ہم صرف فلسطینی ریاست کے قیام کی صورت میں ہی ہتھیار ڈالیں گے: حماس
اسرائیلی وزیر خارجہ جدعون ساعر نے کہا کہ غزہ میں جنگ اُس وقت ختم ہو سکتی ہے جب حماس مغویوں کو رہا کرے اور ہتھیار ڈال دے۔

فلسطینی تنظیم حماس نے اعلان کیا ہے کہ وہ صرف فلسطینی ریاست کے قیام کی صورت میں ہی ہتھیار ڈالے گی، جبکہ غزہ کی پٹی میں جنگ بندی کے مذاکرات اب بھی تعطل کا شکار ہیں۔تنظیم نے اتوار کے روز ایک بیان میں کہا کہ وہ اسرائیل کے ساتھ طویل مدتی جنگ بندی پر تیار ہے۔ بیان میں مزید کہا گیا "ہمارا موقف واضح ہے اور ہم تمام اسرائیلی قیدیوں کو خواہ وہ زندہ ہوں یا مردہ، رہا کرنے کے لیے تیار ہیں۔"
یہ اعلان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب مشرق وسطیٰ کے لیے امریکی ایلچی اسٹیو ویٹکوف نے حماس کو غزہ سے متعلق ایک جامع معاہدے کے پیغامات پہنچائے۔ ویب سائٹ کے مطابق ویٹکوف کے پیغامات میں یہ تجویز شامل ہے کہ تمام مغویوں کی رہائی کے بدلے غزہ کی جنگ ختم کی جائے۔
یہ بھی پڑھیں : افغانستان: تباہ کن زلزلوں کی وجوہات و اثرات
اسرائیلی نشریاتی ادارے نے بھی بتایا ہے کہ امریکہ نے حماس تک ایک جامع سمجھوتے کے بنیادی نکات پہنچائے ہیں، جن کا مقصد جنگ کا خاتمہ اور تمام مغویوں کی رہائی ہے۔ ذرائع کے مطابق یہ کوئی حتمی یا با ضابطہ مسودہ نہیں بلکہ عمومی نکات ہیں تاکہ مذاکرات جاری رہیں۔
اسرائیلی وزیر خارجہ جدعون ساعر نے کہا کہ غزہ میں جنگ اُس وقت ختم ہو سکتی ہے جب حماس مغویوں کو رہا کرے اور ہتھیار ڈال دے۔انھوں نے یہ بات بیت المقدس میں ڈنمارک کے وزیر خارجہ کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس میں کہی۔ یہ بیان ایسے وقت سامنے آیا ہے جب ایک دن پہلے حماس نے یہ موقف اختیار کیا تھا کہ اگر اسرائیل جنگ ختم کر کے اپنی فوج واپس بلائے تو وہ تمام مغویوں کو رہا کرنے کے لیے تیار ہے۔
حماس نے ہفتے کی شب یہ بھی کہا تھا کہ اس نے ایسی کسی بھی تجویز کے لیے دروازہ کھلا رکھا ہے جس سے غزہ میں مستقل جنگ بندی ممکن ہو سکے۔نئی تجویز کے مطابق 60 دن کے لیے فائربندی کی جائے گی۔ فریقین کے مطابق یہ مسودہ اس تجویز سے زیادہ مختلف نہیں جو امریکی ایلچی ویٹکوف نے چند ماہ پہلے دی تھی اور جسے ثالثوں نے کئی بار ترمیم کر کے دونوں فریقوں کے سامنے رکھا۔تاہم قطری ثالث نے تصدیق کی کہ وزیر اعظم بنجامن نیتن یاہو نے قیدیوں کے تبادلے اور جنگ بندی سے متعلق تازہ ترین تجویز قبول کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ (انپٹ بشکریہ العربیہ ڈاٹ نیٹ، اردو)
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔