سماج

پاکستان کے موجودہ معاشی بحران کا ذمہ دار کون؟

پاکستان کو تباہی کے دھانے تک پہنچانے میں سیاسی جماعتوں ، اسٹیبلشمنٹ اور بیوروکریسی، سب کا مشترکہ ہاتھ ہے۔ ماہرین معیشت اور کیا کہتے ہیں؟

پاکستان کے موجودہ معاشی بحران کا ذمہ دار کون؟
پاکستان کے موجودہ معاشی بحران کا ذمہ دار کون؟ 

پاکستان کے چوٹی کے ماہرین معیشت نے کہا ہے کہ ملکی تاریخ کے سنگین ترین اقتصادی بحران کی ذمہ داری کسی ایک سیاسی جماعت پر نہیں ڈالی جا سکتی۔ ملک کو تباہی کے دھانے تک پہنچانے میں سیاسی جماعتوں ، اسٹیبلشمنٹ اور بیوروکریسی سمیت سب کا ہاتھ ہے۔

Published: undefined

ملک کے نامور ماہر معیشت ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ملک کے معاشی بحران کا سب سے زیادہ ذمہ دار طبقہ طاقتور اشرافیہ کا ہے جس نے غلط پالیسیاں بنا کر، کرپشن کرکے، ناجائز مراعات حاصل کرکے اورقرضے معاف کروا کر ملک کو بحران سے دوچار کیا اور پھر آئی ایم ایف کا بہانہ کرکے مشکل فیصلوں کا سارا بوجھ عوام پر ڈال دیا ہے۔ ان کے مطابق یہ طبقہ ہر جگہ موجود ہے اسے بعض سیاست دانوں کا تعاون بھی حاصل ہے، انہیں اداروں سے بھی ریلیف مل جاتا ہے اس لیے آج بھی بجٹ خسارہ درست کرنے کے لیے شاہانہ حکومتی اخراجات کم کرنے، کابینہ کا سائز چھوٹا کرنے اور کرپشن کے خاتمے کے لیے مؤثر اقدامات کرنے کی بجائے سارا بوجھ غریب عوام پر ڈال دیا گیا ہے۔ ''ان کے بقول،''اشرافیہ کا یہ مافیا ٹیکس ایمنسٹی کے نام پر ٹیکس چوری کی بھی حوصلہ افزائی کرتا ہے، ڈالر کی اسمگلنگ پر آنکھیں بند کر لیتا ہے اور اپنے سیاسی مفاد کے لیے آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ بھی توڑ دیتا ہے۔‘‘

Published: undefined

پاکستان کے ممتاز ماہر معیشت ڈاکٹر حفیظ پاشا نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ موجودہ بحران کی زیادہ ذمہ داری ملکی اشرافیہ پر عائد ہوتی ہے۔ جو چار ہزار ارب کی مراعات لیے ہوئے ہے وہ اگر دو ہزار ارب کی مراعات چھوڑ بھی دے تو اس سے بھی عام آدمی کو ریلیف مل سکتا ہے۔ ڈاکٹر حفیظ پاشا کے بقول پاکستان کی بہترین بائیس فی صد زرعی زمین اس وقت ایک فی صد اشرافیہ کے پاس ہے جو کہ اس سے نو سو پچاس ارب روپے سالانہ کما کر صرف تین ارب روپے کا ٹیکس ادا کرتی ہے۔ '' دوسری طرف گھی ، چائے اور ڈرنکس سمیت کھانے پینے کی چیزوں پر ٹیکس لگا کر غریب لوگوں سے چار سو پچاس ارب روپے لے لیے جاتے ہیں۔

Published: undefined

ڈاکٹڑ حفیظ پاشا کے بقول موجودہ بحران بائیس تیئس سالوں کی کہانی ہے جس میں سول اور ملٹری دونوں طرح کی حکومتیں شامل ہیں۔ ملک کو درکار ضروری معاشی اصلاحات کرنے، معیشت کو دستاویزی بنانے اور خسارے میں چلنے والے سرکاری اداروں سے جان چھڑانے کے لیے جتنی کوششیں کی جانی چاہیں تھیں وہ دیکھنے میں نہیں آئیں۔

Published: undefined

ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر حفیظ پاشا نے کہا کہ ملک کا موجودہ اقتصادی بحران ملکی تاریخ کا سب سے بڑا پریشان کن اور مشکل بحران ہے۔ ان کے بقول، ''ہمیں یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ کووڈ کی وبا، تاریخ کے بد ترین سیلاب، عالمی کساد بازاری اور یوکرین کی جنگ سے پیدا ہونے والے حالات نے بھی اس میں اپنا حصہ ڈالا ہے۔''صرف آٹھ سال کے قلیل عرصے میں ملکی قرضے دوگنا ہو گئے ہیں۔ پاکستان پر ایک سو چھبیس ارب ڈالر کے قرضے واجب الادا ہیں۔ یہ بحران حکومتوں کا پیدا کردہ ہے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ ہر سال قرض کی ادائیگی کے لیے تیرہ ارب ڈالر درکار ہیں اور ملک کو ضروری امپورٹس کے لیے ہر ماہ پانچ چھ ارب ڈالر درکار ہیں لیکن ملکی زر مبادلہ کے ذخائر تین ارب ڈالر سے بھی نیچے جا چکے ہیں۔

Published: undefined

ایک اور سوال کے جواب میں ڈاکٹر حفیظ پاشا کا کہنا تھا کہ ملک کی بیوروکریسی کے زوال نے بھی ملک کے اقتصادی بحران کی سنگینی میں اضافہ کیا ہے۔ ان کی اقتصادی پالیسیوں کی تشکیل اوراقتصادی پالیسیوں کے نفاذ میں ناکامی نے بھی ملک کے معاشی بحران کو بڑھاوا دیا ہے۔

Published: undefined

پاکستان کے ممتاز ماہر اقتصادیات پروفیسر ڈاکٹر اکمل حسین نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ پاکستان کو درپیش سنگین اقتصادی بحران ایک ایسے وقت پر سامنے آیا ہے جب ملک کا سیاسی نظام بھی بحرانی کیفیت کا شکار ہے اور ملک کو موسمیاتی تبدیلیوں اور دہشت گردی کے خطرات کا سامنا ہے۔ ان کے بقول یہ ایک ایسا وقت ہے جب ملک میں ریاست اورعوام کا رشتہ بھی بحرانی کیفیت سے دوچار ہے۔

Published: undefined

ڈاکٹر اکمل حسین سمجھتے ہیں کہ اس اقتصادی بحران کی ذمہ دار اشرافیہ ہے جس نے ملکی معیشت کی ڈرائیونگ سیٹ پر ٹیلنٹ اور انٹرپرائزز کی بجائے بیرونی قرضوں کو بٹھا دیا ہے۔ ان کے مطابق ''ملک کے معاشی فیصلے دو سوبیس ملین لوگوں کے لیے ہونے چاہییں نا کہ صرف ایک ملین مراعات یافتہ لوگوں کے لیے۔‘‘

Published: undefined

ڈاکٹر اکمل حسین کی رائے میں ملکی بحران کے حل کے دو راستے ہیں ایک راستہ یہ ہے کہ آئی ایم ایف کے راستے پر جا کر بجٹ میں توازن لانے، ٹیکس ریونیو ہر صورت میں بڑھانے کے ساتھ ساتھ سب سیڈیز ختم کی جائیں۔ ان کے خیال میں اس سے ملکی معیشت کی رفتار سست ہو گی۔ اور بے روزگاری، مہنگائی اورغربت میں بہت اضافہ ہو جائے گا ۔

Published: undefined

ان کے مطابق اس بحران کے خاتمے کا دوسرا حل یہ ہے کہ ملک کے بڑے شہروں میں موجود قیمتی سرکاری اراضی کو عالمی تجارتی کمپنیوں کو لیز پر دے کر، خسارے میں چلنے والے سرکاری اداروں کی نجکاری کرکے قرضے ادا کر دیے جائیں اوراس سے قبل قرضوں پر خرچ کی جانے والی رقوم لوگوں کی صحت اور تعلیم کی بہتری پر خرچ کی جائے۔ اس طرح لوگوں کو تربیت دے کر ملکی معیشت میں کردار ادا کرنے کا موقعہ دیا جائے اور ''ویلیو ایڈڈ ایکسپورٹس‘‘ کی حوصلہ افزائی کی جائے۔ اگر ایسا ہواتو اقتصادی بحران کا خاتمہ ممکن ہو سکے گا وگرنہ بیرونی قرضے پہلے سے لئے گئے قرضوں کی ادائیگی میں خرچ ہو جائیں گے اور کچھ عرصے کے بعد پھر معاشی بحران آن کھڑا ہو گا۔

Published: undefined

اقتصادی تجزیہ کار خالد محمود رسول نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ کہ ملک کے موجودہ بحران کے ذمہ دار وہ لوگ ہیں جو پچھلے تیس سالوں میں ملک میں برسراقتدار رہے ہیں اور انہوں نے اپنے ذاتی اور سیاسی مفادات کو ملکی مفادات پر ترجیح دی۔ یہ لوگ حکومت جاتے دیکھ کر کبھی آئی ایم ایف سے معاہدہ توڑ دیتے ہیں اور کبھی اس معاہدے کو تاخیر کا شکار کرکے ملک کو مشکلات میں دھکیل دیتے ہیں۔ ان کی رائے میں، ''پاکستان مسلم لیگ نون کی سربراہی میں وفاق میں بننے والے حکومت کو آج اپنے دانتوں سے جو گرہیں کھولنا پڑ رہی ہیں۔ یہ گرہیں ماضی میں مسلم لیگ نون نے اپنے ہاتھوں سے لگائی تھیں۔‘‘

Published: undefined

ایک سوال کے جواب میں خالد محمود رسول نے بتایا کہ یہ درست ہے کہ اگرعدالتیں نظریہ ضرورت سے بالاتر ہوتیں اور اسٹیبلشمنٹ سیاسی معاملات میں مداخلت نہ کرتی تو ملک کی معیشت پر بہتر اثرات ممکن ہو سکتے تھے۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined