سماج

یونان، سیکنڈ ہینڈ کتابیں بے گھروں کا سہارا کیسے بنیں؟

یونان کے اقتصادی بحران کے نتیجے میں بے گھر ہونے والے سینکڑوں افراد میں ستر سالہ لیوناڈوس کورسومیس بھی تھے۔ اپنی کوششوں اور محنت سے انہوں نے اپنا کھویا ہوا وقار بحال کر لیا۔

یونان، سیکنڈ ہینڈ کتابیں بے گھروں کا سہارا کیسے بنیں؟
یونان، سیکنڈ ہینڈ کتابیں بے گھروں کا سہارا کیسے بنیں؟ 

یونان میں سن دو ہزار نو میں شروع ہونے والے اقتصادی بحران کی وجہ سے ملکی معیشت کو انتہائی نقصان پہنچا، جس کی وجہ سے لوگوں کی ایک بڑی تعداد نہ صرف بے روزگار ہوئی بلکہ بہت سے لوگ سڑکوں پر پہنچ گئے۔

Published: undefined

انہی افراد میں ستر سالہ لیوناڈوس کورسومیس بھی تھے، جو سترہ برس تک ایک اشاعتی ادارے سے منسلک تھے۔ اقتصادی بحران کی وجہ سے وہ بھی اپنی نوکری سے محروم ہو گئے۔ اگرچہ ان کے پاس کچھ رقوم تھیں لیکن وہ جلد ہی ختم ہو گئيں۔ وہ کہتے ہیں کہ کسمپرسی کی حالت میں انہوں نے کئی راتیں سڑکوں پر سو کر بھی گزاریں۔ لیکن وہ تب بھی بلند حوصلے رکھتے تھے اور کچھ کرنے کے لیے پرعزم تھے۔

Published: undefined

کورسومیس نے ارادہ کیا کہ وہ سیکنڈ ہینڈ کتابوں کا ایک اسٹور بنائیں گے، جہاں صرف بے گھر افراد کو کام ملے گا۔ یہ ایک بڑا خواب تھا، جسے حقیقت میں بدلنا انتہائی مشکل تھا۔

Published: undefined

ایتھنز کے مرکز برائے یک جہتی اور استقبال KYADA کی صدر ایلنی کاٹسولی کے مطابق، ''شروع میں بے گھر ہونے والوں میں ستر فیصد غیر ملکی اور تیس فیصد یونانی تھے۔‘‘ انہوں نے بتایا کہ سن دو ہزار پندرہ کے بعد اس بحران میں مزید شدت پیدا ہوئی۔ ان کے مطابق بیل آؤٹ پیکج اور حکومتی بچتی اقدامات کی وجہ سے لوگ اور زیادہ غریب ہو گئے اور ملازمتیں ختم ہونے کے بعد ان میں سے بہت سے سڑکوں پر پہنچ گئے۔

Published: undefined

یورپی فیڈریشن آف نیشنل آرگنائزیشنز کی طرف سے سن دو ہزار سترہ میں جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق صرف یونان کے آٹیکا ریجن بشمول ایتھنز میں بے گھر افراد کی تعداد کم از کم پندرہ ہزار تھی۔ تاہم ایسے افراد کی حقیقی تعداد کیا ہے، اس بارے میں مصدقہ معلومات نہیں ہیں۔

Published: undefined

لیوناڈوس کورسومیس نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو میں کہا کہ اس صورتحال نے ان کی زندگی کو بہت متاثر کیا اور وہ ڈپریشن کا شکار ہو گئے۔ وہ ایتھنز کی سڑکوں پر گھومتے اور ایسی استعمال شدہ کتابیں جمع کرتے، جو لوگ اپنے گھروں کے باہر رکھ دیتے تھے۔ وہ انہیں بیچ کر اپنا گزارہ کرنے لگے۔ پھر انہیں خیال آیا کہ وہ سیکنڈ ہینڈ کتابوں کی ایک دکان قائم کریں۔ اس دوران وہ ایسے بے گھر لوگوں سے بھی ملے، جو ان کے ساتھ سڑکوں پر سونے پر مجبور تھے۔

Published: undefined

کورسومیس نے فیس بک پر مہم شروع کی کہ لوگ انہیں استعمال شدہ کتابیں دیں تاکہ وہ ایک بک اسٹور قائم کر سکیں۔ انہوں نے فیس بک پر لکھا کہ وہ بے گھر افراد کے لیے ملازمتوں کا انتظام کرنا چاہتے ہیں۔ ان کا یہ منصوبہ کامیاب ثابت ہوا اور فیس بک ڈونرز نے انہیں پہلے دن ہی نو سو کتابیں ارسال کر دیں۔

Published: undefined

اس دوران یونانی میڈیا نے بھی ان کے اس منصوبے پر رپورٹنگ شروع کر دی اور انہیں شہرت ملنے لگی۔ یوں کورسومیس کی کہانی جلد ہی یونان بھر میں مقبول ہو گئی۔ یونان کے باشندوں کی ایک بڑی تعداد نے کورسومیس کی مدد کرنا شروع کر دی اور یوں وہ ایک اسٹور قائم کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ دیکھتے ہی دیکھتے ان کو کتابوں کے انبار پہنچنے لگے اور ان میں نئی کتابیں بھی شامل تھیں۔

Published: undefined

کورسومیس کے مطابق اب ان کے پاس فروخت کے لیے پچاس ہزار کتابیں موجود ہیں۔ وہ مطمئن ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ اب وہ اور ان کے بے گھر ساتھی اپنا کھویا ہوا وقار بحال کر سکتے ہیں۔ اب ان کے خواب مزید بڑے ہو چکے ہیں۔ وہ بے گھر افراد کے لیے ایک کمیونٹی سینٹر قائم کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں، جس کا انتظام بے گھر افراد کے پاس ہی ہو گا۔

Published: undefined

کورسومیس کا کہنا ہے کہ وہ بے گھر لوگوں کی مدد کا سلسلہ جاری رکھیں گے، ''میں جو کچھ بھی کر رہا ہوں، وہ اس لیے کہ مجھے ان لوگوں سے پیار ہے، جنہیں میں گزشتہ برسوں کے دوران سڑکوں پر ملا۔ یہ کام میں اپنے لیے نہیں کر رہا کہ اپنی حالت بہتر کر سکوں بلکہ میرا یہ منصوبہ انہی بے گھر لوگوں کے لیے ہے۔‘‘

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined