سماج

افغانستان میں یونیورسٹی کی پابندی کے خلاف خواتین کا احتجاج

طالبان کی جانب سے پابندی کے نفاذ کے بعد خواتین نے یونیورسٹیوں کے باہر احتجاج کرنے کے ساتھ ہی آہ و زاری بھی کی۔ بیشتر ممالک نے طالبان حکومت کے اقدام کی مذمت کی ہے۔

فائل تصویر آئی اے این ایس
فائل تصویر آئی اے این ایس 

بہت سی افغان خواتین 21 دسمبر بدھ کے روز یونیورسٹیوں کے باہر کھڑی تھیں، جن میں سے بیشتر کو سکیورٹی فورسز نے اندر داخل ہونے سے روک دیا۔ حکمران طالبان نے خواتین کی اعلیٰ تعلیم پر بھی پابندی عائد کر دی ہے اور سکیورٹی فورسز نے اس کا سختی سے نفاذ شروع کر دیا ہے۔

Published: undefined

بدھ کو سیاہ چادروں اور سر پر اسکارف میں ملبوس خواتین کابل اور دیگر جگہوں پر یونیورسٹیوں کے باہر جمع ہوئیں۔ ان میں سے بہت سی ایک دن پہلے تک، اپنے مستقبل کے تئیں جو خواب اور امنگیں سجا رکھی تھیں، اس پر آہ و زاری بھی کر رہی تھیں۔

Published: undefined

قندوز میں نرسنگ کی ایک 23 سالہ طالبہ امینی نے فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کو بتایا کہ ''ہمیں ایسا محسوس ہوا جیسے ہم پنجرے میں قید پرندے ہوں۔ ہم نے ایک دوسرے کو گلے لگایا، چیخ و پکار کی: آخر ہمارے ساتھ ایسا کیوں ہو رہا ہے؟''

Published: undefined

طالبان نے جب خواتین کے لیے یونیورسٹی میں جانے پر پابندی عائد کی، تو ملک بھر کی یونیورسٹیاں موسم سرما کی تعطیلات پر تھیں، تاہم اس وقت بھی بہت سے طلبہ یونیورسٹیوں میں امتحانات دینے یا لائبریریوں میں پڑھنے کے لیے موجود تھے۔

Published: undefined

بدھ کے روز کچھ طالبات کو انتظامی امور کی تکمیل کے لیے کیمپس میں داخل ہونے کی اجازت بھی دی گئی۔ کابل یونیورسٹی کے ترجمان نے ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ دیگر طالبات کو ان کی گریجویشن تقاریب میں شرکت کے لیے بھی اجازت دی گئی۔

Published: undefined

شعبہ پولیٹیکل سائنس کی تیسرے سال کی ایک طالبہ ہستی ان طالبات میں شامل ہیں، جن کے سالانہ امتحانات پابندی کی وجہ سے منسوخ کر دیے گئے۔ انہوں نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ پابندی کے اعلان کے بعد ان کی امتحان کی تیاریاں اور جوش جلد ہی سوگ میں بدل گئی۔

Published: undefined

ان کا کہنا تھا، ''میں نے تعلیم کے حصول کے لیے اپنی پوری کوشش کی ہے، میرے لیے تو یہ بہت مشکل وقت ہے، کیوں کہ اب مجھے اپنی پڑھائی روکنی پڑ رہی ہے اور میرے مقاصد حاصل نہیں ہو رہے ہیں... اگر خواتین کے لیے حالات ایسے ہی رہے تو اس کا مطلب ہے کہ خواتین اور لڑکیوں کو زندہ دفن کیا جا رہا ہے۔''

Published: undefined

افغانستان میں لوگوں کا رد عمل کیا ہے؟

طالبان کے اس فیصلے کی بین الاقوامی سطح پر بڑے پیمانے پر مذمت کی گئی ہے اور مقامی لوگوں نے بھی اپنی مایوسی کا اظہار کیا۔ کیمپس کے باہر سخت سیکورٹی کی موجودگی کے باوجود فیصلے کے خلاف احتجاج کرنے کے لیے جمع ہونے کے ساتھ ساتھ بہت سے لوگوں نے سوشل میڈیا پر بھی پابندی کی مذمت کی۔ ٹویٹر اور فیس بک کے صارفین نے اس فیصلے کے خلاف احتجاج کے لیے ہیش ٹیگ #LetHerLearn (لڑکیوں کو سیکھنے دیں) کا استعمال کیا۔

Published: undefined

تمنا عارف نامی طالبہ نے اپنی ٹویٹ میں کہا: ''ہم صبح ساڑھے چھ بجے یونیورسٹی آئے تھے۔ لڑکوں کو تو اندر جانے کی اجازت دی گئی، اور لیکن ہم پر بندوق اٹھا لی اور ہمیں گھر جانے کو کہا۔'' تمنا نے کابل کی کردان یونیورسٹی کی تصاویر بھی شیئر کیں، جس میں آس پاس کی خالی گلیوں کو دیکھا جا سکتا ہے۔ ہادیہ رحمانی نامی ایک اور صارف نے فیس بک پر لکھا: ''مجھے معلوم تھا کہ ایک دن ایسا ہونے والا ہے، یہاں تک کہ آئندہ نوٹس میں گلیوں اور سڑکوں پر نکلنے پر بھی پابندی عائد کر دی جائے گی۔''

Published: undefined

عالمی سطح پر فیصلے کی مذمت

یونیورسٹیوں میں طالبات پر پابندی کو عالمی رہنماؤں اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے بھی تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ افغانستان میں اقوام متحدہ کے مشن نے طالبان انتظامیہ پر زور دیا کہ وہ اس فیصلے کو ''فوری طور پر'' واپس لے۔ اس نے چھٹی جماعت سے آگے لڑکیوں کے اسکولوں کو دوبارہ کھولنے کا بھی مطالبہ کیا ہے۔ طالبان نے لڑکیوں کی ثانوی تعلیم پر پہلے ہی پابندی عائد کر دی تھی۔

Published: undefined

اقوام متحدہ نے کہا کہ طالبان کے زیر انتظام حکومت کو ''خواتین اور لڑکیوں کو روزمرہ کی عوامی زندگی میں مکمل طور پر حصہ لینے سے روکنے والے تمام اقدامات کو ختم کرنا چاہیے۔'' اس دوران امریکہ کی جانب سے مذمت کا سلسلہ جاری ہے۔ وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے خبردار کیا کہ اس فیصلے کے ''طالبان کے لیے نتائج'' ضرور ہوں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ دنیا کے کسی اور ملک نے خواتین اور لڑکیوں کو تعلیم سے نہیں روکا ہے۔

Published: undefined

برطانوی وزیر اعظم رشی سوناک نے بدھ کے روز ایک بیان میں پابندی کو ''پستی کی جانب ایک سنگین قدم'' قرار دیا۔ انہوں نے طالبان کو خبردار کیا کہ ''دنیا یہ سب دیکھ رہی ہے۔'' ادھر جرمن وزیر خارجہ اینالینا بیئربوک نے طالبان حکمرانوں پر الزام لگایا کہ وہ ملک کے مستقبل کو ''تباہ'' کرنے کا فیصلہ کر رہے ہیں۔ انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ دنیا سب دیکھ رہی ہے اور ''طالبان خواتین کو بند کرنے کی چاہے جتنی کوشش کریں، تاہم وہ اس میں کامیاب نہیں ہوں گے۔''

Published: undefined

مسلم ممالک نے بھی فیصلے کی مذمت کی

ہمسایہ ملک پاکستان نے بھی اس پابندی پر مایوسی کا اظہار کیا اور طالبان حکام پر دوبارہ غور کرنے کی اپیل کی ہے۔ اسلام آباد نے خواتین کو تعلیم فراہم کرنے کی اپنی ''واضح اور مستقل'' پوزیشن پر زور دیا ہے۔

Published: undefined

قطر نے بھی ایسا ہی موقف اختیار کیا۔ امریکہ اور طالبان کے درمیان مذاکرات میں سہولت کار کا اہم کردار ادا کرنے والے ملک نے حکومت پر زور دیا کہ وہ اسلام کی تعلیمات کے مطابق اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرے۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined