سماج

بچے یا ریس کے گھوڑے؟

زمانہ طالب علمی میں سالانہ امتحانات کا وہ وقت کون بھول سکتا ہے، جب دنیا ٹھہری ہوئی محسوس ہوتی تھی۔ بھوک ختم ہو جاتی، نیند اڑ جاتی اور کچھ لمحوں کے لیے تو محسوس ہوتا کہ دل کی دھڑکن جیسے ٹھہر سی گئی ہے۔

بچے یا ریس کے گھوڑے؟
بچے یا ریس کے گھوڑے؟ 

جب زندگی اور ہستی کا مقصد صرف ایک نکتے پر مرکوز ہو جایا کرتا کہ امتحان میں زیادہ سے زیادہ نمبر کیوں کر حاصل کیے جائیں؟ اور اگر اچھے نمبر نہ آئے تو؟ ایسے میں کبھی خودکشی کرنے کا خیال اور کبھی گھر سے بھاگ جانے کے منصوبے۔

Published: undefined

امتحانی کار کردگی کے حوالے سے والدین، اساتذہ اور دوستوں کی طرف سے توقعات کا جو بوجھ ناتواں کاندھوں پر لاد دیا جاتا ہے وہ سوہان روح بن جاتا ہے۔ شاید اسی ذہنی و نفسیاتی دباؤ کا نتیجہ ہوا کرتا تھا کہ کمرہ امتحان میں پہنچتے ہی قدم ڈگمگانے لگتے، نگران اساتذہ کی شکلیں خون خوار جلادوں کی سی دکھائی دینے لگتیں اور جب سوال نامے تقسیم ہونے لگتے، جسم میں ایک سنسناہٹ سی دوڑنے لگتی۔

Published: undefined

اور چند واقعات مجھے اب بھی یاد ہیں، جب نوبت یہاں تک پہنچی کہ اس دباؤ کے مارے ہوئے طلبا کمرہ امتحان میں بے ہوش بھی ہو گئے۔ اگر بچہ کسی نامور یا مہنگے ادارے میں پڑھتا ہے تو اس کا مطلب ہے کارکردگی کے لیے دباؤ میں اسی تناسب سے اضافہ۔ کہ اب والدین اور اساتذہ کی توقعات کے ساتھ ساتھ اس تعلیمی ادارے کی ساکھ کو برقرار رکھنے کا بوجھ بھی انہی ننھی جانوں کو اٹھانا پڑے گا۔

Published: undefined

میٹرک کے امتحانات سے پہلے اسکول کا آخری دن اب بھی یاد ہے، جب میرے مشہور و معروف سکول نے اپنی مرضی کا نگران عملہ اور امتحانی مرکز منتخب کرنے کے لیے طلبا سے اضافی رقم کا مطالبہ کیا اور ایک پیریڈ امتحان میں نقل کے محفوظ طریقوں کا بھی تھا۔ نمبروں کی دوڑ میں ہم اندھا دھند بھاگتے، اخلاقیات اور اقدار کو پیروں تلے روندتے چلے جاتے ہیں۔

Published: undefined

اس موضوع پر بہت کچھ لکھا اور کہا جاتا ہے لیکن کچھ ایسی غیر یقینی کی فضا ہے کہ اعلیٰ تعلیم یافتہ والدین بھی سب کچھ جاننے کے باوجود امتحانات کے دنوں میں اسی راہ پر چل نکلتے ہیں۔ ان کے لیے یہ یقین کر لینا ہی مشکل ہے کہ ہر بچہ اپنی ذہنی استعداد اور رجحان کے مطابق الگ شخصیت ہے۔

Published: undefined

ہم فرض کر لیتے ہیں کہ فلاں کا بچہ اگر اتنے اچھے گریڈز لا سکتا ہے تو ہمارا بچہ اتنے گریڈز کیوں نہیں لے رہا۔ والدین اپنے بچے کی کار کردگی کو اس کی تربیت کی بجائے ایک معاشرتی تفاخر کی علامت بنانا چاہتے ہیں۔ امتحان میں بچے کے حاصل کردہ نمبر اس کی کار کردگی کی بجائے اس کے سر پرستوں کے غرور کا سرٹیفکیٹ بن جاتے ہیں۔

Published: undefined

شاید ہمارے انہی رویوں کی وجہ سے تعلیم کے نام پر اب صرف بے مقصد رٹا باقی بچا ہے، جس کا مقصد نصاب پر دسترس کی بجائے صرف زیادہ سے زیادہ نمبروں کا حصول ہے اور ہمارے تعلیمی نظام میں موجودہ انحطاط اس کا منطقی نتیجہ۔

Published: undefined

شاید اب وقت ہے کہ اساتذہ اور والدین کو بچے کے ساتھ مل کر ان مسائل کا حل نکالنا چاہیے تا کہ امتحانی دباؤ سے نکل کر بچے اچھے سے تیاری کر کے بہتر نتائج دے سکیں۔ جہاں امتحان کا مقصد بچے کی سمجھ بوجھ کی جانچ ہو نہ کہ محض یاد داشت کو پرکھنے کا ایک ذریعہ۔

Published: undefined

ہماری توقعات کے بوجھ تلے دبے ہمارے بچے ریس کے گھوڑے نہیں جن کے مالکان ان پر داؤ لگا کر انہیں دوڑاتے ہیں اور ان کی کامیابی کے جھنڈے اٹھا کر اتراتے پھرتے ہیں۔

Published: undefined

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined

,
  • سیبی کی کارروائی ایک بار پھر اڈانی گروپ، بی جے پی اور ان کے حامیوں کے جھوٹے دعووں پر مہر: کانگریس

  • ,
  • ’لگتا ہے وزیر اعظم ایمس کا جائزہ لینے آ رہے ہیں‘، پی ایم مودی کے دربھنگہ دورہ پر تیجسوی یادو کا طنز