بجٹ 2025: اوسط ہندوستانی خاندانوں کے لیے کچھ بھی نہیں!...پی چدمبرم
سابق وزیر خزانہ چدمبرم نے بجٹ پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اس میں اوسط ہندوستانی خاندانوں کے لیے کچھ نہیں ہے اور اس میں بے روزگاری، افراطِ زر اور بنیادی سہولیات کی لاگت جیسے اہم مسائل کو نظرانداز کیا گیا

لوک سبھا میں بولتے ہوئے پی چدمبرم / ویڈیو گریب
بجٹ کے پیچھے ایک نظریہ ہونا چاہیے لیکن اس بجٹ کے پیچھے کوئی واضح نظریہ نظر نہیں آتا۔ یہ بجٹ سیاسی مفادات کے تحت تیار کیا گیا معلوم ہوتا ہے۔ وزیر خزانہ نے وزارتِ خارجہ کے لیے 20,517 کروڑ روپے مختص کیے ہیں، جبکہ پچھلے سال اس مد میں 28,915 کروڑ روپے کا بجٹ تھا۔ کیا ہم اپنی عالمی موجودگی کو کم کر رہے ہیں؟ کیا ہم سفارت خانے اور قونصل خانے بند کر رہے ہیں؟
گزشتہ ہفتے وزارتِ خارجہ امریکہ سے جبری ملک بدری کے مسئلے کو سنبھالنے میں ناکام رہی۔ حکومت کو معلوم تھا کہ 483 مزید ہندوستانیوں کو غیر قانونی تارکین وطن کے طور پر شناخت کیا گیا ہے لیکن یہ واضح نہیں کہ ان کی ملک بدری کب ہوگی۔ کیا حکومت انہیں واپس لانے کے لیے ہندوستانی طیارے بھیجے گی؟
انکم ٹیکس میں کمی اس بجٹ کا سب سے بڑا نکتہ رہا ہے۔ حکومت نے ٹیکس کی حد 7 لاکھ سے بڑھا کر 12 لاکھ کر دی ہے، جس سے تقریباً 80 سے 85 لاکھ افراد ٹیکس کے دائرے سے باہر ہو جائیں گے۔ اس سے نہ صرف متوسط طبقہ بلکہ امیر ترین افراد کو بھی فائدہ ہوگا۔
وزیر خزانہ نے دعویٰ کیا ہے کہ انہوں نے 1 لاکھ کروڑ روپے کا ریونیو چھوڑ دیا ہے، پھر بھی وہ 2025-26 میں 11.1 فیصد ٹیکس ریونیو میں اضافے کا دعویٰ کر رہی ہیں۔ یہ معاشی منطق نہیں، بلکہ جادو ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ اس 1 لاکھ کروڑ روپے سے معیشت کو تحریک ملے گی، لیکن اس کا ایک حصہ بچت، قرضوں کی ادائیگی، بیرون ملک تعلیم اور سیاحت پر بھی خرچ ہوگا۔ معیشت کی ترقی کے لیے صرف کھپت پر انحصار نہیں کیا جا سکتا، برآمدات اور سرمایہ کاری جیسے دیگر عوامل پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
'وزیر اعظم کے نئے روزگار پیدا کرنے کے پروگرام' اور 'نئے روزگار پیدا کرنے کے پروگرام' میں کیا فرق ہے؟ حکومت نے پچھلے سال روزگار اسکیموں کے لیے 28,318 کروڑ روپے مختص کیے، لیکن 31 مارچ تک صرف 20,035 کروڑ روپے خرچ کیے گئے۔ باقی 8,000 کروڑ روپے کیوں خرچ نہیں کیے گئے؟ پیداوار سے جُڑی ترغیب (PLI) اسکیم مکمل طور پر ناکام رہی ہے۔
آمدنی اور اجرت میں کمی، گھریلو بچت میں کمی اور گھریلو قرضوں میں اضافہ تشویشناک ہے۔ بجٹ میں نچلے 50 فیصد عوام کے لیے کچھ بھی نہیں رکھا گیا، جبکہ اوپر کے 50 فیصد کو فائدہ دیا گیا ہے۔ ہندوستان کی عالمی مینوفیکچرنگ میں شراکت 2.8 فیصد ہے، جبکہ چین کی 28.8 فیصد ہے، جو ظاہر کرتا ہے کہ مینوفیکچرنگ کے شعبے میں ہم پیچھے ہیں۔
2012 سے 2024 کے درمیان غذائی افراطِ زر 6.18 فیصد، تعلیمی افراطِ زر 11 فیصد اور صحت کی خدمات کی افراطِ زر 14 فیصد رہی۔ اس بجٹ میں ان مسائل پر کوئی توجہ نہیں دی گئی، بلکہ صرف انکم ٹیکس میں کمی پر زور دیا گیا، جو کہ دہلی انتخابات کے پیش نظر کیا گیا معلوم ہوتا ہے۔
ہندوستان میں بے روزگاری سب سے بڑی پریشانی ہے۔ اگر نوجوانوں میں بے روزگاری 10.2 فیصد اور گریجویٹس میں 13 فیصد ہے، تو یہ کیسے ممکن ہے کہ مجموعی بے روزگاری کی شرح صرف 3.2 فیصد ہو؟ حکومت کی منصوبہ بندی کیا ہے؟ کیا 2030 تک 78 لاکھ غیر زرعی نوکریاں پیدا ہوں گی؟
بے روزگاری مسلسل بڑھ رہی ہے، جبکہ غذائی افراطِ زر، تعلیمی افراطِ زر اور صحت کی خدمات کے بڑھتے اخراجات نے ہندوستانی خاندانوں کو بے بس کر دیا ہے۔ اس بجٹ میں اوسط ہندوستانی خاندانوں کے لیے بہت کچھ کیا جا سکتا تھا۔ وزیر خزانہ کو انکم ٹیکس اور جی ایس ٹی میں کمی کرنی چاہیے تھی۔ منریگا کی اجرت بڑھائی جا سکتی تھی اور کم از کم اجرت ایکٹ کے تحت قانونی کم از کم اجرت میں اضافہ کیا جا سکتا تھا۔
آپ سرمایہ جاتی اخراجات میں کٹوتی کر کے اپنے مالی خسارے کو کم نہیں کر سکتے، خاص طور پر جب یہ کٹوتیاں زراعت، دیہی ترقی اور شہری ترقی جیسے اہم شعبوں میں کی جا رہی ہوں۔ غذائیت، صاف پانی، سماجی تحفظ، دیہی سڑکیں، فصل بیمہ اور بہبود سبسڈی کے منصوبوں میں بھی کمی دیکھی گئی ہے۔ سب سے زیادہ پریشان کن بات یہ ہے کہ درج فہرست ذاتوں، درج فہرست قبائل اور پسماندہ طلبہ کے لیے دی جانے والی اسکالرشپ اسکیموں کو بھی نقصان پہنچا ہے۔
وزیر خزانہ نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے مالی خسارے کے ہدف کو حاصل کر لیا ہے لیکن یہ سرمایہ جاتی اخراجات میں 1,83,569 کروڑ روپے کی کٹوتی کر کے کیا گیا۔ اس میں صحت، تعلیم اور سماجی بہبود جیسے اہم شعبے متاثر ہوئے ہیں۔
یہ بھی باعث تشویش ہے کہ زراعت، دیہی ترقی اور شہری ترقی کے بجٹ میں زبردست کمی کی گئی ہے۔ غذائیت، صاف پانی، دیہی سڑکیں، فصل بیمہ اور اسکالرشپ جیسے فلاحی منصوبوں میں تخفیف ہوئی ہے، جو سب سے کمزور طبقات کو براہ راست متاثر کرے گی۔ حکومت مالی خسارے کے قابو میں ہونے کا دعویٰ کر رہی ہے، لیکن حقیقت میں اس نے ترقیاتی اخراجات میں زبردست کمی کی ہے۔
1991 کے معاشی بحران میں ڈاکٹر منموہن سنگھ نے دانشمندی اور جرات مندانہ اصلاحات کے ذریعے ہندوستانی معیشت کو بدل دیا۔ میں وزیر خزانہ سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ بھی ایسی ہی دوراندیشی اپنائیں۔ اور میں ایک بار پھر پوچھتا ہوں، حکومت نے ابھی تک ڈاکٹر منموہن سنگھ کو بھارت رتن سے کیوں نہیں نوازا؟
(سابق وزیر خزانہ پی چدمبرم نے راجیہ سبھا میں مرکزی بجٹ پر ہوئی بحث کے دوران ان خیالات کا اظہار کیا)
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔