ہولی کو رنگوں سے زیادہ دلوں میں جگہ کی ضرورت ہے.... اقبال رضوی

یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اب ہولی کا تہوار سماج میں اپنی رونق اور رنگینیاں کھوتا جا رہا ہے، کیونکہ ہولی کو رنگوں سے زیادہ دلوں میں جگہ کی ضرورت ہوتی ہے۔

ہولی کے رنگوں میں شرابور لڑکیاں / یو این آئی
ہولی کے رنگوں میں شرابور لڑکیاں / یو این آئی
user

اقبال رضوی

ہولی کے تہوار کا خمار جیسے ہی چڑھتا ہے ہندوستان کی فضاؤں میں ایک گانا گونجنے لگتا ہے "ہولی آئی رے کنہائی رنگ چھلکے - سنا دے ذرا بانسری"۔ یہ گانا ہندی سنیما کی کلاسک فلم ’مدر انڈیا‘ کا ہے جو 1957 میں ریلیز ہوئی تھی۔ تب ہندوستان ایک ایسا ملک ہوا کرتا تھا جہاں ہندو-مسلم ثقافتوں کے امتزاج سے معاشرہ پروان چڑھتا تھا۔ تب مسخ شدہ تاریخ کی کلاسیں وہاٹس ایپ یونیورسٹی پر نہیں چلتی تھیں۔

یہی وجہ ہے کہ ہولی کا سب سے مقبول فلمی گانا ایسی ٹیم نے ترتیب دیا تھا جس کا اب تصور کرنا بھی مشکل ہے۔ ’مدر انڈیا‘ کے ہدایت کار تھے محبوب، موسیقار نوشاد، گیت لکھنے والے تھے شکیل بدایونی اور یہ گانا شمشاد بیگم نے گایا تھا، جبکہ فلم کی اداکارہ تھیں نرگس۔ تمام فنکاروں نے مل کر ایک ایسا گانا تیار کیا کہ 65 سال کے سفر میں کئی نسلوں نے اس گانے سے ہولی تہوار کو رنگین بنایا۔


بولتے ہوئے سنیما یعنی آواز والی فلموں کے تقریباً 91 سال کے عرصے میں سینما کی اسکرین اور ہولی کے گانوں کے درمیان بہت مضبوط، طویل اور رنگین رشتہ رہا ہے۔ ہندوستان میں 1931 میں فلموں کا بولنا شروع ہوا اور ہولی کا پہلا گانا 1932 میں فلم 'گلرو زرینہ' میں شامل کیا گیا۔ گانے کے بول تھے 'ہوری مجھے کھیلن کو ٹیسو مانگا دے' جسے میوزک کمپوزر برج لال ورما نے ترتیب دیا تھا۔ اس کے بعد آہستہ آہستہ ہولی کے گانے اسکرین پر اپنی جگہ بنانے لگے۔

1938 میں اے آر کاردار فلم باغبان بنا رہے تھے۔ فلم میں اداکار نذیر کے ساتھ ستارہ دیوی کا بھی اہم کردار تھا۔ کاردار ستارہ دیوی کے رقص کو اسکرین پر استعمال کرنا چاہتے تھے۔ بچپن سے ہی بنارس کی ہولی میں ہنگامہ برپا کرنے والی ستارہ دیوی نے کاردار کو فلم میں ہولی کا گانا شامل کرنے کا مشورہ دیا۔ کاردار نے ان کے مشورہ پر عمل کیا۔ میوزک کمپوزر مشتاق حسین نے گانا "ہوری کھیلو، ہوری کھیلو رے شیام" ترتیب دیا جسے ستارہ نے وملا کماری کے ساتھ گایا اور اداکاری کی۔


اس وقت فلمیں بلیک اینڈ وائٹ میں بنتی تھیں۔ اسی معاملے پر فلم ’جیون پربھات‘(1937) میں ہدایت کار فرینز آسٹن اور اداکار کشور ساہو کے درمیان ہولی کے گانے پر طویل بحث ہوئی تھی۔ فلم میں ’ہولی آئی رے کانہا‘ کا گانا شامل ہونا تھا، لیکن ہدایت کار فرینز کا کہنا تھا کہ بلیک اینڈ وائٹ فلم آن اسکرین پر ہولی کے رنگ نہیں دکھا سکتی جب کہ کشور ساہو کا کہنا تھا کہ فلم میں یہ گانا استعمال کیا جانا چاہئے۔ ان کی دلیل تھی کہ ناظرین ہولی کا مزہ محسوس کریں گے اور بلآخر ہدایت کار فرینز نے کشور ساہو کی بات مانی۔

1940 کی دہائی تک ہولی کے تہوار کو فلموں میں کسی بھی ہندوستانی تہوار سے زیادہ اہمیت ملنا شروع ہو گئی۔ ہولی کے حوالے سے ہر سال تین چار گانے فلموں میں آنے لگے۔ فلم کٹی پتنگ (1971) کا گانا آج نہ چھوڑیں گے بس ہم چولی، کھیلیں گے ہم ہولی، فلم زخمی (1975) سے ’آلی رے، آلی رے آلی رے ہولی، آئی مستانوں کی ٹولی، 1982 کی فلم راجپوت کا ہولی کا گانا ’بھاگی رے، بھاگی رے، برجبالا کانہا نے پکڑا رنگ ڈالا‘ ہولی کے گانوں کا ایک طویل سلسلہ ہے جس نے ہولی کے تہوار کو مزید رنگین بنایا۔


فلم سازوں نے نہ صرف اسکرین پر ہولی دکھانے کے لیے ہولی کے گانے بنائے بلکہ فلم کی کہانی کو آگے بڑھانے کے لیے ہولی کے گانوں کا بھی استعمال کیا۔ سپر ہٹ فلم 'شعلے' میں ہدایت کار رمیش سپی نے اسکرپٹ کو اس طرح بنایا کہ ہولی کے دن ڈاکو گبر سنگھ جس وقت رام گڑھ پر حملہ کرتا ہے اس وقت رمیش سپی وہاں پر حملے سے پہلے ہولی کا جشن، چھیڑ چھاڑ اور گانوں کے ذریعے ہولی کا خمار دکھاتے ہیں اور یہ گانا ہولی کے یادگار گانوں میں سے ایک بن گیا۔

فلم سلسلہ (1976) میں دو شادی شدہ محبت کرنے والوں کے درمیان تعلقات کو فلمی پردہ پر دکھایا جانا تھا۔ فلم کی کہانی کے مطابق دو محبت کرنے والوں کے جذبات دکھانے کے لئے ہولی کو علامت کے طور پر استعمال کیا گیا۔ اس موقع پر ہولی کا بہترین گانا پیش کیا گیا "رنگ برسے بھیگے چُنر والی رنگ برسے"۔


امیتابھ بچن کی اپنی ہی فلم ’باغبان‘ میں ہولی کا ایک ایسا گانا گایا گیا جو ہر ہولی کے تہوار کا مستقل حصہ بن گیا۔ یہ گانا ہے "ہولی کھیلیں رگھوبیرا، اودھ میں ہولی کھیلیں رگھوبیرا"۔ لیکن نوے کی دہائی سے فلمی پردے پر ہولی کے رنگ کم ہونے لگے اور کئی سالوں سے فلموں نے ہولی کا کوئی یادگار گانا نہیں دیا۔ پچھلی دو دہائیوں میں صرف یہ جوانی ہے دیوانی کا گانا ’’بالم پچکاری جو تو نے مجھے ماری‘‘ اور فلم’ بدری کی دلہنیا کا گانا‘کھیلن کیوں نہ جائے تو ہوری رے رسیا" ہی مقبولیت کی بلندیوں پر پہنچ سکے۔

یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اب ہولی کا تہوار سماج میں اپنی رونق اور رنگینیاں کھوتا جا رہا ہے، کیونکہ ہولی کو رنگوں سے زیادہ دلوں میں جگہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ لوگ اپنے آپ میں سمٹتے جا رہے ہیں، اسی لیے ہولی کے مزے بھی سمٹ رہے ہیں، جس کی گواہی فلمی پردے بھی دے رہے ہیں۔ ایسے ماحول میں محبوب، نوشاد، شکیل اور شمشاد بیگم کی چوکڑی بھی ہوتی تو کیا فرق پڑ جاتا۔ مجھے وہ پرانا والا ہندوستان لوٹا دے جب دلوں میں وسعت تھی اور سماج فرقہ پرستی کی بنیادوں پر تقسیم نہیں تھا۔ پوری فضا ہولی کے رنگوں سے رنگین ہو جاتی تھی۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


/* */