دنیا بھر کے ایسے انسانوں کے لیے، جنہیں پہلے ہی سے ذہنی اور نفسیاتی مسائل کا سامنا تھا، کورونا وائرس کی وجہ سے لگنے والی بیماری کووِڈ انیس کی عالمی وبا ایک بڑا چیلنج ثابت ہوئی ہے۔
Published: undefined
خود کشی کی روک تھام کے جمعرات دس ستمبر کو منائے جانے والے عالمی دن کی مناسبت سے ماہرین کی طرف سے اس بات پر زور دیا جا رہا ہے کہ وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے سماجی سطح پر فاصلے رکھنا ناگزیر تو ہے، مگر اس کا مطلب یہ نہیں ہونا چاہیے کہ عام لوگ معاشرتی طور پر ایک دوسرے سے بالکل کٹ کر رہ جائیں۔
Published: undefined
Published: undefined
نفسیاتی ماہرین کے مطابق کورونا وائرس کی عالمی وبا کو دنیا بھر میں پھیلے کئی ماہ ہو چکے ہیں اور آج بھی یہ بات یقین سے نہیں کہی جا سکتی کہ اس وبا پر کب تک قابو پایا جا سکے گا۔ ایسے میں عام انسانوں کا سماجی طور پر ایک دوسرے کے پاس نہیں تو ایک دوسرے کے لیے موجود ہونا اس وجہ سے بہت اہم ہے کہ بے شمار انسانوں کو موجودہ حالات میں خود کشی سے جڑے خیالات اور ذہنی دباؤ کا بھی سامنا ہے۔
Published: undefined
جرمنی میں خود کشی کی روک تھام کے قومی پروگرام کی شریک سربراہ ڈاکٹر باربرا شنائڈر نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا، ''اہم ترین بات یہ ہے کہ حالات کیسے بھی ہوں، عام لوگوں کو، ہم سب کو، یہ احساس رہنا ہی چاہیے کہ ہم سب آج بھی ایک دوسرے کے لیے موجود ہیں۔‘‘
Published: undefined
Published: undefined
دس ستمبر کو ہر سال دنیا بھر میں خود کشی کی روک تھام کا دن WSPD منایا جاتا ہے، جس کا اہتمام خود کشی کے تدارک کی عالمی تنظیم IASP کرتی ہے۔ یہ تنظیم یہ عالمی دن عالمی ادارہ صحت کے تعاون سے مناتی ہے۔ اس دن کو منانے کا مقصد ان انسانوں کی موت کا سوگ منانا ہوتا ہے، جو آج تک خود کشی کر چکے ہیں۔
Published: undefined
لیکن یہ دن منانے کا اس سے بھی زیادہ اہم مقصد بین الاقوامی سطح پر خود کشی کے رجحان کی روک تھام بھی ہے، جس دوران عالمی سطح پر یہ ترغیب بھی دی جاتی ہے کہ عام لوگوں کو سماجی سطح پر ہمیشہ ایک دوسرے کا دھیان بھی رکھنا چاہیے۔
Published: undefined
Published: undefined
جرمنی کی ڈاکٹر باربرا شنائڈر کہتی ہیں، ''کورونا وائرس کی وبا کے دنوں میں ہم سب جانتے ہیں کہ ہم اپنے پیاروں کے پاس جا کر انہیں نہ مل سکتے ہیں نہ انہیں گلے لگا سکتے ہیں۔ لیکن اس سے بہت زیادہ فرق نہیں پڑتا۔ اس لیے انسانوں کے لیے یہ احساس زیادہ ضروری ہوتا ہے کہ جسمانی طور پر نہیں تو ان کے عزیز، اقرباء اور دوست کم از کم جذباتی طور پر اور ضرورت کے لمحے میں اپنی محبت کے ساتھ ہمیشہ ان کے ہمراہ ہوتے ہی ہیں۔‘‘ ڈاکٹر شنائڈر کے بقول، ''ہم سب کے لیے یہ احساس بہت زیادہ ہمت اور حوصلہ دینے والا ہوتا ہے کہ ہم دوسرے لوگوں کے لیے اہم ہیں اور دوسرے ہماری فکر کرتے ہیں۔‘‘
Published: undefined
Published: undefined
مسلمہ اعداد و شمار کے مطابق دنیا میں ہر سال تقریباﹰ آٹھ لاکھ انسان خود کشی کر لیتے ہیں۔ ان بہت ناامید ہو جانے والے انسانوں میں ایسے خواتین و حضرات بھی ہوتے ہیں جو بظاہر بڑے بڑے خاندانوں کے رکن ہوتے ہیں اور جن کے بارے میں کوئی یہ نہیں سوچتا کہ وہ بھی شدید حد تک تنہائی اور ناامیدی کا شکار ہو سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ اپنی جان لے لینے والے ایسے انسانوں میں بہت بڑی تعداد میں ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں، جو اکیلے زندگی بسر کر رہے ہوتے ہیں۔
Published: undefined
اس سے بھی زیادہ تکلیف دہ بات یہ ہوتی ہے کہ انسانی خود کشی کا ہر واقعہ خود کشی کرنے والے انسان سے خاندانی، سماجی اور روزگار کی وجہ سے تعلق رکھنے والے اوسطاﹰ 135 دیگر افراد کو بھی بری طرح متاثر کرتا ہے۔ اس طرح خود کشی کا عمل ہر سال مجموعی طور پر 108 ملین انسانوں کو متاثر کرتا ہے۔
Published: undefined
Published: undefined
بین الاقوامی سطح پر مختلف ممالک کے شہریوں میں خود کشی کے رجحان کی شرح بھی مختلف ہے۔ جرمنی میں گزشتہ چند عشروں کے دوران خود کشی کی وجہ سے انسانی اموات میں کافی کمی ہوئی ہے۔
Published: undefined
اس کے باوجود جرمنی میں آج بھی خود کشی کرنے والوں کی سالانہ تعداد سڑکوں پر ٹریفک حادثات میں اور منشیات کے استعمال کی وجہ سے انسانی ہلاکتوں کی مجموعی تعداد سے بھی زیادہ بنتی ہے۔
Published: undefined
جرمنی میں اس بارے میں تازہ ترین لیکن حتمی سالانہ اعداد و شمار 2018ء کے ہیں۔ دو سال قبل یورپی یونین کے اس سب سے زیادہ آبادی والے ملک میں 9,300 افراد نے خود کشی کی تھی۔
Published: undefined
Published: undefined
جرمنی سمیت مغربی دنیا کے درجنوں ممالک میں ٹیلی فون اور انٹرنیٹ کے ذریعے ایسی آن لائن مدد کے امکانات گزشتہ کئی عشروں سے دستیاب ہیں، جن کے ذریعے خود کشی کرنے کے بارے میں سوچنے والے شہری فوری طور پر مدد اور رہنمائی حاصل کر سکتے ہیں۔
Published: undefined
ماہرین کا کہنا ہے کہ کسی بھی خود کشی کی صرف کوئی ایک وجہ نہیں ہوتی بلکہ یہ عمل ہمیشہ کئی مختلف عوامل کے اثرات کا مجموعہ ہوتا ہے۔ ڈاکٹر باربرا شنائڈر کے مطابق خود کشی کے خطرے سے دوچار افراد کو باقی تمام انسانوں کی طرح ایک بات کا ہمیشہ علم بھی ہونا چاہیے اور یقین بھی: ''رابطہ کیجیے، بات کیجیے، مدد ممکن ہے۔‘‘
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined