مجروح سلطان پوری: الفاظ اور نغموں کے جادوگر کی لازوال شاعری اور فلمی خدمات
شاعر اور بالی ووڈ کے بے مثال نغمہ نگار مجروح سلطان پوری نے 300 سے زائد فلموں میں ہزاروں گیت لکھے اور ادب و موسیقی میں منفرد مقام حاصل کیا

اردو شاعری اور ہندی فلمی نغمہ نگاری کی دنیا میں اگر کسی نام کو سدا بہار مانا جاتا ہے تو وہ ہے مجروح سلطان پوری۔ وہ شاعر جن کے لکھے ہوئے گیت اور غزلیں نصف صدی سے زیادہ عرصے تک نہ صرف مقبول رہے بلکہ آج بھی دلوں کو چھو لیتے ہیں۔ یکم اکتوبر 1919 کو اتر پردیش کے ضلع سلطان پور میں اسرار الحسن خان کے طور پر پیدا ہونے والے اس عظیم شاعر کو دنیا بعد میں ’مجروح سلطان پوری‘ کے نام سے جاننے لگی۔ والد سب انسپکٹر تھے اور چاہتے تھے کہ بیٹے کو اعلیٰ تعلیم ملے مگر مجروح نے ساتویں جماعت کے بعد عربی و فارسی کی تعلیم کو ترجیح دی۔ انہوں نے درس نظامی مکمل کیا اور عالم بنے۔ پھر لکھنؤ کے تکمیل الطب کالج سے یونانی طریقہ علاج کی تعلیم حاصل کی اور حکیم کی حیثیت سے دواخانہ بھی چلایا۔
حکیم مجروح اپنے دواخانے میں مریضوں کو نسخوں سے صحت یاب کرتے رہے مگر ان کا دل شعر و شاعری کی دنیا میں زیادہ لگتا تھا۔ سلطان پور اور اطراف کے مشاعروں میں شرکت ان کا معمول بن گئی۔ بالآخر ایک وقت آیا کہ حکمت کو خیرباد کہا اور شاعری کو مستقل پیشہ بنا لیا۔ وہ کہا کرتے تھے کہ پہلے مریضوں کی نبض پر ہاتھ رکھتے تھے، اب معاشرے کی نبض پر ہاتھ رکھتے ہیں۔
مجروح کی شاعری کو جگر مراد آبادی جیسے عظیم شاعر کی صحبت نے نئی سمت عطا کی۔ انہوں نے نہ صرف انہیں رہنمائی دی بلکہ ان کی تخلیقی توانائیوں کو جِلا بھی بخشی۔ یہی سبب ہے کہ مجروح نے کم عمری ہی میں مشاعروں میں اپنی پہچان قائم کر لی۔ وہ ترقی پسند تحریک سے جُڑے اور اپنے کلام میں سماجی شعور کو نمایاں کیا۔
1945 میں ممبئی کے ایک مشاعرے نے مجروح کی زندگی کا رخ ہی موڑ دیا۔ یہاں ان کی شاعری سن کر فلم انڈسٹری کے پروڈیوسر اے آر کاردار متاثر ہوئے اور انہیں فلمی نغمے لکھنے کی پیش کش کی۔ ابتدا میں انہوں نے انکار کیا مگر جگر مراد آبادی کے اصرار پر راضی ہو گئے۔ پھر موسیقار نوشاد سے ملاقات نے فلمی دنیا کے دروازے کھول دیے۔ نوشاد نے ایک دھن سنائی اور مجروح نے اس پر نغمہ لکھا:
جب اس نے گیسو بکھرائے، بادل آیا جھوم کے
مست امنگیں لہرائی ہیں، رنگیں مکھڑا چوم کے
یہ نغمہ پسند کیا گیا اور انہیں فلم ’شاہجہاں‘ کے لیے لکھنے کا موقع ملا۔ یہاں انہوں نے اپنا پہلا فلمی گیت غم دیے مستقل لکھا جو اتنا مقبول ہوا کہ مجروح کو براہ راست فلمی نغمہ نگاروں کی صفِ اول میں لا کھڑا کیا۔
مجروح کا انداز سب سے الگ تھا۔ وہ فلمی نغموں میں بھی ادبی شان برقرار رکھتے۔ یہی وجہ تھی کہ ان کے لکھے ہوئے گیت محض فلمی دھنیں نہیں بلکہ ادبی شہ پارے سمجھے جاتے۔ ان کے مشہور نغموں میں جب دل ہی ٹوٹ گیا، ہم جی کے کیا کریں گے شامل ہے جسے کے۔ ایل۔ سہگل نے گایا اور جو سہگل کے جنازے میں بھی بجایا گیا۔ یہ نغمہ مجروح کو شہرت کی انتہاؤں تک لے گیا۔
راج کپور کے لیے لکھا گیا ان کا گیت ایک دن بک جائے گا ماٹی کے مول آج بھی امر ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس گیت کے عوض راج کپور نے انہیں ایک ہزار روپے دیے تھے، مگر یہ نغمہ ان کے وقار کی علامت بن گیا۔
پچاس برس سے زیادہ کے فلمی سفر میں مجروح نے تین سو سے زائد فلموں کے لیے چار ہزار کے قریب نغمے لکھے۔ ان کے گانے دلیپ کمار، دیوآنند، راج کپور، یہاں تک کہ بالی ووڈ کے تینوں خان — سلمان، شاہ رخ اور عامر خان — پر بھی پکچرائز ہوئے۔ ان سب کے فلمی کیریئر میں مجروح کے نغموں کا بڑا حصہ رہا۔
انہوں نے ناصر حسین کی فلموں کے لیے متعدد یادگار نغمے لکھے جیسے پھر وہی دل لایا ہوں، تیسری منزل، بہاروں کے سپنے، کارواں، خاموشی وغیرہ۔ ان فلموں کے گیت کامیابی کی ضمانت ثابت ہوئے۔
اگرچہ مجروح نے ہزاروں فلمی نغمے لکھے، مگر ان کی اصل محبت غزل رہی۔ ان کی غزلیات کی تعداد ستر کے قریب ہے، لیکن ہر غزل ان کے تخلیقی ادراک اور ادبی شعور کی نمائندہ ہے۔ اشعر ہاشم جیسے ماہرین کا کہنا ہے کہ "مجروح نے فلمی دنیا کے لیے محض شوقیہ لکھا، اصل میں وہ ایک غزل گو شاعر تھے جنہوں نے فلمی گیتوں میں بھی ادب کی تاثیر کو زندہ رکھا۔"
1949 میں ترقی پسند تحریک سے وابستگی کی پاداش میں انہیں جیل بھی جانا پڑا۔ مالی حالت خراب ہوئی تو راج کپور نے مدد پیش کی، لیکن مجروح نے خودداری کے باعث انکار کر دیا۔ بعد میں راج کپور نے ان سے نغمہ لکھوایا اور یوں ان کا درد شاعری میں ڈھل کر ایک شاہکار نغمہ بنا۔
فلم دوستی کے نغمے چاہوں گا میں تجھے سانجھ سویرے پر انہیں فلم فیئر ایوارڈ ملا۔ سب سے بڑھ کر 1996 میں مجروح سلطان پوری کو فلمی دنیا کا سب سے بڑا اعزاز دادا صاحب پھالکے ایوارڈ دیا گیا۔ یہ اعزاز پانے والے وہ پہلے نغمہ نگار تھے۔ علاوہ ازیں انہیں اقبال سمان ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔
مجروح کے کلام میں نازک خیالات، زندگی کی کشمکش اور سماج کا درد نمایاں ہے۔ ان کے نغمے گلی کوچوں میں گونجتے رہے اور ہر دور کے سننے والوں کے دلوں کو چھوتے رہے۔ ان کی تحریروں میں وہی کشش ہے جو اردو غزل کی کلاسیکی روایت میں ملتی ہے۔
24 مئی 2000 کو مجروح سلطان پوری اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔ مگر ان کا تخلیقی سرمایہ آج بھی زندہ ہے۔ ان کے گیت ہر دور میں مقبول رہے اور آنے والے زمانے میں بھی ان کی تازگی قائم رہے گی۔ بالی ووڈ کے بدلتے رنگ ڈھنگ کے باوجود ان کی نغمہ نگاری کبھی پرانی نہیں پڑی۔
مجروح سلطان پوری کا شمار ان گنے چنے شعرا میں ہوتا ہے جنہوں نے اردو ادب اور فلمی دنیا دونوں میں لازوال نقوش چھوڑے۔ انہوں نے اپنی غزلوں سے قاری کو محظوظ کیا اور اپنے فلمی نغموں سے سننے والوں کے دلوں کو چھو لیا۔ وہ الفاظ کے ایسے جادوگر تھے جن کے قلم نے ہر دور کو اپنی گرفت میں رکھا۔
ان کی زندگی اس بات کا ثبوت ہے کہ حقیقی فنکار وہی ہوتا ہے جو زمانے کے بدلتے تقاضوں کے باوجود اپنی تخلیقی عظمت کو برقرار رکھے۔ مجروح نے یہ ثابت کیا کہ ادب اور فلم، دونوں کے سنگم سے بھی لازوال فن پارے تخلیق ہو سکتے ہیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔