خواتین

دبنگ دادی، ہندوستانی و مغربی میڈیا اور دہلی پولیس... سہیل انجم

ٹائم میگزین کے اس فیصلے نے سی اے اے جیسے غیر آئینی قانون کے خلاف لڑائی لڑنے والوں کو ایک حوصلہ بخشا ہے، انھوں نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ ضرورت پڑی تو پھر احتجاجی تحریک چلائی جائے گی۔

شاہین باغ کی دبنگ دادیاں / تصویر بشکریہ ہمانی سنگھ
شاہین باغ کی دبنگ دادیاں / تصویر بشکریہ ہمانی سنگھ 

گزشتہ دنوں جب عالمی شہرت یافتہ امریکی جریدہ ’’ٹائم میگزین‘‘ نے دنیا کی 100 بااثر شخصیات کی فہرست میں شاہین باغ کی 82 سالہ بلقیس کو بھی شامل کیا تو پوری دنیا ایک خوشگوار حیرت میں مبتلا ہو گئی۔ اس خبر کو عالمی پیمانے پر شہرت حاصل ہوئی اور ایک بار پھر میڈیا نمائندوں کا رخ شاہین باغ کی طرف ہو گیا۔ در اصل بلقیس شاہین باغ کے سی اے اے مخالف احتجاج کا ایک معروف چہرہ بن گئی تھیں اور ان کی شہرت اسی حیثیت سے ہوئی تھی۔ کرونا وائرس کی وجہ سے شاہین باغ کا خواتین کا دھرنا تو ختم ہو گیا تھا لیکن ٹائم میگزین کے اس فیصلے نے ایک بار پھر اس دھرنے کو سرخیوں میں لا دیا۔

Published: undefined

بلقیس شاہین باغ میں پہلے دن سے لے کر آخری دن تک دھرنے پر موجود رہیں۔ وہ صبح کے وقت پہنچتی تھیں اور نصف شب تک وہاں موجود رہتی تھیں۔ انھوں نے پورے ملک کی بے شمار خواتین کو سی اے اے کی مخالفت کرنے کے لیے حوصلہ بخشا اور ایک ان پڑھ خاتون ہونے کے باوجود انھوں نے مذکورہ قانون اور اس سے متعلق دیگر سوالات کے جو جواب دیئے وہ تعلیم یافتہ طبقات کے لیے بھی باعث حیرت تھے۔ انھوں نے جس جرأت آموزی کا مظاہرہ کیا وہ اپنے آپ میں ایک مثال ہے۔ اِس وقت بھی جبکہ ٹائم میگزین نے انھیں اتنا بڑا اعزاز عطا کیا، انھوں نے صحافیوں کے سوالوں کے بہت معقول اور مدلل اور سنجیدہ جواب دیئے۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ وزیر اعظم نریندر مودی کو بھی اس فہرست میں شامل کیا گیا ہے تو انھوں نے یہ کہہ کر اپنی وسیع القلبی کا مظاہرہ کیا کہ مودی میرے بیٹے جیسے ہیں۔ انھیں میں نے تو نہیں لیکن میری جیسی ایک بہن نے ہی پیدا کیا ہے۔ میں ان کی عزت کرتی ہوں اور ان سے ملنے میں خوشی ہوگی۔

Published: undefined

حالانکہ مودی ہی کی زیر قیادت چلنے والی مرکزی حکومت نے سی اے اے مخالف مظاہرین کو کیا کیا نہیں کہا اور کس کس طرح ان مظاہروں اور دھرنوں کو ختم کرانے کی کوشش نہیں کی گئی۔ یہاں تک کہ شاہین باغ دھرنے کے قریب فائرنگ تک کروائی گئی۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ وہ فائرنگ حکومت کے اشارے پر ہوئی لیکن فائرنگ کرنے والاشخص اسی سیاسی جماعت کے نظریات کو ماننے والا تھا جو حکومت کر رہی ہے۔ مودی کے وزیر داخلہ امت شاہ نے دہلی کے ووٹروں کو شاہین باغ تک کرنٹ پہنچانے کا پیغام دیا۔ اس حکومت کے کمانڈروں نے دھرنے میں شامل لوگوں کو ملک دشمن، پاکستانی، دہشت گرد اور غدار کہا اور انھیں گولی مارنے کے نعرے لگائے۔ اسی جماعت کے ایک لیڈر کپل مشرا نے انتہائی استعال انگیز تقریر کی جس کے بعد ہی شمال مشرقی دہلی میں مسلمانوں کے خلاف فساد بھڑکا دیا گیا۔ اس فساد میں 53 افراد ہلاک ہوئے تھے جن میں سے 40 مسلمان ہی تھے۔

Published: undefined

اسی حکومت کی وزارت داخلہ کے ماتحت کام کرنے والی دہلی پولیس نے دہلی کے فسادات کے لیے انھی لوگوں کو ذمہ دار ٹھہرایا ہے جنھوں نے سی اے اے مخالف تحریک میں حصہ لیا تھا۔ پولیس نے اپنی فرد جرم میں کپل مشرا کو تو امن کا ایک دیوتا بنا کر پیش کیا ہے۔ پولیس نے یہ تاثر دیا ہے کہ فساد بھڑکانے میں کپل مشرا کا کوئی ہاتھ نہیں تھا بلکہ وہ تو فساد کے خلاف تھے۔ پولیس نے گولی مارنے کا نعرہ لگانے والوں اور یہ کہنے والوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی کہ شاہین باغ کے مظاہرین ہندووں کے گھروں میں گھس کر ان کی ماں بہنوں کی عزت لوٹیں گے۔ پولیس نے سلمان خورشید، پرشانت بھوشن، یوگیندر یادو، ہرش مندر، برندا کرات اور ایسے کئی لوگوں کے نام چارج شیٹ میں شامل کیے ہیں جنھوں نے ان مظاہروں میں تقریریں کی تھیں۔ اس کے علاوہ جن پندرہ افراد کو گرفتار کیا گیا ہے وہ سب وہی ہیں جو مظاہرے میں پیش پیش تھے۔

Published: undefined

پولیس نے یہ تھیوری گھڑی ہے کہ در اصل سی اے اے مخالف مظاہرے ایک منظم پلاننگ کا حصہ تھے اور اس پلاننگ میں مرکز کی مودی حکومت کو اکھاڑ پھینکنا بھی شامل تھا۔ ان مظاہروں کو مختلف تنظیموں اور گروپوں کی جانب سے فنڈ فراہم کیا جاتا تھا۔ حالانکہ یہ الزام بھی دوسرے تمام الزامات کی مانند بے بنیاد ہے۔ اور اگر بہ فرض محال یہ مان لیا جائے کہ کچھ تنظیموں یا گروپوں نے فنڈنگ کی تو یہ غیر قانونی یا غیر آئینی کیسے ہو گیا۔ تمام سیاسی پارٹیاں فنڈ اور چندہ لیتی ہیں اور اب تو بی جے پی نے اس میدان میں سب کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ اگر پولیس کی یہ دلیل تسلیم کر لی جائے کہ پاپولر فرنٹ آف انڈیا (پی ایف آئی) نے فنڈنگ کی تب بھی یہ کوئی غیر قانونی بات نہیں۔ کیونکہ بہر حال پی ایف آئی پر ملک گیر پابندی نہیں لگی ہے۔ بہر حال پولیس کی چارج شیٹ پر علیحدہ بحث کرنے کی ضرورت ہے۔ پولیس جو کارروائیاں کر رہی ہے اس سے یہ بات بالکل واضح ہوتی ہے کہ حکومت سی اے اے مخالف مظاہرین کو سبق سکھانا چاہتی ہے۔

Published: undefined

جہاں تک میڈیا کی بات ہے تو ہم مغربی میڈیا کو اسلام دشمن کہہ کر خواہ جتنا چاہیں معتوب کریں لیکن حقیقت یہ ہے کہ اسی مغربی میڈیا نے دبنگ دادی کی خدمات کا اعتراف کیا اور انھیں دنیا کی سو بااثر شخصیات کی فہرست میں شامل کیا۔ جبکہ ہندوستانی میڈیا کے ایک بہت بڑے طبقے نے سی اے اے مخالف احتجاج اور دھرنوں کو بدنام کرنے کی کوشش کی۔ وہاں بیٹھنے والی خواتین پر پانچ پانچ سو روپے لینے اور بریانی کھانے کے لالچ میں پہنچنے کا الزام عاید کیا گیا۔ میڈیا کے اس طبقے نے شاہین باغ کی خواتین کو بے عزت کرنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ لیکن مغربی میڈیا نے شاہین باغ کے دھرنے کو تسلیم کیا اور بلقیس کو عالمی سطح پر ایک رتبہ فراہم کرکے دھرنے کو آئینی ہونے کی سند بخش دی۔

Published: undefined

ٹائم میگزین کے اس فیصلے کو ہندوستانی ذرائع ابلاغ میں نمایاں مقام حاصل ہوا۔ سب کو خوشی ہوئی۔ بہت سے میڈیا اداروں نے بھی اپنی مسرت کا اظہار کیا۔ لیکن اس فیصلے سے زی نیوز کے سدھیر چودھری کے پیٹ میں شدید درد ہو گیا۔ انھوں نے اپنے مخصوص پروگرام میں مغربی میڈیا کو ہند مخالف اور شاہین باغ سے محبت کرنے والا قرار دیا اور کہا کہ ٹائم میگزین نے ان پانچ سو لوگوں کو اتنہائی اہمیت دے دی جو دھرنا گاہ پر بیٹھے ہوئے تھے۔ سدھیر چودھری جیسے لوگوں کو یہ پانچ سو افراد نظر آئے۔ (حالانکہ وہاں اتنی کم تعداد کبھی نہیں رہی۔ بعض اوقات تو لاکھوں لاکھ لوگ وہاں موجود رہتے تھے۔) ان کو پورے ملک میں ہونے والے دھرنے دکھائی نہیں دیئے اور عالمی سطح پر ان کی حمایت نظر نہیں آئی۔ اس شخص کو اس سے بہت دکھ پہنچا کہ ٹائم میگزین نے شاہین باغ کے دھرنے کو ایک وقار اور اعتبار کیوں عطا کر دیا۔

Published: undefined

بہر حال ٹائم میگزین کے اس فیصلے نے سی اے اے جیسے غیر آئینی قانون کے خلاف لڑائی لڑنے والوں کو ایک حوصلہ بخشا ہے اور انھوں نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ جب بھی حالات موافق ہوئے اور ضرورت پڑی تو اس کے خلاف ایک بار پھر احتجاجی تحریک چلائی جائے گی۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined