سماج

بیروت دھماکے کو دو سال گزر گئے لیکن متاثرین کے ورثاء ابھی تک انصاف سے محروم

دو سال قبل بیروت کی بندرگاہ پر ہونے والے تباہ کن دھماکے میں دو سو افراد ہلاک اور دیگر چھ ہزار زخمی ہوئے تھے لیکن متاثرین کے ورثاءابھی تک انصاف سے محروم۔

بیروت دھماکے کو دو سال گزر گئے لیکن متاثرین کے ورثاء ابھی تک انصاف سے محروم
بیروت دھماکے کو دو سال گزر گئے لیکن متاثرین کے ورثاء ابھی تک انصاف سے محروم 

چار اگست 2020ء کو ہونے والے بیروت کی بندرگاہ کے دھماکے میں کل 216 افراد ہلاک اور 6000 افراد زخمی ہوئے اور آس پاس کے محلوں میں تقریباً تین لاکھ لوگوں کے گھر اجڑ گئے۔ دوسری برسی سے صرف چار روز قبل اسی مقام پر اناج کے ایک گودام کا ایک حصہ تباہ ہو گیا تھا۔ اس مرتبہ کوئی ہلاکت تو نہیں ہوئی مگر گوداموں کا ایک حصہ منہدم ہونے کی آواز ایک دھماکے کی طرح ہی فضا میں گونج رہی تھی۔ دھویں اور آگ کے مناظر نے متاثرین کے ورثاء کے ذہنوں میں دو سال قبل پیش آنے والے سانحے کی ایک مرتبہ پھر یاد تازہ کردی۔

Published: undefined

اس تازہ واقعے کے بعد بیروت کے ایک شہری ولیم نون نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''مجھے ہرگز ایسا نہیں لگتا کہ دو سال گزر چکے ہیں۔‘‘ بیروت دھماکے میں دو سال قبل نون کے بھائی کی موت ہوگئی تھی۔ ''میرے دل میں آج بھی وہی تکلیف موجود ہے جو میں پہلے دن محسوس کر رہا تھا۔‘‘

Published: undefined

متاثرین اناج کے گودام کو بطور یادداشت قائم رکھنا چاہتے تھے

تقریباً 50 میٹر بلند اناج کے گوداموں کے ایک حصے کا گرنا کوئی حیران کن بات نہیں تھی۔ خمیر شدہ گندم میں آگ لگنے کے بعد تین ہفتوں سے اناج میں آگ کے شعلے بھڑک رہے تھے۔ تاہم لبنان کے وزیر ٹرانسپورٹ علی حمیح نے ڈی ڈبلیو کو دیے گئے ایک انٹرویو میں حکومت کے غیر فعال ہونے کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا، ''ماہرین نے ہمیں تصدیق کی ہے کہ اناج کو اس گودام سے نکالنا ناممکن ہے، جس کے گرنے کا خطرہ ہے۔‘‘ تاہم حکومت اس کے مزید مستحکم حصے کو محفوظ رکھنے کی کوشش کرے گی۔

Published: undefined

عدالتوں نے پہلے ہی اپریل میں حفاظتی وجوہات کی بنا پر گودام کو منہدم کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ لیکن متاثرین کے لواحقین نے اس فیصلے کے خلاف اپیل کی تھی۔ کیونکہ اس کے اندر ایسے شواہد مل سکتے ہیں جو عدالت میں استعمال کیے جاسکتے ہیں - اور بہت سے لبنانی باشندوں کے لیے یہ گودام حکمران اشرافیہ کی بدعنوانی اور اقربا پروری کی علامت بھی ہے۔ مبصرین کا خیال ہے کہ مالی بدعنوانی نے ہی ملک کو معاشی طور پر کھائی میں دھکیل دیا ہے۔

Published: undefined

لبنان میں اقتصادی بحران

لبنانی پاؤنڈ ایک سال سے زائد عرصے سے گراوٹ کا شکار ہے۔ آبادی کا ایک بڑے حصہ غربت کا شکار ہے اور یوکرین میں جنگ کے نتیجے میں خدشہ ہے کہ ملک میں جلد ہی خوراک کی قلت پیدا ہو سکتی ہے۔ جرمنی کی ہائنرش بول فاؤنڈیشن کے بیروت میں واقع دفتر کی سربراہ اینا فشر نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''بیکریوں کے سامنے پہلے ہی لمبی قطاریں لگی ہوئی ہیں۔‘‘ وہ سمجھتی ہیں کہ لبنان کو واضح طور پر صرف ایک بحران کا سامنا نہیں ہے بلکہ یہ ملک ایک ''مکمل تباہی‘‘ کا سامنا کر رہا ہے۔ اینا فشر کے مطابق ملک کو بچانے اور سیاست میں شہریوں کا اعتماد بحال کرنے کے لیے معمولی اقدامات کے بجائے دور رس اصلاحات کی ضرورت ہے۔

Published: undefined

بیروت دھماکے کی تحقیقات میں رکاوٹیں

معاملات کو مزید خراب کرنے کے لیے سال رواں کے عام انتخابات میں بھی پارلیمنٹ میں کسی جماعت کو واضح اکثریت نہیں مل سکی، جس سے نئی حکومت کی تشکیل اور شاید نئے صدر کے انتخاب میں بھی تاخیر ہوگی۔ ماہرین نئے صدر کی جانب سے بیروت دھماکے کی تحقیقات آگے بڑھانے میں دلچسپی پر تحفظات ظاہر کرتے ہیں۔ مشرق وسطیٰ کے امور کے ماہر محمد حیج کا کہنا ہے، ''آئندہ صدر کے عہدے کے ممکنہ امیدوار سلیمان فرنجی ہوں گے اور وہ سابق وزیر ٹرانسپورٹ یوسف فینیانوس کو تحفظ فراہم کریں گے جو کہ بندرگاہ دھماکے کی تحقیقات میں مطلوب ہیں۔‘‘

Published: undefined

دوسری جانب بااثر حزب اللہ ملیشیا اور خاص طور پر اس کے اتحادیوں کی طرف سے اب تک منظم طریقے سے تحقیقات میں رکاوٹیں کھڑی کی جارہی ہیں۔ لہٰذا دھماکے میں بچ جانے والے افراد آہستہ آہستہ مکمل تحقیقات کی امید کھو رہے ہیں۔

Published: undefined

''تکلیف اور غصے کے دو سال‘‘

میلوین خوری کے کندھے اور چہرے پر دھماکے کے دوران شدید چوٹیں آئی تھیں۔ انہوں نے بیروت میں ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''گزشتہ دو سال شدید درد اور غصے سے بھرے تھے۔‘‘

Published: undefined

انہیں اس بات پر یقین نہیں آتا کہ ''جب متاثرہ افراد ہسپتالوں میں اپنے زخموں پر مرہم پٹی کرا رہے ہیں تو اسی دوران اس تکلیف کے ذمہ داران انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔‘‘ دو سال گزرنے کے بعد بھی وہ دھماکے کے صدمے سے نہیں نکل سکیں۔

Published: undefined

انسانی حقوق کی تنظیموں نے بیروت کی بندرگاہ پر دھماکے کی تحقیقات کا مطالبہ کر رکھا ہے۔ ہیومن رائٹس واچ کی مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ کے لیے ڈائریکٹر لاما فاکیہ کہتی ہیں کہ دو سال گزر جانے کے بعد دھماکے کے اثرات وسیع پیمانے پر محسوس کیے جا رہے ہیں کیونکہ متاثرین کے پاس ابھی تک کوئی جواب نہیں ہے۔‘‘

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined