افغانستان: تباہ کن زلزلوں کی وجوہات و اثرات

مشرقی افغانستان میں آنے والے زلزلے میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد 2200 سے زائد ہو گئی ہے، جس کا زیادہ اثر کنر صوبے پر پڑا۔ امدادی کارروائیاں جاری ہیں اور ہلاکتوں میں مزید اضافے کا خدشہ ہے

<div class="paragraphs"><p>افغانستان میں زلزلے سے تباہی / تصویر آئی اے این ایس</p></div>
i
user

مدیحہ فصیح

اتوار 31 اگست 2025 کی رات 11:47 بجے افغانستان کے مشرقی صوبوں ننگرہار اور کنر میں زلزلہ آیا۔ یہ زلزلہ 8 کلومیٹر گہرائی میں تھا۔ کم گہرائی والے یا سطحی زلزلے زیادہ نقصان پہنچانے والے ہوتے ہیں کیونکہ ان کا مرکز اور ارتعاشی لہریں زمین کی سطح کے قریب ہوتی ہیں۔ گہرے زلزلوں کی ارتعاشی لہریں زمین کی سطح تک پہنچنے کے لیے زیادہ فاصلہ طے کرتی ہیں، جس کی وجہ سے ان کی توانائی کم ہو جاتی ہے۔ پہلے زلزلے کے بیس منٹ بعد، ننگرہار کے ضلع باساول کے شمال میں 4.5 شدت کا ایک اور زلزلہ آیا۔ اس کے بعد سے صوبائی دارالحکومت جلال آباد اور باساول کے قریب متعدد جھٹکے آئے، جن کی شدت 4.3 سے 5.2 کے درمیان رہی۔

طالبان حکام کے مطابق، پاکستان کی سرحد کے قریب پہاڑی علاقے میں آنے والے اس زلزلہ کی شدت 6.0 تھی، اور اس کا سب سے زیادہ اثر کنر صوبے پر پڑا، جہاں 4 ستمبر تک 2200 سے زائد افراد ہلاک اور 3640 زخمی ہوئے ہیں۔ہلاکتوں کی تعداد میں مزید اضافے کی توقع ہے کیونکہ رضاکار اور امدادی کارکن اب بھی ملبے سے لاشیں نکالنے میں مصروف ہیں۔ہزاروں مکانات اور عمارات منہدم ہو گئیں اور سڑکوں پر ملبہ بکھر گیا ہے۔ یہ زلزلہ افغان عوام کے لئے ایک اور دردناک یادگار بن کر آیا، جو پہلے بھی قدرتی آفات کا شکار رہ چکے ہیں۔ زلزلے میں ہزاروں افراد کی ہلاکت کے علاوہ، بے شمار افراد اپنے گھروں سے بے گھر ہو گئے ہیں اور امداد کے منتظر ہیں۔

افغانستان میں زلزلوں کی تاریخ

افغانستان میں زلزلے ہمیشہ سے ایک سنگین مسئلہ رہے ہیں۔ 2002 میں ایک شدید زلزلہ آیا تھا جس نے کابل، ننگرہار، اور خوست میں تباہی مچائی۔ اس کے علاوہ 2015 میں بھی ایک اور طاقتور زلزلہ آیا تھا جس کی شدت 7.5 تھی، اور اس سے پاکستان، افغانستان اور ہندوستان میں وسیع پیمانے پر تباہی ہوئی تھی۔ 2017 میں بھی زلزلہ آیا تھا جس کے نتیجے میں ہزاروں لوگ ہلاک ہوئے۔ یہ زلزلے افغانستان کے جغرافیائی مقام کی وجہ سے آئے ہیں، کیونکہ یہ ملک دو بڑی تکتونک پلیٹوں کے درمیان واقع ہے۔

افغانستان میں زلزلوں کی وجوہات

افغانستان میں زلزلوں کی بنیادی وجہ اس کا جغرافیائی مقام ہے۔ یہ ملک "ہند و یوریشین" تکتونک پلیٹ کے سنگم پر واقع ہے، جہاں مختلف تکتونک پلیٹیں آپس میں ٹکراتی ہیں۔ ان پلیٹوں کے ٹکرانے کی وجہ سے زلزلے آتے ہیں۔ اس علاقے میں کئی اہم فالٹ لائنز موجود ہیں جن میں سب سے اہم "ھندوکش فالٹ" ہے، جو کہ افغانستان کی زیادہ تر زمین کو متاثر کرتی ہے۔ یہ فالٹ لائنز زمین کے اندر حرکت کرتی ہیں اور ان کی وجہ سے زیر زمین تناؤ پیدا ہوتا ہے، جو بعد ازاں زلزلے کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔


زلزلے کی شدت اور اموات کی شرح

افغانستان میں زلزلوں کے نتیجے میں اموات کی شرح زیادہ ہونے کی ایک بڑی وجہ ملک کی تعمیراتی معیار کی کمزوری ہے۔ افغانستان میں بیشتر عمارات اور مکانات روایتی طور پر غیر محفوظ ہیں، جنہیں قدرتی آفات کا سامنا کرنے کے لئے مضبوط نہیں بنایا گیا۔ اکثر دیہات میں لوگوں کے گھروں کی چھتیں ٹوٹ کر گر جاتی ہیں، جس سے ہلاکتوں کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔دوسرا سبب افغانستان کی غیر مستحکم معاشی حالت ہے، جس کی وجہ سے ملک میں امدادی کاموں میں بھی مشکلات پیش آتی ہیں۔ انفراسٹرکچر کی کمی، صحت کی سہولتوں کی قلت اور حکومتی عدم استحکام کی وجہ سے زلزلے کے بعد فوری طور پر مدد فراہم کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ ان وجوہات کی بنا پر، زلزلے کے اثرات زیادہ شدید اور دیرپا ہو جاتے ہیں۔

عالمی امدادی کارروائیاں

ہالیہ زلزلے کے بعد طالبان حکام نے امدادی کارروائیاں شروع کیں، تاہم ان کی استعداد کمزور ہے۔ طالبان نے فوری طور پر فوجی اور شہری اداروں کو متحرک کیا تاکہ متاثرہ علاقوں میں امداد پہنچائی جا سکے۔ اس کے علاوہ، حکومت نے داخلی طور پر غذائی اجناس، میڈیکل کٹس اور دیگر ضروری اشیاء فراہم کرنے کی کوشش کی۔ عالمی سطح پر، اقوام متحدہ اور دیگر عالمی ادارے فوراً امدادی کارروائیوں میں شریک ہوئے۔ یو این ایمرجنسی ایجنسی نے فوری طور پر امدادی ٹیمیں بھیجیں، جنہوں نے ملبے کے نیچے دبے افراد کو نکالنے کی کوشش کی۔ ہندوستان نے بھی انسانی امداد فراہم کی اور زخمیوں کے علاج کے لئے میڈیکل ٹیمیں افغانستان بھیجیں۔ پاکستان نے سرحد کے دونوں طرف زخمیوں کو علاج فراہم کرنے کے لئے اپنے ہسپتالوں کو فعال کیا۔

بڑی تباہی سے بچنے کے لیے ضروری اقدام

افغانستان میں قدرتی آفات کا سامنا معمول بن چکا ہے، اور ماہرین کا کہنا ہے کہ مستقبل میں بھی اس نوعیت کے واقعات رونما ہو سکتے ہیں۔ تاہم، اس مسئلے کے حل کے لئے بڑے پیمانے پر بین الاقوامی تعاون اور وسائل کی ضرورت ہے۔ اگرچہ زلزلوں کو مکمل طور پر روکا نہیں جا سکتا، لیکن اگر مضبوط عمارات اور بہتر انفراسٹرکچر کی تعمیر کی جائے تو اموات اور تباہی کی شدت کو کم کیا جا سکتا ہے۔

افغانستان میں زلزلے کی شدت اور اس کے اثرات، ایک طرف جہاں قدرتی وجوہات کی بنا پر ہوتے ہیں، وہیں دوسری طرف اس کی جغرافیائی اور تعمیراتی کمزوریوں کے باعث یہ مزید سنگین بن جاتے ہیں۔ حکومت اور عالمی ادارے اس مسئلے سے نمٹنے کے لئے امدادی کاموں میں مصروف ہیں، لیکن افغانستان کی مجموعی حالت دیکھتے ہوئے یہ کہنا کہ فوری طور پر اس مسئلے کا کوئی مستقل حل نکل سکے گا، مشکل ہے۔ اس کے باوجود، عالمی برادری کی مدد اور افغانستان میں مزید بہتر ڈھانچے کی تعمیر کا عمل ضروری ہے تاکہ مستقبل میں زلزلوں کی تباہ کاریوں کو کم کیا جا سکے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔