ندائے حق: سعودی عرب مفاہمت کی نئی راہوں پر... اسد مرزا

’’ایسا لگتا ہے کہ سعودی عرب اپنے پرانے دشمنوں سے دشمنی ترک کرنے کے لیے تیار ہے اور ایران اور اسرائیل دونوں کے ساتھ تعلقات میں بہتری لانے کا خواہش مند بھی ہے!‘‘

سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ سلمان مصر کے صدر کا استقبال کرتے ہوئے / Getty Images
سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ سلمان مصر کے صدر کا استقبال کرتے ہوئے / Getty Images
user

اسد مرزا

ایران اور اسرائیل کے تئیں سعودی نقطہ نظر میں تبدیلی کے اشارے گزشتہ ہفتے سامنے آئے۔ سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان (MbS) کی طرف سے سعودی سرکاری خبر رساں ایجنسی SPA کو دیئے گئے ایک انٹرویو میں اور کئی بین الاقوامی میگزینوں کے حوالے سے بتایا جاتا ہے کہ انھوں نے ایران اور اسرائیل کے ساتھ تعلقات بہتر کرنے کی خواہش کا اظہار کیا، جو اس کے پرانے دشمن ہیں۔

سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے کہا کہ اگر فلسطینیوں کے ساتھ تنازعہ حل ہو جاتا ہے تو اسرائیل ’ممکنہ اتحادی‘ بن سکتا ہے۔ ایران کے بارے میں محمد بن سلمان نے کہا ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران اور سعودی عرب ''ہمسایہ ممالک ہیں۔ ہمیشہ کے لیے پڑوسی۔ ہم ان سے چھٹکارا نہیں پا سکتے، اور وہ ہم سے چھٹکارا نہیں پا سکتے۔ لہذا ہم دونوں کے لیے بہتر ہے کہ ہم اس پر کام کریں اور ایسے طریقے تلاش کریں جن میں ہم ایک ساتھ رہ سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ امید ہے کہ ہم ایک ایسی پوزیشن پر پہنچ سکتے ہیں جو دونوں ممالک کے لیے اچھا ہو، یعنی اس ملک اور ایران کے لیے ایک روشن مستقبل قائم کرنے والا ہو۔


سعودی اسرائیل تعلقات

اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی بحالی پر انہوں نے کہا کہ سعودی عرب اسے ایک ممکنہ اتحادی کے طور پر دیکھتا ہے لیکن اس سے پہلے اسے فلسطینیوں کے ساتھ اپنے مسائل حل کرنے چاہئیں۔ تاریخی طور پر یروشلم اور ریاض سرکاری سفارتی تعلقات برقرار نہیں رکھتے، لیکن بہت سے علاقائی مفادات کا اشتراک کرتے ہیں، خاص طور پر اپنے باہمی دشمن ایران کے حوالے سے۔ حالیہ دنوں میں سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان پردے کے پیچھے وسیع سفارتی اور انٹیلی جنس تعاون کی اطلاعات بھی آئی ہیں اور اسرائیل نے سعودی عرب کو تاریخی ابراہیم معاہدے میں شامل کرنے کی اپنی خواہش کو بھی کوئی راز نہیں رکھا ہے۔ سعودی مؤقف ہمیشہ سے یہ رہا ہے کہ ایسا اقدام اسرائیل-فلسطین تنازعہ کے خاتمے کے بعد ہی کیا جا سکتا ہے۔

سعودی عرب نے بارہا اسرائیل کے ساتھ امن کے لیے عرب پیرامیٹرز کے لیے اپنی وابستگی کا اعادہ کیا ہے جس کا اظہار 2002 کے سعودی مجوزہ عرب اقدام میں کیا گیا ہے، جس میں 1967 میں زیر قبضہ علاقوں سے انخلاء کے بدلے تل ابیب کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ اسرائیل نے 1967 کی عرب اسرائیل جنگ کے دوران مشرقی یروشلم پر قبضہ کر لیا تھا اور 1980 میں پورے شہر کو ایک ایسے اقدام کے تحت ضم کر لیا تھا جسے عالمی برادری نے کبھی تسلیم نہیں کیا تھا۔


حالیہ بیانات سعودی موقف اور فلسطین میں اسرائیل کی مختلف سرگرمیوں پر اس کے پرانے موقف کے برعکس ہیں۔ گزشتہ سال نومبر میں، سعودیہ نے یہودیوں کے تہوار ہنوکا کو منانے کے لیے مغربی کنارے کے شہر ہیبرون میں واقع ابراہیمی مسجد کے دورے پر اسرائیلی صدر اسحاق ہرزوگ کی مذمت کی تھی۔ سعودی وزارت خارجہ نے اس اقدام کو’’مسجد کے تقدس کی صریح خلاف ورزی، پوری دنیا کے مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کرنے والا‘‘ قرار دیتے ہوئے مزید کہا تھا کہ اس اقدام کے نتائج اسرائیلی حکومت کو بھگتنا ہوں گے۔ شہزادہ محمد نے تب اس اقدام کو’’ایک غیر ضروری اور غلط اشارہ‘‘ قرار دیا تھا۔

تاہم، اب 36 سالہ محمد بن سلمان نے اسرائیل کو ایک ’’ممکنہ اتحادی‘‘ کے طور پر تسلیم کیا ہے اور کہا ہے کہ دونوں ملک بہت سے مفادات مل کر حاصل کرسکتے ہیں... لیکن ہمیں اس تک پہنچنے سے پہلے کچھ مسائل کو حل کرنا بھی لازمی ہوگا۔'' گزشتہ سال ریاض سے شائع ہونے والے روزنامہ ’’عرب نیوز‘‘ کو انٹرویو دیتے ہوئے اقوام متحدہ میں سعودی عرب کے مستقل نمائندے عبداللہ المعلمی نے کہا تھا کہ ریاض خطے میں امن قائم کرنے کے لیے پرعزم ہے، تاہم اس سے وابستہ اس کی کچھ شرائط ہیں، جن میں اسرائیل کے تمام قبضے کے خاتمے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ ساتھ ہی مشرقی یروشلم کو ایک آزاد فلسطینی ریاست کے دارالحکومت کے طور پر قائم کرنا بھی ان مطالبات میں شامل تھا۔


المعلمی نے کہا کہ ’’سرکاری اور تازہ ترین سعودی موقف یہ ہے کہ ہم اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے کوشاں ہیں اور جیسے ہی اسرائیل 2002 میں پیش کیے گئے سعودی امن اقدامات کے عناصر کو نافذ کرے گا ہم اس سے اگلا قدم اٹھائیں گے۔‘‘ اسرائیلی میڈیا نے خبر دی تھی کہ تقریباً 20 امریکی یہودی رہنماؤں کے ایک وفد نے سعودی عرب کا دورہ کیا تھا اور ریاض کے درمیان تعلقات کے قیام کے امکانات کا جائزہ لینے کی کوشش میں کم از کم چھ حکومتی وزراء اور سعودی شاہی گھرانے کے سینئر نمائندوں سمیت اعلیٰ حکام سے ملاقاتیں کی تھیں۔

حالیہ عرصے میں یہ اطلاعات بھی سامنے آئی ہیں کہ اب آپ سعودیہ سے اسرائیل باآسانی سفر کر سکتے ہیں، امیگریشن حکام آپ کے پاسپورٹ پر اسرائیلی ویزا کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ اس سے قبل کئی ایسے واقعات سامنے آئے تھے کہ آپ کا سعودی ویزا مسترد کر دیا گیا کیونکہ آپ کے پاسپورٹ پر اسرائیل کا ویزا تھا۔ اس کے علاوہ بہت سی سعودی ٹریول کمپنیاں اب اسرائیل کو جانے والے زیارت پیکج سعودی باشندوں کو مہیا کرا رہی ہیں۔


سعودی- ایران تعلقات

تاریخی طور پر مختلف خلیجی ریاستیں خطے میں افراتفری اور بدامنی پھیلانے کا الزام ایران پر لگاتی چلی آئی ہیں، تاہم گزشتہ سال عراقی حکومت نے سعودی عرب اور ایران کے درمیان مذاکرات کے ایک نئے دور کی میزبانی شروع کی تھی، جس کے اب تک چار اجلاس ہوچکے ہیں۔ ایرانی سفارت کاروں نے ان مذاکرات کو ایک اچھا ماحول بنانے کے طور پر پیش کیا ہے اور چھوٹے ہونے کے باوجود ان اقدامات کے نتائج کو پُرامید قرار دیا ہے۔ اور کہا ہے کہ ان کے ذریعے ہی ہم بڑے نتیجے حاصل کرنے میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔ ایران نے بھی بات چیت کا راستہ اختیار کرنے کی سعودی خواہش کو سراہا ہے، اگرچہ خطے کے بعض مسائل پر دونوں فریقوں کے نقطہ نظر مختلف ہیں، تاہم فریقین کی جانب سے اختلافات کو دور کرنے سے دونوں ممالک کے مفادات کو بہتر طور پر پورا کیا جا سکتا ہے۔

محمد بن سلمان نے کہا ہے کہ سعودی اور ایران دونوں کے لیے بہتر ہوگا کہ وہ مل کر کام کریں اور ایسے طریقے تلاش کریں جس میں وہ ایک ساتھ رہ سکیں، اور امید ہے کہ وہ ایسی پوزیشن پر پہنچ سکتے ہیں جو دونوں ممالک کے لیے اچھا ہو اور اس کے لیے ایک روشن مستقبل قائم کرنے والا ہو۔ اس کا مطلب ایران اور سعودی عرب دونوں شانہ بشانہ تعلقات استوار کرنے کے لیے گامزن نظر آرہے ہیں۔ دوسری جانب ایران نے محمد بن سلمان کے ان ریمارکس کا خیر مقدم کیا ہے۔ ایرانی وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان نے گزشتہ ہفتے سرکاری خبر رساں ایجنسی IRNA کو بتایا کہ یہ منقطع تعلقات کی بحالی کے لیے ریاض کی ''خواہش'' کی علامت ہے، اور انہوں نے ان اقدامات کا خیرمقدم کیا۔


2016 میں، مملکت کی جانب سے قابل احترام شیعہ عالم نمرالنمر کو پھانسی دینے کے بعد مظاہرین نے ایران میں سعودی سفارتی مشن پر حملہ کیا تھا۔ ریاض نے اس وقت تہران سے تعلقات منقطع کر کے جواب دیا تھا۔ مجموعی طور پر کہا جاسکتا ہے کہ محمد بن سلمان جنھیں روایتی سعودی عرب میں تبدیلی کے محرک کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ انھوں نے سعودی معیشت کو عالمی تبدیلیوں اور تقاضوں کے لیے مزید لچکدار بنانے کے لیے کئی منصوبے بھی شروع کیے ہیں۔ ساتھ ہی کچھ سماجی اصلاحات کی بھی شروعات کی ہے اور انھیں نیوم شہر کی منصوبہ بندی اور اسے مکمل کرنے کا سہرا بھی دیا جاتا ہے، جسے انسانی رہائش کی آباد کاری میں بالکل نئے تصور کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔

اسرائیل اور ایران دونوں کے بارے میں ان کے تازہ ترین خیالات سعودی عرب کے لیے ان کے مستقبل کے وژن سے متاثر نظر آتے ہیں لیکن وہ روایتی حکمت اور نئی دنیا کے تقاضوں کے مطابق پرانے طریقوں کو تبدیل کرنے کی خواہش میں بھی شامل ہیں۔ ان کے والد کے شدید بیمار ہونے کی اطلاعات کے ساتھ، ان اقدامات کا مقصد عالمی سطح پر ایک قومی رہنما کے طور پر ان کی شبیہ کو بہتر بنانے کے علاوہ انہیں ایک ایسے رہنما کے طور پر پیش کرنا ہے جو تبدیلی کی ہواؤں کے ساتھ تبدیلی کے لیے تیار ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


/* */