ماسٹر مدن: ہندوستانی سنیما کے دوسرے سہگل، جنہیں زہر دے دیا گیا!

ماسٹر مدن کی آواز کی صحیح تعریف کرنا ہرکسی کے بس بات نہیں۔ لاکھوں بار ان کو سن کر بھی ان کی گائی غزلوں کا تاثر ختم نہیں ہوتا۔ آواز صرف کھنکتا سکہ نہیں ایک سحر طاری کر دینے والی کوئی چیز ہے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

یو این آئی

(یوم وفات 5 جون کے موقع پر)

ممبئی: ہندوستانی موسیقی کی دنیا میں اپنے سروں کے جادو سے سامعین کو مسحور کرنے والے گلوکار تو کئی آئے اور ان کا جادو بھی سر چڑھ کر بولا لیکن کچھ ایسے بھی گلوکار ہوئے جو گمنامی کے اندھیرے میں گم ہو گئے اور آج انہیں کوئی یاد بھی نہیں کرتا۔ انہیں میں سے ایک تھے ماسٹر مدن۔

ماسٹر مدن کی پیدائش 28 دسمبر 1927 کو پنجاب کے جالندھر شہر کے ایک سکھ خاندان میں ہوئی تھی۔ ماسٹر مدن کے والد سردار امر سنگھ ہندوستانی حکومت کے محکمہ تعلیم میں کام کرتے تھے۔ ان کے والد موسیقی سے دلچسپی رکھتے تھے اور وہ ہارمونیم اور طبلے کے ماہر تھے جبکہ ان کی ماں مذہبی خیالات کی خاتون تھیں۔ ماسٹر مدن کے بھائی بہن بھی موسیقی میں کافی دلچسپی رکھتے تھے اور گلوکاری اور ساز و آواز کے میدان میں بڑی شہرت رکھتے تھے۔ گھرمیں موسیقی کا ماحول ہونے کی وجہ سے ماسٹر مدن بھی موسیقی میں دلچسپی لینے لگے۔


موسیقی کے ذوق کا یہ عالم تھا کہ محض دو سال کی عمر سے ہی ماسٹر مدن نے اپنی 14 سالہ بڑی بہن سے موسیقی کی تربیت لینی شروع کر دی تھی۔ اس کے علاوہ انہوں نے موسیقار پنڈت امرناتھ اور گوسائی بھگود کشور سے بھی موسیقی کی تربیت حاصل کی۔ ماسٹر مدن اپنے بڑے بھائی موہن کے ساتھ موسیقی کا ریاض کیا کرتے تھے۔ وہ مدن کو بھی اپنے ساتھ تقاریب میں لے جاتے۔ مدن کی آواز بہت سریلی تھی اور ایک طرح کی چاشنی اور کشش ان مذہبی کیرتن میں بہت ابھر کر آتی تھی جو عموماً سکھوں کی مذہبی محفلوں اور گردواروں میں منعقد ہوتی تھیں۔ پنڈت امرناتھ گھر پر ماسٹر مدن کے دونوں بھائیوں کو موسیقی کی اعلیٰ تعلیم دینے آتے تھے۔ اس دوران مدن بھی وہیں کہیں آس پاس موجود رہتے، یاد رہے کہ یہ وہی پنڈت امر ناتھ ہیں، جو نہ صرف ہندوستان کے بہت بڑے اور مایہ ناز موسیقار تھے بلکہ ایک اور نامور موسیقار حسن لال بھگت رام کے بڑے بھائی بھی تھے۔

ان دنوں مشہور گلوکار کندن لال سہگل شملہ میں ریمنگٹن نامی ٹائپ رائٹر کمپنی میں کام کرتے تھے اور وہ ماسٹر مدن کے گھر اکثر آیا کرتے تھے اور ان کے بڑے بھائی کے ساتھ موسیقی کا ریاض کیا کرتے تھے جسے ماسٹر مدن بھی سنا کرتے تھے۔


صرف ساڑھے تین یا چار برس کی عمر میں مدن نے پہلی پبلک پرفارمنس دی۔ انھوں نے راگ در پد میں گانا سنایا تھا۔ سامعین موسیقی پر ان کی گرفت پہ حیران رہ گئے تھے۔ موسیقی کے راگوں سے واقفیت رکھنے والے حیران تھے کہ جو سُر مدن کے گلے سے نکل رہے ہیں اور جو کیفیت اس کم عمر بچے کی وہ دیکھ رہے ہیں وہ انتہائی حیران کن ہے۔ وہ بے ساختہ یہ بول اٹھے، کیا اس کے گلے میں بھگوان بول رہے تھے؟ سُر تال پہ ان کی گرفت اور ایک وجدانی کیفیت نے انھیں راتوں رات مشہور کر دیا۔ سنگیت کی محفل کے اختتام پر انھیں ایک سونے کی انگوٹھی اور گولڈ میڈل دیا گیا۔ ہندوستان کے تمام بڑے اخباروں میں ان کی تصاویر شائع ہوئیں اور وہ ایک ’’ننھے منے لیجنڈ‘‘ بن گئے۔ اب ہر جگہ ان کی تصاویر کے پوسٹر لگے نظر آتے۔

پورے ملک میں ماسٹر مدن کے نام کا ڈنکا بجنے لگا جس میں میڈیا کا بہت اہم رول رہا۔ اتنا ہی نہیں دی ہندو اخبار نے ماسٹر مدن کا فوٹو اپنے اخبار کے پہلے صفحہ پر شائع کیا۔ اس کے بعد تو ماسٹر مدن کی مقبولیت ملک کے کونے کونے تک پھیل گئی اور لوگ انہیں موسیقی کا پروگراموں کی دعوت دینے لگے۔ ماسٹر مدن اپنے بھائی کے ساتھ بھی پروگراموں میں حصہ لینے جایا کرتے تھے۔ اپنے شہر میں منعقدہ پروگراموں میں حصہ لینے کے لئے انہیں 80 روپے ملا کرتے تھے جبکہ شہر سے باہر پروگرام ہونے پر انہیں 250 روپے اجرت ملتی تھی۔


ماسٹر مدن واقعی ایک طلسماتی آواز کے حامل تھے اور ساغر نظامی کی لکھی ہوئی غزل ’’حیرت سے تک رہا ہے‘‘ انہوں نے ساڑھے نو سال کی عمر میں آل انڈیا ریڈیو دہلی پر پیش کی تھی۔ مدتوں تک یہی دو غزلیں میسر رہیں لیکن ایک عرصے بعد دوران تحقیق ماسٹر مدن کی گائی ہوئی دو مزید غزلیں، چار اردو گیت اور دو پنجابی گیت بھی تلاش کر لئے گئے۔ ان میں سے ایک دو کے سوا باقی تمام یو ٹیوب پر موجود ہیں۔

چودہ برس پانچ مہینے اور گیارہ دن کی کی عمر میں یہ معصوم گلوکار فوت ہو گیا اور اس کی وجہ یہ تھی کہ کسی حاسد گلوکار نے اسے دودھ میں زہر ملا کر پلا دیا تھا۔ ایک عرصے تک یہ کہا جاتا رہا کہ سہگل نے اسے مروا دیا تھا لیکن یہ محض جھوٹا الزام ہی رہا۔


ماسٹر مدن نے اپنا پہلا پروگرام محض ساڑھے تین برس کی عمر میں دھرم پور میں پیش کیا۔ اس عمر میں اتنی سریلی آواز نے سامعین کی آنکھیں تک نم کر دی تھیں۔ اس پروگرام میں ماسٹر مدن کو سننے والی کچھ شاستری سنگیت کی معروف ہستیاں موجود تھیں جو ان کی موسیقی کی صلاحیت سے بے انتہا متاثر ہوئیں۔ انہوں نے کہا کہ اس بچے میں ضرور کوئی خاص بات ہے۔ ایسی صلاحیت خداداد ہوا کر تی ہیں۔ ماہرین نے کہا کہ ہم نے آج سے پہلے اتنا بہترین گانا کبھی نہیں سنا تھا پورے ملک میں اس بچے کی صلاحیت کا کوئی مقابلہ نہیں کرسکتا تھا۔

ماسٹر مدن کی آواز کی صحیح تعریف کرنا ہرکسی کے بس بات نہیں۔ لاکھوں بار ان کو سن کر بھی ان کی گائی غزلوں کا تاثر ختم نہیں ہوتا۔ آواز صرف کھنکتا سکہ نہیں ایک سحر طاری کر دینے والی کوئی چیز ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔