سماج

منی پور تشدد کی رپورٹ شائع کرنے پر صحافیوں کے خلاف مقدمہ

صحافیوں کی کمیٹی نے منی پور کا دورہ کرکے وہاں تشدد کے دوران میڈیا کے کردار پر رپورٹ شائع کی تھی۔ ریاست کی بی جے پی حکومت نے صحافیوں پر ہی کیس دائر کر دیا لیکن سپریم کورٹ نے انہیں عارضی راحت دے دی۔

منی پور تشدد کی رپورٹ شائع کرنے پر صحافیوں کے خلاف مقدمہ
منی پور تشدد کی رپورٹ شائع کرنے پر صحافیوں کے خلاف مقدمہ 

سپریم کورٹ نے بھارتی صحافیوں کی تنظیم ایڈیٹرز گلڈ آف انڈیا کی عرضی پر بدھ 6 ستمبر کو ہنگامی سماعت کرتے ہوئے ہوئے اس کے چار اراکین کے خلاف کسی بھی طرح کی پولیس کارروائی پر فوری روک لگانے کا حکم دیتے ہوئے کیس کی سماعت 11ستمبر تک کے لیے ملتوی کردی۔

Published: undefined

منی پور کی بی جے پی حکومت نے ایڈیٹرز گلڈ آف انڈیا کے چار عہدیداروں کے خلاف 'دو فرقوں کے درمیان منافرت پیدا کرنے'سمیت کئی الزامات کے تحت دو کیس دائر کیے تھے۔ منی پور کے وزیر اعلی این بیرین سنگھ نے کہا تھا کہ ریاست میں 'تشدد کے لیے مشتعل کرنے' کے الزام میں گلڈ کے صدر اور تین اراکین کے خلاف کیس دائر کیے گئے ہیں۔ ان لوگوں کے خلاف ایک دوسرا کیس ہتک عزت کے سلسلے میں بھی دائر کیا گیا تھا۔

Published: undefined

سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ کی صدارت والی تین رکنی بنچ نے اس حوالے سے ایک عرضی پر سماعت کرتے ہوئے چاروں صحافیوں کو عارضی راحت دے دی۔

Published: undefined

'منی پور حکومت کا اقدام صحافیوں کو ڈرانے کی کوشش ہے'

پریس گلڈ آف انڈیا کے اراکین کے خلاف منی پور حکومت کی جانب سے مقدمہ درج کرانے کی بھارت کی متعدد صحافتی تنظیموں نے شدید مذمت کی ہے۔ پریس کلب آف انڈیا کے صدر اوما کانت لکھیڑا نے ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ایسے وقت میں جب کہ تشدد زدہ منی پور میں امن وامان بحال کرنا ریاستی حکومت کی اولین ذمہ داری ہونی چاہئے اس وقت وہ حقائق کو کچلنے کی قصداً کوشش کررہی ہے۔ وہ قصورواروں کے خلاف کارروائی کرنے کے بجائے حقائق کو منظر عام پر لانے والوں کو ہی نشانہ بنا رہی ہے۔

Published: undefined

انہوں نے پریس گلڈ آف انڈیا کی کوششوں کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ بیرین سنگھ حکومت کا اقدام صحافیوں کو ڈرانے دھمکانے کی کوشش ہے۔ جس کی پرزور مذمت کی جانی چاہئے۔ دہلی یونین آف جرنلسٹس نے بھی منی پور حکومت کے اقدام کی مذمت کی ہے۔ اس نے ایک بیان میں مطالبہ کیا کہ چاروں صحافیوں کے خلاف ایف آئی آر فوراً واپس کی جائے۔ پریس کلب آف ممبئی، انڈین وومن پریس کارپس نے بھی صحافیوں کے خلاف کارروائی کی مذمت کی ہے۔

Published: undefined

کیا ہے معاملہ؟

پریس گلڈ آف انڈیا کے عہدیداروں سیما گوہا، سنجے کپور، بھارت بھوشن اور اس کی صدر سیما مصطفی نے اگست کے پہلے ہفتے میں منی پور کا دورہ کیا اور متعدد صحافیوں، سول سوسائٹی کے اراکین، تشدد سے متاثرہ خواتین، قبائلی رہنماوں اور سیکورٹی فورسز کے نمائندوں سے ملاقاتیں کیں۔ انہوں نے اپنی تفتیش کی بنیاد پر 24صفحات پر مشتمل ایک رپورٹ 2ستمبر کو جاری کی لیکن اس کے بعض نتائج پر منی پور حکومت نے سخت اعتراض کیا اور چاروں صحافیوں کے خلاف کیس دائر کردیا۔

Published: undefined

دراصل رپورٹ شائع ہونے کے بعد منی پور کے ایک شخص نے شکایت کی کہ رپورٹ میں جس جلتے ہوئے مکان کو کوکی قبیلے کے ایک شخص کا بتایا گیا ہے وہ ریاستی حکومت کے ایک محکمے کا دفتر تھا۔ ایڈیٹرز گلڈ نے اپنی بھول تسلیم کرتے ہوئے ترمیم شدہ رپورٹ ایکس پر شائع کی۔ لیکن وزیر اعلیٰ بیرین سنگھ نے پریس کانفرنس طلب کرکے ان صحافیوں پر کیس دائر کرنے کا اعلان کردیا۔

Published: undefined

رپورٹ میں کیا کہا گیا ہے؟

رپورٹ میں گلڈ نے تشدد کے دوران ریاست کی قیادت پر جانبداری کا الزام لگایا ہے۔ رپورٹ کے مطابق حکومت نے ایک فریق کا ساتھ دیا اور اپنی ذمہ داری نہیں نبھائی۔ رپورٹ کے مطابق"آج حال یہ ہے کہ ریاستی دارالحکومت امپھال میں اب ایک میتئی سرکار، میتئی پولیس اور میتئی بیوروکریسی ہے اور پہاڑوں میں رہنے والے کوکی قبائل کو ان پر ذرا بھی بھروسہ نہیں ہے۔"

Published: undefined

رپورٹ میں واضح طورپر کہا گیا ہے کہ منی پور میں تشدد کے دوران ریاست کے صحافیوں نے یک طرفہ رپورٹیں لکھیں، جنہیں ان کے مدیران نے مقامی انتظامیہ، پویس اور دیگر سکیورٹی فورسز کے ساتھ بات کرکے دوبارہ تصدیق نہیں کی۔ رپورٹ کے مطابق حالانکہ تشدد کی وجہ سے یہ ممکن بھی نہیں تھا۔

Published: undefined

منی پور میں میڈیا کے منظر نامے کا ذکر کر تے ہوئے بتایا گیا ہے کہ سب سے زیادہ میڈیا ادارے میتئی اکثریتی علاقے امپھال میں ہیں اور تشدد کے دوران یہ "میتئی میڈیا"میں تبدیل ہوگیا تھا۔انٹرنیٹ بند ہونے کی وجہ سے پہاڑی علاقوں میں رہنے والے صحافیوں کے لیے اپنے دفتر سے رابطہ کرنا ممکن نہیں تھا۔لیکن اگر ان کی رپورٹ کسی طرح پہنچ بھی جاتی تھی تو اخبارات اس کے مخصوص حصوں کو ہی اخبارات استعمال کرتے تھے۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined