سماج

برطانوی شہزادے ہیری معصوم افغانوں کے قاتل ہیں،طالبان

طالبان نے کہا کہ انہیں امید نہیں کہ معصوم افغانوں کو ہلاک کرنے کا اعتراف کے باجود عالمی عدالت انصاف پرنس ہیری کو طلب کرے گی یا انسانی حقوق کے کارکن مذمت کریں گے لیکن تاریخ ان مظالم کو یاد رکھے گی۔

برطانوی شہزادے ہیری معصوم افغانوں کے قاتل ہیں، طالبان
برطانوی شہزادے ہیری معصوم افغانوں کے قاتل ہیں، طالبان 

برطانوی شاہ چارلس کے بیٹے پرنس ہیری نے اپنی خودنوشت 'اسپیئر‘ میں اعتراف کیا ہے کہ افغانستان میں امریکی اتحادی افواج میں ہیلی کاپٹر کے پائلٹ کے طور پر خدمات سرانجام دینے کے دوران انہوں نے 25 لوگوں کو مارا تھا کیونکہ ''وہ برے لوگ تھے۔‘‘

Published: undefined

شہزادہ ہیری نے ہلاک کیے جانے والے لوگوں کو شطرنج کے مہروں سے تعبیر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ انہوں نے یہ نہیں سوچا کہ وہ 25 انسان تھے: ''بلکہ وہ جنگ میں دشمن کے جنگجوؤں کو شطرنج کی بساط سے اٹھائے جانے والے مہروں طرح سمجھتے ہیں۔ جنہیں جنگ کی بساط سے ہٹا دیا گیا۔ برے لوگوں کا خاتمہ کر دیا گیا،پیشتر اس کے کہ وہ اچھے لوگوں کو مار دیتے۔‘‘

Published: undefined

افغانستان کی طالبان انتظامیہ اور اعلیٰ قیادت نے برطانوی شہزادے کے اس اعتراف پر ان کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔

Published: undefined

’تاریخ ان مظالم کو یاد رکھے گی‘

افغانستان میں برسراقتدار طالبان کے سینیئر رہنما انس حقانی نے برطانوی شہزادہ ہیری کو مخاطب کرتے ہوئے کہا انہوں نے افغانستان میں جن لوگوں کو قتل کیا وہ شطرنج کے مہرے نہیں بلکہ انسان تھے۔ طالبان رہنما نے لکھا، ''مسٹر ہیری! جن کو تم نے مارا وہ شطرنج کے مہرے نہیں تھے، وہ انسان تھے۔ ان کے خاندان تھے جو ان کی واپسی کا انتظار کر رہے تھے۔ افغانوں کے قاتلوں میں سے بہت سے لوگوں میں آپ جیسی شائستگی نہیں ہے کہ وہ اپنے ضمیر کو ظاہر کریں اور اپنے جنگی جرائم کا اعتراف کریں۔ سچ وہی ہے جو آپ نے کہا ہے۔‘‘

Published: undefined

انس حقانی نے لکھا ہے، ''ہمارے معصوم لوگ آپ کے فوجیوں اور سیاسی لیڈروں کے لیے گرچہ شطرنج کے مہرے تھے۔ پھر بھی، آپ کو سفید اور سیاہ ”بساط" کے اس ”کھیل" میں شکست ہوئی۔‘‘

Published: undefined

حقانی نے مزید لکھا ہے، ''مجھے امید نہیں ہے کہ آئی سی سی (بین الاقوامی عدالت انصاف) آپ کو طلب کرے گی یا انسانی حقوق کے کارکن آپ کی مذمت کریں گے، کیونکہ آپ کے معاملے میں وہ بہرے اور اندھے ہیں لیکن امید ہے کہ انسانی تاریخ میں ان مظالم کو یاد رکھا جائے گا۔‘‘ انس حقانی کا کہنا تھا کہ شہزادے ہیری نے ہلمند میں 25 افغانوں کو ہلاک کرنے کے جس واقعے کا ذکر کیا ہے ان میں ایک بھی طالبان جنگجو نہیں تھا: ''اس سے یہ بالکل واضح ہے کہ وہ تمام عام شہری اورعام لوگ تھے۔‘‘

Published: undefined

انہوں نے مزید کہا، ''یہ دراصل افغانستان میں مغربی فوجی طاقتوں کے 20 سالہ جنگی جرائم کا ایک چھوٹا سا حصہ ہے۔ انہوں نے جس طرح کے جرائم کیے ہیں اس کی یہ مکمل تصویر نہیں ہے۔‘‘

Published: undefined

’افغان ان جرائم کو کبھی فراموش نہیں کریں گے‘

طالبان کے دیگر رہنماؤں نے بھی شہزادہ ہیری پر نکتہ چینی کی ہے اور مغربی فورسز کے ہاتھوں افغانوں کی ہلاکت کو جنگی جرائم قرار دیا۔ طالبان کی افغان وزارت خارجہ کے ترجمان عبدالقہار بلخی نے پرنس ہیری کے اعتراف پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے، ''افغانستان پر مغربی قبضہ حقیقتاً انسانی تاریخ کا ایک افسوس ناک دور ہے اور شہزادہ ہیری کے تبصرے قابض افواج کے ہاتھوں افغان باشندوں کو پہنچنے والے المیے کا ایک آئینہ ہیں، ان بے گناہوں کو انہوں نے کسی جواب دہی کے بغیر قتل کر دیا۔‘‘

Published: undefined

افغان حکومت کے ترجمان بلال کریمی نے بھی پرنس ہیری کے اعتراف پر تنقید کی ہے۔ انہوں نے ایک ٹوئیٹ میں لکھا، ''اس طرح کے جرائم صرف ہیری تک محدود نہیں ہیں بلکہ ہر قابض ملک کی ہمارے ملک میں اسی طرح کے جرائم انجام دینے کی تاریخ ہے۔‘‘ انہوں نے مزید لکھا، ''افغان، قابضین کے ان جرائم کو کبھی فراموش نہیں کریں گے اور جب تک زندہ ہیں اپنے مذہب اور ملک کی حفاظت کے لیے لڑتے رہیں گے۔‘‘

Published: undefined

برطانیہ کا تبصرہ کرنے سے انکار

برطانوی وزارت دفاع نے پرنس ہیری کے بیانات پر کوئی تبصرہ کرنے سے انکار کردیا۔ برطانیہ کے شاہ چارلس اور ولی عہد ولیم کے ترجمان نے بھی تبصرہ کرنے سے انکار کردیا ہے۔ ایک سابق برطانوی فوجی افسر ریٹائرڈ کرنل رچرڈ کیمپ نے کہا کہ پرنس ہیری نے ہلاکتوں کے بارے میں انکشاف کر کے غلط کیا۔ اس سے ان کی ساکھ خراب ہوئی ہے اور انہوں نے اپنی سلامتی کو خطرے میں ڈال دیا ہے کیونکہ ان کا بیان لوگوں کو بدلہ لینے پر اکسا سکتا ہے۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined