کمال امروہوی: بالی ووڈ کا باکمال مکالمہ نویس اور ہدایت کار...برسی کے موقع پر

’پاکیزہ‘ کمال امروہوی کی ڈریم پروجیکٹ فلم تھی، بہترین ڈائیلاگ، موسیقی، نغمات اورمینا کماری کی بے مثال اداکاری کی بدولت فلم نے ناظرین کے دل ودماغ پر ایسے نقوش ثبت کیے، جنہیں آج تک محو نہیں کیا جا سکا۔

کمال امروہی / تصویر ویڈیو گریب
کمال امروہی / تصویر ویڈیو گریب
user

یو این آئی

ہندوستانی سینما کی ایک بڑی شخصیت کے طور پر شمار کیے جانے والے کمال امروہوی نے ناظرین کے دل و دماغ پر ایسے نقوش ثبت کیے، جنہیں آج تک نہیں مٹایا جا سکا۔ 17 جنوری 1918 کو اُتر پردیش کے شہر امروہہ میں ایک زمیندار گھرانے میں کمال امروہوی کا جنم ہوا۔ ان کا اصلی نام سیّد امیر حیدر تھا اور پیار سے گھر والے ان کو ’چندن‘ کے نام سے پکارتے تھے۔ گھر میں سب سے کم عمر ہونے کی وجہ سے کمال امروہوی بہت شرارتی، چنچل اور لاڈلے تھے۔ بچپن سے ہی کمال امروہوی حُسن پرست تھے۔ چاہے قدرت کے حسین مناظر ہوں یا قدرت کا بنایا ہوا کوئی حسین چہرہ، وہ ہر طرح کے حُسن کے دلدادہ تھے اور شاید یہی وجہ تھی کہ پڑھائی لکھائی میں ان کا دل کم ہی لگتا تھا۔ بہتر تعلیم کے لیے انھیں دہرہ دون بھیجا گیا جہاں انھوں نے ہائی اسکول تک کی تعلیم مکمل کی۔

اسی دوران ایک ایسا واقعہ رونما ہوا جس نے ان کی زندگی کے رخ کو بدل دیا۔ ہوا یوں کہ ان کے بڑے بھائی نے ان کی شرارتوں سے تنگ آکر انہیں طمانچہ رسید کر دیا۔ غصہ سے بھرے کمال امروہوی گھر چھوڑ کر لاہور بھاگ گئے۔ لاہور نے ان کی زندگی کی سمت ہی بدل دی۔ انہوں نے بڑا آدمی بننے کا عزم کر لیا تھا۔ انہوں نے خوب محنت کی اور قدیم لسانیات میں ماسٹر کی ڈگری حاصل کرلی۔ لاہور میں کمال امروہوی کی ملاقات معروف نغمہ نواز اور اداکار کندن سہگل سے ہوئی۔ وہ کمال صاحب کی صلاحیتوں کو پہچان کر انہیں فلم میں کام دلانے کے لئے سہراب مودی کے پاس بمبئی لے گئے یہاں آ کر وہ فلم انڈسٹری میں جدو جہد کرنے لگے۔


سہراب مودی نے اپنی شہرۂ آفاق تاریخی فلم ’پُکار‘ کی کہانی بھی سیّد امیر حیدر کمال سے لکھوائی۔ فلم پکار (1939) نے کامیابی اور شہرت کے ایسے جھنڈے گاڑے کہ چاروں طرف کمال کے نام کا ڈنکا بج گیا اور ’’باادب، باملاحظہ ہوشیار۔۔۔‘‘ کی آواز پوری فلم انڈسٹری میں گونجنے لگی۔ یہ فلم نسیم بانو اور چندرموہن کی اداکاری سے مزین تھی۔ انہوں نے اس فلم کے لئے چار گیت لکھے۔ اس فلم کی کامیابی کے بعد کمال امروہوی کا جادو فلموں میں چل گیا اور انہوں نے متعدد فلموں کے لئے کہانی، اسکرپٹ اور ڈائیلاگ تحریر کیے۔ کمال کو اپنے آپ پر بہت بھروسہ تھا، یہی وجہ تھی کہ انھوں نے پہلی بار ایک قلمکار کے طور پر یہ شرط رکھی کہ ان کا نام فلم کے پردے پر الگ سے ایک فریم میں دیا جائے گا۔ اس طرح ایک کہانی کار اور ایک مکالمہ نگار کی الگ سے پہچان کرانے میں کمال امروہوی نے پہل کی۔

فلمی دنیا کے لیے ان کی حیثیت کئی طرح سے قابل قدر ہے۔ انھوں نے ادیبوں کو ایک خاص، قابل احترام اور اہم مقام دلانے میں پہل کی۔ فلم ’محل‘ کی ہدایت اور کہانی لکھ کر انھوں نے ہندوستانی سنیما میں سسپنس فلموں کا آغاز کیا۔ اشوک کمار اور مدھوبالا کو نئے انداز میں پیش کر کے معیاری سینما کے لیے ایک خاص حیثیت بخشی۔ ’آئے گا آنے والا۔۔۔ ‘ گیت ’محل‘ کے لیے گا کر لتا منگیشکر بھی ہندوستانی فلم سنگیت میں اپنا مقام بنا سکیں۔ اس سے حوصلہ پا کر کمال امروہوی نے 1953 میں کمال پکچرس اور 1958 میں کمالستان اسٹوڈیو کی بنیاد رکھی۔ اس کے بینر تلے انہوں نے اپنی بیوی مینا کماری کو لے کرایک آرٹ فلم ’دائرہ‘ بنائی لیکن یہ فلم کامیاب نہ ہوسکی۔


’پاکیزہ‘ کمال امروہوی کی ڈریم پروجیکٹ فلم تھی جس پر انہوں نے 1958 میں کام کرنا شروع کر دیا تھا۔ بہترین ڈائیلاگ، موسیقی، نغمات اور مینا کماری کی بے مثال اداکاری کی بدولت اس فلم نے ناظرین کے دل و دماغ پر ایسے نقوش ثبت کیے، جنہیں آج تک محو نہیں کیا جا سکا۔ اس فلم کے نغموں میں اس قدر کشش ہے کہ آج بھی جب فلم ’پاکیزہ‘ کے نغمے کہیں سنائی دیتے ہیں تو لوگوں کے دلوں کی دھڑکنیں تھم جاتی ہیں اور لوگ ہمہ تن گوش ہو جاتے ہیں۔ آج اس فلم کو انڈسٹری کی کلاسک فلموں میں شمار کیا جاتا ہے۔

کمال امروہوی نے فلم جیلر (1938)، میں ہاری (1940)، بھروسہ (1940)، مذاق (1943)، پھول (1945)، شاہ جہاں (1946)، محل (1949)، دائرہ (1953)، دل اپنا اور پریت پرائی (1960) مغل اعظم (1960)، پاکیزہ (1971)، شنکر حسین (1971) اور رضیہ سلطان (1983) فلموں کے لئے کہانی، ڈائیلاگ اور اسکرپٹ لکھی۔ یہ سچ ہے کہ انہوں نے بڑی تعداد میں فلموں کے لئے اپنی خدمات پیش نہیں کی، لیکن جن چنندہ فلموں میں انہوں نے کام کیا پوری یکسوئی، لگن اور جنون کے ساتھ کام کیا۔ ان کے کام کرنے کی رفتار انتہائی سست ہوتی تھی جس کے سبب ان پر تنقید بھی کی جاتی تھی۔ ’رضیہ سلطان‘ کی فلم سازی کی رفتار دھیمی ہونے کے سبب ہیما مالنی نے بھی ان پر تنقید کی تھی لیکن ان کے کام میں ان کی شخصیت کی جھلک صاف نظر آتی تھی۔


یاد رہے کہ کمال امروہوی نے چار شادیاں کیں۔ ان کی پہلی بیوی کا نام بانو تھا۔ بانو کی استھما سے موت کے بعد انہوں نے محمودی سے شادی کی۔ تیسری شادی انہوں نے اداکارہ مینا کماری سے کی جو عمر میں ان سے پندرہ برس چھوٹی تھیں۔ دونوں کی ملاقات ایک فلم کے سیٹ پر ہوئی اور ان میں پیار پروان چڑھا یہاں تک کہ دونوں 1952 میں رشتہ ازدواج میں بندھ گئے لیکن یہ شادی زیادہ دنوں تک قائم نہیں رہی اور دونوں میں علاحدگی ہو گئی۔ چوتھی شادی انہوں نے مینا کماری کے انتقال (1972) اور فلم ’پاکیزہ‘ کی بے پناہ کامیابی کے بعد رامپور کی ایک بہت خوبصورت لڑکی بلقیس سے کی ۔ فلم ’رضیہ سلطان‘ کی ناکامی سے ٹوٹ کر جب کمال امروہوی بہت بیمار رہنے لگے تو انھوں نے بلقیس کو ایک بڑی رقم دے کر اپنی طرف سے آزاد کر دیا۔

کمال امروہوی کے قلم میں جادو تھا۔ وہ مکالموں کو اس طرح سجا سنوار کر لکھتے تھے کہ مکالمے اپنا پورا اثر فلم بینوں پر چھوڑتے تھے۔ انھوں نے اپنی فنی اور تخلیقی زندگی میں اعلیٰ درجے سے کسی قدر کم درجے کی تخلیق سے کبھی کوئی سمجھوتہ نہیں کیا۔ وہ خود کمال تھے اور انھیں ہر لمحہ کمال کرنے کی جستجو ستاتی رہتی تھی۔ اعلیٰ مرتبے کے تخلیق کار ہمیشہ خوابوں کی دنیا میں رہتے ہیں۔ اُن کا معاملہ بھی یہی تھا۔ وہ ایک مثالیہ پسند شخصیت کے مالک تھے۔ وہ ایک ادیب اور ایک فنکار کی حیثیت سے ہمیشہ ایک اعلیٰ اور ارفع ادب پارے اور فنی شاہکار کی تلاش اور طلب میں رہتے تھے۔ انھوں نے ہمیشہ یہی خواہش رکھی کہ عوام ان کی سطح تک پہنچیں۔ اردو زبان و ادب کی تاریخ اور تہذیب کے شاہکار عطا کرنے والے اس فن کار نے 11 فروری 1993 کو حرکت قلب بند ہو جانے سے اِس جہاں فانی کو الوداع کہا اور اس طرح ہندوستانی سینما کا ایک دَور ختم ہو گیا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


/* */