کورونا بحران میں مسیحا بنے پرانی دہلی کے کنور شہزاد پر بنی شارٹ فلم ’آکسیجن مین‘ ریلیز

کنور شہزاد نے کہا کہ میرے والد نے یہ نصیحت کی تھی کہ بیٹا ہمیشہ مصیبت میں ضرورت مندوں کی مدد ضرور کرنا۔ والد کے گزر جانے کے بعد میں نے یہ فیصلہ کیا کہ اب دوسروں کی مدد کرنی ہے چاہے جو ہوجائے۔

user

محمد تسلیم

نئی دہلی: عالمی وباء کورونا وائرس کی دوسری لہر نے ملک کی راجدھانی دہلی میں جو تانڈو مچایا تھا اس کو ہر کس و ناکس نے اپنی کھلی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ کورونا بحران میں جن لوگوں نے اپنی جان کی پرواہ کیے بغیر لوگوں تک آکسیجن سلینڈر پہنچائے اور لوگوں کی جان بچانا اپنا فرض سمجھا، ایسے افراد کسی مسیحا سے کم نہیں ہیں۔

عوام نے ایسے افراد کو ’آکسیجن مین‘ کا لقب دیا ہے۔ اسی کڑی میں ایک نام فصیل بند شہر پرانی دہلی کے باشعور نوجوان کنور شہزاد کا ہے، جنہوں نے کورونا بحران میں نہ صرف بھاری بھرکم آکسیجن سلینڈروں کو اپنے کاندھوں پر رکھ کر لوگو ں تک پہنچانے کا کام کیا بلکہ لوگوں کو آکسیجن مہیا کرا کر ہزاروں لوگوں کی جان بچائی۔


کنور شہزاد کے اس کام کی ویڈیو سوشل میڈیا پر خوب وائرل ہوئی تھی۔ جس کو ڈاکو منٹری فلم اور شارٹ فلم بنانے والے ”روما بھامری پروڈکشن“ سے وابستہ روی دیکشت نے بڑی باریکی سے دیکھا اور فیصلہ لیا کہ کنور شہزاد کے کردار اور ان کے کام پر ایک اچھی شارٹ فلم اور ڈاکو منٹری فلم بنائی جاسکتی ہے، لیکن یہ کام اتنا آسان نہیں تھا چونکہ روی دیکشت ممبئی میں تھے اور کنور شہزاد سے بالکل انجان تھے۔ بہرحال انہوں نے ان سے دہلی آکر رابطہ کیا اور فلم بنانے کی تیاریوں میں مصروف ہوگئے۔

اس شارٹ فلم میں کنور شہزاد کا کردار ”جاوید ابراہم نے ادا کیا ہے اور فلم کو پرڈیوز روی دیکشت نے کیا ہے۔ پیوش چودھری نے میوزک سے اس فلم میں چار چاند لگائے تو سنجیو شرما نے ایڈیٹنگ کا کام بڑی باریکی سے کیا ہے۔ کڑی محنت کے بعد وہ دن آہی گیا جس کا پرانی دہلی کے لوگوں کو بڑی بے صبری سے انتظار تھا۔ پرانی دہلی کے شاہ گنج چوک میں واقع ایک مقام پر پریس کانفرنس کا انعقاد کیا گیا، جس میں فلم سے وابستہ سبھی افراد نے نامہ نگاروں سے گفتگو کر فلم کے مقصد کو بیان کیا اور اس موقع پر فلم ”آکسیجن مین“ ریلز کی گئی۔


اس موقع پر کنور شہزاد نے کہا کہ کورونا کی پہلی لہر نے میرے والد کو مجھ سے جدا کر دیا، اس موزی وائرس نے ناجانے کتنے خاندانوں کو مصیبت میں ڈال دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ میرے والد نے ہمیشہ مجھے یہ نصیحت کی تھی کہ بیٹا ہمیشہ مصیبت میں ضرورت مندوں کی مدد ضرور کرنا۔ والد کے گزر جانے کے بعد میں نے یہ فیصلہ لیا کہ اب دوسروں کی مدد کرنی ہے چاہے جو ہوجائے۔

انہوں نے کہا کہ کورونا کی پہلی لہر میں ہم نے ضرورت مندوں تک راشن پہنچانے کا کام کیا تھا۔ تاہم کورونا کی دوسری لہر نے حالات مزید خراب کر دیئے لوگ آکسیجن کی تلاش میں جگہ جگہ بھٹک رہے تھے لیکن آکسیجن نہیں مل پا رہی تھی سرکار اپنے ہاتھ کھڑے کر چکی تھی۔ ایسے سنگین حالات میں اپنی جان کی پرواہ کیے بغیر ہم نے آکسیجن مہیا کرانے کا مضبوط ارادہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس اسپتال تک سے آکسیجن کی مانگ آرہی تھی ہم نے وہاں بھی آکسیجن سلینڈر مہیا كارائے، لیکن جب ہم نے سوشل میڈیا پر اپنا فون نمبر شیئر کیا تو نہ صرف دہلی بلکہ قرب و جوار سے لوگ آکسیجن لینے آنے لگے۔


کنور شہزاد نے کہا کہ کورونا بحران میں آکسیجن سلینڈرس کاندھوں پر رکھ کر گھر گھر پہنچانا کسی چنوتی سے کم نہیں تھا، لیکن جب ارادے نیک ہوں تو کوئی کام مشکل نہیں ہوتا۔ انہوں نے کہا کہ خدا جس سے چاہتا ہے کام لے لیتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آکسیجن لوگوں تک پہنچانے کا کام صرف میں نے تنہا نہیں کیا، بلکہ میری طرح بہت لوگ ہیں جو اس کار خیر میں شب و روز لگے ہوئے تھے۔ انہوں نے کہا کہ یہ سارا کام میں نے اپنے ذاتی خرچ سے کیا ہے۔

فلم ریلز کے موقع پر فلم رائٹر روما بھامری نے کہا کہ یہ ایک ایسی کہانی ہے جس میں دکھایا گیا ہے کہ کورونا بحران میں لوگ کس قدر پریشان حال تھے، ہر فرد کسی نہ کسی پریشانی میں مبتلا تھا۔ مہاماری کے دور میں جب لوگ اپنی جان بچانے کی خاطر گھروں میں قید تھے تو ہزاروں لوگ انسانوں کی جان بچانے کے لئے مسیحا بن کر سامنے آئے اور انہوں نے ہر اعتبار سے ضرورت مندوں کی مدد کی۔


انہوں نے کہا کہ بنیادی طور پر یہ مسیحاﺅں کی کہانی ہے۔ کورونا کی دوسری لہر میں ایک مسیحا کنور شہزاد کے روپ میں سامنے آیا، جنہوں نے ہزاروں لوگوں کو آکسیجن سلینڈر بانٹے اور ہزاروں لوگوں کی جان بچائی جس کے بعد لوگوں نے انہیں oxigenman کے خطاب سے نوازا ہے۔ معلومات دیتے ہوئے روما بھامری نے بتایا کہ یہ فلم پرزنٹیشن کی شکل میں بنائی گئی ہے۔

کنور شہزاد کا کردار ادا کرنے والے جاوید ابراہم نے نمائندہ کو بتایا کہ اس فلم میں سب سے مشکل ترین سین کاندھے پر سیلنڈر رکھ کر شوٹ کرنا تھا، دیکھنے میں تو لگ رہا تھا کہ آسانی سے دونوں کاندھوں پر آکسیجن سلینڈر رکھ کر چلا جاسکتا ہے لیکن حقیقت میں اچھے اچھوں کے پسینے چھوٹ جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ میں نے صرف سنگل آکسیجن سلنڈر کاندھے پر رکھ کر سین رکارڈ کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ فلم دیکھنے کے بعد بحران کے وقت میں لوگوں کی مدد کرنے کا جذبہ پیدا ہوگا۔ نوجوانوں کو اس فلم کو ضرور دیکھنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ پرانی دہلی کے ایک نوجوان نے کیسے ہزاروں لوگوں کی مدد کرکے جان بچائی، اس کی تعریف آج پورے ہندوستان میں ہو رہی ہے۔


ناظرین کے لئے پہلے شارٹ فلم 30 جون اور ڈاکو منٹری فلم یکم جولائی 2021 کو یوٹیوب چینل، ruma bhamri production پر ریلز ہوگی۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔