رشی کیش مکھرجی: بالی وڈ کے ’اسٹار میکر‘ جنہوں نے کہانی، مزاح اور جذبے سے فلموں کو نئی پہچان دی

رشی کیش مکھرجی نے تین دہائیوں میں 43 فلموں کی ہدایت کاری کی۔ ’آنند‘، ’گڈی‘، ’چپکے چپکے‘ اور ’گول مال‘ جیسی سپرہٹ فلموں کے ذریعے دھرمیندر، راجیش کھنہ اور امیتابھ جیسے ستاروں کے کیریئر بنائے

<div class="paragraphs"><p>رشی کیش مکھرجی / تصویر بشکریہ ایکس</p></div>
i
user

قومی آواز بیورو

رشی کیش مکھرجی کا شمار ہندوستانی فلمی صنعت کے ان فلم سازوں اور ہدایت کاروں میں ہوتا ہے جنہوں نے معیار اور دل کو چھو لینے والی کہانیوں کے ذریعے بالی وڈ کو نئی جہت دی۔ دھرمیندر، راجیش کھنہ، امیتابھ بچن، امول پالیکر اور جیہ بھادوڑی جیسے کئی ستاروں کے کیریئر میں ان کا کردار اہم رہا۔

رشی کیش کی پیدائش 30 ستمبر 1922 کو کلکتہ میں ہوئی۔ کلکتہ یونیورسٹی سے گریجویشن مکمل کرنے کے بعد انہوں نے کچھ عرصہ ریاضی اور سائنس کے استاد کے طور پر کام کیا۔ 1940 کی دہائی میں انہوں نے نیو تھیئٹرز میں بطور کیمرہ مین فلمی سفر شروع کیا۔ یہاں ان کی ملاقات مشہور فلم ایڈیٹر سبودھ مترا سے ہوئی جن سے انہوں نے فلم ایڈیٹنگ کی باریکیاں سیکھیں۔ بعد ازاں وہ معروف فلمساز بمل رائے کے اسسٹنٹ بنے اور ’دو بیگھہ زمین‘ اور ’دیوداس‘ جیسی کلاسک فلموں کی ایڈیٹنگ کی۔

1957 میں رشی کیش نے دلیپ کمار، سچترا سین اور کشور کمار کے ساتھ فلم ’مسافر‘ ڈائریکٹ کی، جو باکس آفس پر ناکام رہی۔ تاہم 1959 میں ریلیز ہونے والی راج کپور کی فلم ’اناڑی‘ نے انہیں شہرت کی بلندی پر پہنچا دیا۔ یہ فلم سپرہٹ ثابت ہوئی اور ان کی شناخت مضبوط ہوئی۔

1960 میں ان کی فلم ’انورادھا‘ ریلیز ہوئی جسے نیشنل ایوارڈ اور برلن فلم فیسٹیول میں بھی سراہا گیا۔ اگرچہ فلم تجارتی لحاظ سے کامیاب نہ ہوئی، مگر اس نے ان کے آرٹسٹک وژن کو نمایاں کیا۔


رشی کیش مکھرجی اپنی فلموں میں مزاح، جذبات اور سماجی پیغام کو ایک ساتھ جوڑنے کا ہنر رکھتے تھے۔ 1966 کی فلم ’آشیرواد‘ ان کے کیریئر کا سنگ میل ثابت ہوئی جس میں ذات پات اور جاگیرداری کے مسائل کو اجاگر کیا گیا۔ اشوک کمار پر فلمایا گیا گیت ’ریل گاڑی‘ آج بھی یاد کیا جاتا ہے۔

1969 کی فلم ’ستیہ کام‘ ان کے بہترین کاموں میں سے مانی جاتی ہے۔ آزادی کے بعد کے ہندوستان پر مبنی یہ فلم تجارتی طور پر کامیاب نہ سہی مگر فلمی ناقدین نے اسے ان کی شاہکار تخلیق قرار دیا۔

1971 میں جیہ بھادوڑی نے فلم ’گڈی‘ کے ذریعے بڑا بریک حاصل کیا۔ ایک فلمی دنیا کی دیوانی لڑکی کے کردار نے ناظرین کو مسحور کردیا۔ اس کے بعد رشی کیش نے جیہ کے ساتھ ’باورچی‘، ’ابھیمان‘، ’چپکے چپکے‘ اور ’ملی‘ جیسی فلمیں بنائیں۔ جیہ کو وہ بیٹی کی طرح مانتے تھے۔

1970 میں ریلیز ہونے والی ’آنند‘ ان کی سب سے مقبول فلموں میں شامل ہے۔ راجیش کھنہ کے ادا کردہ آنند کے مکالمے اور امیتابھ بچن کا کردار فلم کو لازوال بناتا ہے۔ آنند کا ڈائیلاگ ’بابو موشائے، ہم سب رنگ منچ کی کٹھ پتلیاں ہیں…‘ آج بھی ناظرین کے دلوں کو چھوتا ہے۔


1973 میں ’ابھیمان‘ اور 1975 میں ’چپکے چپکے‘ نے ان کی کامیابی کو نئی بلندی دی۔ اس زمانے میں ایکشن فلمیں رائج تھیں لیکن رشی کیش نے امیتابھ اور دھرمیندر کے ساتھ ہلکی پھلکی مزاحیہ فلم بناکر سب کو حیران کیا۔ 1979 میں ان کی فلم ’گول مال‘ ریلیز ہوئی، جو آج بھی بہترین کامیڈی فلموں میں شمار کی جاتی ہے۔

1988 میں فلم ’ناممکن‘ کی ناکامی کے بعد انہوں نے تقریباً ایک دہائی فلموں سے دوری اختیار کرلی۔ 1998 میں انل کپور کے ساتھ ’جھوٹ بولے کوا کاٹے‘ بنائی، مگر یہ بھی کامیاب نہ ہو سکی۔

رشی کیش کو سات فلم فیئر ایوارڈز ملے۔ ’انورادھا‘ کے لیے نیشنل ایوارڈ، دادا صاحب پھالکے ایوارڈ اور پدم ویبھوشن بھی ان کے حصے میں آئے۔ انہوں نے کم مگر معیاری فلمیں بنائیں۔ تین دہائیوں کے کیریئر میں 13 فلمیں پروڈیوس اور 43 کی ہدایت کاری کی۔ کہانی اور اسکرین پلے بھی انہوں نے خود لکھے۔

27 اگست 2006 کو رشی کیش مکھرجی نے اس دنیا سے رخصت لی مگر ان کی فلمیں آج بھی ناظرین کو ہنساتی، رُلاتی اور سوچنے پر مجبور کرتی ہیں۔ وہ فلمی صنعت کے ایسے عظیم تخلیق کار تھے جنہوں نے کم بجٹ اور سادہ کہانیوں سے بالی وڈ میں امر نشان چھوڑا۔

(مآخذ: یو این آئی)

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔