حماس یرغمالیوں کی رہائی کے لئے رضامند، جنگ بندی معاہدہ طے پا گیا، غزہ میں جشن
معاہدے کے تحت اسرائیل اور حماس دونوں جنگ بندی کے نافذ العمل ہوتے ہی اپنی عسکری سرگرمیاں بند کر دیں گے۔ اسرائیل غزہ سے اپنی افواج کو جزوی طور پر نکال لے گا اور حماس بھی یرغمالیوں کو رہا کر دے گی۔

غزہ میں دو سال سے جاری خونریز جنگ کے خاتمے کے لیے بالآخر امید پیدا ہو گئی ہے۔ اسرائیل اور حماس کے درمیان جمعرات کو ایک تاریخی معاہدہ طے پا گیا، جس کی ثالثی امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے کی تھی۔ اس معاہدے کے تحت دونوں فریقوں نے جنگ بندی پر اتفاق کر لیا ہے۔ حماس نے تمام زندہ بچ جانے والے اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کرنے اور ہلاک ہونے والوں کی لاشیں واپس کرنے کا وعدہ کیا ہے، جب کہ اسرائیل غزہ سے اپنی افواج کو ایک متعین سرحد پر واپس بلا نے کےلئے رضامند ہو گیا ہے۔
یہ معاہدہ مصر کے سیاحتی مقام شرم الشیخ میں ہونے والی بالواسطہ بات چیت کے بعد ہوا۔ ٹرمپ انتظامیہ کے 20 نکاتی امن منصوبے کا یہ پہلا مرحلہ ہے، جو دو سال سے جاری خوفناک جنگ کو ختم کرنے اور خطے میں دیرپا امن لانا چاہتا ہے۔
معاہدے کے تحت اسرائیل اور حماس دونوں جنگ بندی کے نافذ العمل ہوتے ہی فوجی سرگرمیاں بند کر دیں گے۔ اسرائیل غزہ سے اپنی افواج کو جزوی طور پر نکال لے گا، جبکہ حماس 2023 کے حملے کے دوران پکڑے گئے تمام 20 زندہ بچ جانے والے اسرائیلی یرغمالیوں کو 72 گھنٹوں کے اندر رہا کر دے گی۔ اس کے علاوہ 28 اسرائیلی لاشیں بھی واپس کی جائیں گی۔
اس کے ساتھ ہی اسرائیل سینکڑوں فلسطینی قیدیوں کو رہا کرے گا۔ تاہم ان قیدیوں کی حتمی فہرست ابھی تک طے نہیں ہو سکی ہے۔ ذرائع کے مطابق حماس نے طویل عرصے سے قید سیاسی قیدیوں سمیت کئی سرکردہ فلسطینی رہنماؤں کی رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔ اس معاہدے کے بعد خوراک، ادویات اور انسانی امداد کے سینکڑوں ٹرک غزہ میں داخل ہوں گے۔ لاکھوں لوگ جنگ زدہ علاقوں میں خیموں میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔ وہ اب فوری ریلیف کی امید کر رہے ہیں۔
خبر رساں ادارے کے مطابق اس معاہدے کے اعلان سے غزہ اور اسرائیل دونوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ جنوبی غزہ کے خان یونس کے رہائشی عبدالمجید عبد ربو نے کہا، "خدا کا شکر ہے کہ خونریزی ختم ہو گئی ہے۔ صرف میں ہی نہیں، پورا غزہ خوش ہے، عرب دنیا خوش ہے، پوری دنیا خوش ہے۔" دوسری جانب یرغمالیوں کے اہل خانہ تل ابیب کے یرغمالی چوک میں جمع ہوئے اور ایک دوسرے سے گلے مل کر جشن منایا۔
تاہم اس معاہدے کے باوجود بہت سی رکاوٹیں باقی ہیں۔ سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ حماس کے مستقبل اور غزہ کی حکمرانی پر ابھی تک کوئی معاہدہ نہیں ہو سکا ہے۔ ٹرمپ کے امن منصوبے میں یہ طے کرنا بھی شامل ہے کہ جنگ کے بعد غزہ کا انتظام کون کرے گا۔
جمعرات کو اسرائیلی سکیورٹی کابینہ کا اجلاس ہوا اور اس معاہدے کی منظوری دی، جس کے بعد اسے مکمل حکومتی منظوری کے لیے پیش کیا گیا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق جنگ بندی پر 24 گھنٹے کے اندر عملدرآمد کر دیا جائے گا۔ (بشکریہ نیوز پورٹل ’آج تک‘)
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔