پاکستانی ایوان بالا یعنی سینٹ سے گزشتہ ماہ ناموس صحابہ بل کی منظوری کے ساتھ ہی اس پر تحفظات کا اظہار کیا جارہا تھا اور اب فرقہ وارانہ لحاظ سے حساس سمجھے جانے والے صوبے گلگت بلتستان میں اس حوالے سے پائی جانے والی کشیدگی میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔
Published: undefined
فوجداری قانون تریمی بل 2023ء کے عنوان سے ناموس صحابہ کے قانون کی منظوری پی ڈی ایم کی سابقہ حکومت کے دور میں دی گئی تھی۔اس بل کے تحت پیغمبر اسلام کے اہل خانہ اور ساتھیوں یعنی صحابہ کے خلاف غیر مناسب زبان استعمال کرنے پر سزا تین سال سے بڑھا کر دس سال کرنے کے ساتھ ساتھ اسے ایک ناقابل ضمانت جرم بنا دیا گیاتھا۔
Published: undefined
ورکرز پارٹی گلگت بلتستان کے صدر بابا جان کا کہنا ہے کہ علاقے میں موجودہ کشیدگی سابقہ حکومت کے دور میں ناموس صحابہ بل کی منظوری کے بعد سے شروع ہوئی۔بابا جان کے بقول اس بارے میں ملک بھر کی اہل تشیع کمیونٹی کو شکایت ہے۔
Published: undefined
ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے بابا جان کا کہنا تھا،'' اسکردو میں ایک شیعہ عالم کی ویڈیو کو پورے علاقے میں پھیلایا گیا، جس میں بعض مذہبی ہستیوں کے خلاف نامناسب الفاظ استعمال کیے گئے تھے۔ اس واقعے کے بعد ضلع چلاس میں اہل تشیع علماءکو دھمکیاں بھی دی گئیں اور پھر ایک ویڈیو گلگت سے منظر عام پر آئی، جس میں شیعہ مسلمانوں کی مقدس ہستیوں کے لیے بھی نامناسب زبان استعمال کی گئی اور یوں گلگت بلتستان میں حالات خراب ہونا شروع ہوئے۔‘‘
Published: undefined
ایک مقامی صحافی زیبا بتول نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اسکردو میں شیعہ جبکہ چلاس میں سنی برادریاں مشتعل ہیں۔ انہوں نےکہا، ''ایسی اطلاعات ہیں کی دونوں گروپس مسلح ہیں، جس کی وجہ سے کشیدگی خطرناک صورت حال اختیار کر سکتی ہے۔‘‘
Published: undefined
گلگت شہر میں مقیم صحافی عبدالرحمان بخاری کا کہنا ہے کہ علاقے میں رینجرز اور فرنٹئیر کانسٹیبلری کے دستے پہلے سے ہی موجود ہیں اور فوج بھی کسی ہنگامی حالت سے نمٹنے کے لیے تیار ہے۔
Published: undefined
انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’متنازعہ نوعیت کی سوشل میڈیا ویڈیوز کی وجہ سے کشیدگی بڑھ رہی تھی۔ میرے خیال میں حکام نے اسی وجہ سے اس پر پابندی لگائی تاکہ مختلف عناصر سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ کو نفرت پھیلانے کے لیے استعمال نہ کر سکیں۔‘‘
Published: undefined
بابا جان کے خیال میں موجودہ صورتحال لوگوں کی توجہ عوامی مسائل سے ہٹانے کے لیے دانستہ طور پر پیدا کی جارہی ہے۔ انہوں نے کہا، ''صوبائی حکومت گندم پر سبسڈی ختم کرنے کی کوشش کررہی ہے اور حال ہی میں یونیورسٹیوں کی فیسیں بھی بڑھائی گئی ہیں۔ ان سارے مسائل پر مظاہرے اور احتجاج چل رہےتھے۔ اسی دوران یہاں فرقہ ورانہ عناصر کو سرگرم کردیا گیا تاکہ ان حقیقی عوامی مسائل سے توجہ ہٹائی جائے۔‘‘
Published: undefined
بابا جان کا مزید کہنا تھا، ''ان مسائل کی وجہ سے سارے مقامی لوگ متاثر ہورہے ہیں جو مذہب کے نام پر لڑنا نہیں چاہتے بلکہ زندگی کی بنیادی ضروریات چاہتے ہیں۔‘‘
Published: undefined
ضلع دیامر سے تعلق رکھنے والے سابق وزیراعلی گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحٰمن کے ترجمان فیض اللہ فراق کا کہنا ہے کہ صورت حال اب بھی کشیدہ ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا''، دیامر اور کئی دوسرے علاقوں میں اب بھی ایک ان دیکھی کشیدگی ہے، جس سے عام آدمی بہت متاثر ہو رہا ہے۔‘‘
Published: undefined
انہوں نے کہا کہ گلگت بلتستان میں یہ سیاحت کا سیزن ہے لیکن ایک ریڑھی لگانے والا، دکان چلانے والا اور ہوٹل میں کام کرنے والا بہت پریشان ہے کیونکہ اس کشیدگی کی وجہ سے ان کا کام متاثر ہو رہا ہے۔ فیض اللہ فراق کے مطابق، ''کچھ ایف آئی ار دونوں گروپس کے علماء کے خلاف کٹ چکی ہیں۔ اور کچھ مزید رجسٹر ہو سکتی ہے جس سے کشیدگی مزید بڑھے گی۔‘‘
Published: undefined
گلگت بلتستان کے چیف سیکرٹری محی الدین وانی نے ڈی ڈبلیو کو اس حوالے سے فون پر پیغامات کے ذریعے بتایا کہ گلگت بلتستان میں صورتحال مکمل طور پر پرامن ہے اور فوج کی طلبی کے حوالے سے جو خبریں چل رہی ہیں وہ بالکل بے بنیاد ہیں۔
Published: undefined
انہوں نے بتایا، ''تمام سڑکیں، تجارتی مراکز، تجارتی سرگرمیاں اور تعلیمی ادارے معمول کے مطابق چل رہے ہیں۔‘‘ محی الدین وانی کا مزید کہنا تھا، ''آرمی اور سول آرمڈ فورسز کو محرم کے مہینے میں چہلم کے حوالے سے طلب کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ جلوس کے راستوں اور امام بارگاہوں کی حفاظت کے لیے خصوصی اقدامات کیے گئے ہیں، جو ایک معمول کی بات ہے۔ وانی کے مطابق دفعہ 144 پورے علاقے میں امن و امان قائم کرنے اور عوام کے جان و مال کے تحفظ کے لیے لگائی گئی ہے تاکہ کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہ آئے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز