیر کے بجائے سنگتراش کے ہنر کی مثال ہے۔ یہ دعویٰ کرنا کہ ہم نے آج سے 2400 برس پہلے، عظیم اشوک کے وقت میں ، محراب ایجاد کر لی تھی اتنا ہی بے بنیاد ہو گا جیسا یہ کہنا کہ گنیش جی کا سر پلاسٹک سرجری کے ذریعہ جوڑا گیا تھا۔

پرانے کلیساؤں کی عمارت کے تصور کا محرک وہی خیال تھا جس نے اجنتا اور اس وقت دنیا بھر میں پہاڑوں کو تراش کر بنایی جانے والی اس ہیئت کی کئی عمارتوں کی تخلیق کی، فرق صرف اتنا ہے کہ وہ تراش کر بنائی گئی اور کلیساؤں کی محرابیں پتھروں یا لکڑی کے ٹکڑوں کو ساخت کرکے تعمیر کی گیی ہیں۔ جیسے ہی محرابوں کو ملا کر یہ سرنگ نما عمارت بننے لگیں، یہ ممکن ہو گیا کہ بڑے ہال- کمرے تعمیرکیے جاسکیں اوران میں کئی سو لوگ ایک ساتھ بیٹھ سکیں۔ ایک سرے پر منچ بنا کر اگر کوئی کھڑا ہو جائے تو سب اسے دیکھ سکتے تھے ۔بس پھر کیا تھا یہودیوں کے کنیسہ اور عیسائیوں کے کلیسا اسی وضع کے بننے لگے۔ جو بات یہاں یاد رکھنے کی ہے وہ یہ کہ اس وضع کی عمارتوں کی ایجاد کنیسہ اور کلیسا کے لئے نہیں ہویی تھی مگرجیسے ہی اس شکل کی عمارت عمارات وجود میں آئیں دونوں مذاہب کے منتظمین انہیں عبادت کے استعمال میں لے آئے۔

اب محراب نے ایک کروٹ اور لی، جو نئی شکل سامنے آئی وہ کچھ اس طرح سمجھی جاسکتی ہے کہ چھوٹی محراب کے ساتھ اس سے بڑی، پھراس سے بڑی پھراس سے بھی بڑی محراب کھڑی کی جائے اور پھر بتدریج چھوٹی ہوتی ہوئی محرابیں کھڑی کی جائیں، اب جو عمارت تشکیل ہو گی اسے ہم گنبد کہتے ہیں۔

گنبد اس طرح تعمیر نہیں ہوتے مگر گنبد کے اجزا ء ترکیبی کیا ہیں وہ اس طریقے سے سمجھے جا سکتے ہیں ۔ گنبد دو طرح کے ہوتے ہیں ، ایک بتدریج چھوٹے ہوتے ہوئے پتھر کے ہم مر کزی دائروں کو تلے اوپر بٹھا کر بنتے ہیں، یہ گنبد توڑے دار محرابوں کا مجموعہ ہے اور دوسرا وہ گنبد ہے جو اصلی گنبد کہلاتا ہے، اصلی گنبد توڑے دار محرابوں کی بنا پر بنے گنبد کےمقابلے کہیں زیادہ مضبوط ہے۔

ایبک کی بنوائی ہوئی جامع مسجد میں چار گنبد پہلی قسم کے ہیں،اور علائی دروازہ کا گنبد ، دلّی میں تعمیر ہونے والی اصلی گنبد کی پہلی مثال ہے، اس سے پہلے غیاث الدین بلبن کے مزار پر 1287 میں بننے والا پہلا گنبد اور خود علاؤلادین خلجی کے مزار پر تعمیر ہونے والا دوسرا اصلی گنبد ٹوٹ کر بکھر گئے۔

جوبات یاد رکھنے کی ہے وہ یہ کہ پہلا توڑے دار گنبد اور پہلا اصلی گنبد، دونوں ہی سب سے پہلے، حضرت عیسیٰ کی پیدائش سے پہلے، روم میں تعمیر ہو چکے تھے۔ انہوں نے روم کی پارلیمنٹ میں سینیٹروں کی میٹنگ کے لئے گنبددار چھت کے نیچے سینٹ ہال تعمیر کیا تھا۔ یہ ایک ایسی عمارت تھی جو ایک بڑے رقبہ کا احاطہ کرتی تھی، جس میں ستونوں کی قطاریں نہیں ہوتی تھیں اور جس میں سارے سینیٹر ایک دوسرے کو دیکھ سکتے تھے۔ یہ نئی شکل سرنگ نما عمارتوں سے بہت بہتر تھی، وہاں تو صرف مقرر ہی سب کو دیکھ سکتا تھا، اور وہی تقریر کرتا تھا، گنبد کے نیچے بنی عمارت نے سب کو ایک برابر کردیا۔ جمہوری نظام سیاست کی راہ روشن کرنے والی پہلی عمارت۔

اس وقت اس خطہ میں اجتماعی پرستش کرنے والا ایک ہی مذہب تھا اور وہ تھے یہودی اور انہوں نے فوراً اس نئی عمارت کو اپنایا اور گنبددار عمارتوں میں پہلے کنیشہ ، عیسائیت کے وجود میں آنے کے بعد کلیسا اور پھر جب اسلام عرب سے باہر نکلا اور ان علاقوں میں پھیلا جہاں گنبد کا استعمال ہوتا تھا ، تب مسجدوں میں گنبد کا استعمال ہونے لگا۔ گنبد اور محراب کا اسلام سے کوئی بہت قریبی رشتہ نہیں ہے، یہ کس طرح اسلامی ہو گیا اس کے بارے میں اگلی قسط میں گفتگو کریں گے۔

یہ بھی پڑھیں:

شہرنامہ: محراب اور گنبد کا ارتقاء ... پارٹ-1

شہرنامہ: جب ہندوستان میں ’ترک محراب‘ کی برتری قبول کی گئی!

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 14 Jan 2018, 7:56 PM