سماج

کپتان کے فوج کے حوالے سے نئے انکشافات، حقائق یا سیاسی چال؟

عمران خان کے فوج سے متعلق تازہ انکشافات کو کئی سیاسی مبصرین غیر دانشمندانہ قرار دے رہے ہیں جب کہ کچھ اس کو سیاسی چال سے تعبیر کر رہے ہیں۔ تاہم پی ٹی آئی ان انکشافات کو حقائق کی عکاسی قرار دیتی ہے۔

کپتان کے فوج کے حوالے سے نئے انکشافات، حقائق یا سیاسی چال؟
کپتان کے فوج کے حوالے سے نئے انکشافات، حقائق یا سیاسی چال؟ 

سابق وزیر اعظم عمران خان نے یہ انکشاف کیا ہے کہ فوج چاہتی تھی کہ اقوام متحدہ میں یوکرائن کے مسئلے پر پاکستان روس کے خلاف ووٹ دے جب کہ ان کا اصرار یہ تھا کہ رائے شماری سے اجتناب کرنا پاکستان کا بہترین آپشن ہے۔

Published: undefined

غیر دانشمندانہ رویہ

واضح رہے کہ صدر عارف علوی کے بارے میں یہ خیال کیا جاتا ہے کہ وہ جی ایچ کیو اور پی ٹی آئی کے درمیان صلح صفائی کرانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ لاہور سے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگار سہیل وڑائچ کا کہنا ہے کہ ایک ایسے موقع پر جب صلح صفائی کی کوششیں ہورہی ہوں، تو عمران خان کو ایسے غیر دانشمندانہ بیانات نہیں دینے چاہیے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''عمران خان نے پہلے بھی جنرل باجوہ سے اپنی ملاقات کے حوالے سے بیانات دیے، جس کا اچھا تاثر نہیں گیا اور اب جب عارف علوی کوششیں کر رہے ہیں، تو یہ بیان سامنے آ گیا، جو دانشمندانہ نہیں ہے۔ عمران خان کو سوچ سمجھ کر بیانات دیے چاہیں۔‘‘

Published: undefined

سہیل وڑائچ کے مطابق ایسے بیانات سے مصالحت کے امکان کم ہو سکتے ہیں، ''اگر سابق وزیراعظم یہ چاہتے ہیں کہ ان کے اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان تعلقات بہتر ہوں، تو پھر انہیں تحمل سے کام لینا چاہیے اور جارحانہ بیانات سے اجتناب کرنا چاہیے۔‘‘

Published: undefined

دونوں سیاسی چالیں چل رہے ہیں

کچھ ناقدین کا خیال ہے کہ سیاسی مذاکرات کے دوران بیان بازی چلتی رہتی ہے۔ ایریا اسٹڈی سینٹر پشاور یونیورسٹی کے سابق سربراہ ڈاکٹر سرفراز خان کا کہنا ہے کہ عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ دونوں سیاسی چالیں چل رہے ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''یہ ممکن ہے کہ پس پردہ جو بات چیت ہو رہی ہے، اس میں نیشب وفراز آرہے ہوں۔ یہ بیانات اسی اونچ نیچ کی عکاسی بھی کرتے ہیں۔ یہ سودے بازی کے حربے بھی ہو سکتے ہیں۔ ایسے بیانات آرمی چیف کی تقرری تک چلتے رہیں گے۔‘‘

Published: undefined

حقیقت کی عکاسی

پی ٹی آئی کا کہنا ہے کہ عمران خان کے انکشافات اور بیانات بالکل حقیقت کی عکاسی کرتے ہیں۔ پارٹی کے ایک رہنما اور سابق رکن سندھ اسمبلی فردوس شمیم نقوی نے اس حوالے سے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''عمران خان کے انکشافات حقیقت پر مبنی ہیں اور ان میں کوئی تضاد نہیں ہے۔ اگر عمران خان کہہ رہے ہیں کہ فوج کے پاس بہت سارے اختیارات تھے، تو یہ بات غلط نہیں ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ایک نیا عمرانی معاہدہ ہو اور اس میں یہ طے کیا جائے کہ جو آرمی کی آئینی حیثیت ہے وہ اسی حیثیت میں کام کرے۔‘‘

Published: undefined

فردوس شمیم نقوی کے مطابق، ''ہم ایک ایسا ہی جمہوری نظام چاہتے ہیں، جس میں وزیراعظم کے پاس سارے اختیارات ہوں کیونکہ وزیراعظم اور منتخب اراکین عوام کے سامنے جواب دے ہیں۔‘‘

Published: undefined

آرمی چیف سیکریٹری دفاع کو جواب دے ہونا چاہیے

فردوس شمیم نقوی کے مطابق دنیا بھر میں آرمی چیف سویلین حکومت کے ماتحت ہوتا ہے، ''آئینی حیثیت یہ ہے کہ چیف آف دی آرمی اسٹاف سیکرٹری دفاع کو جواب دہ ہے اور سیکریٹری دفاع وزیر دفاع کو جواب دے ہے۔ ہم کوئی ایسا کام نہیں کریں گے جو آئین کے خلاف اور آئین سے ماورا ہو۔‘‘

Published: undefined

اختیارات کا رونا

کئی ناقدین کا یہ کہنا ہے کہ سیاست دان جب اقتدار میں ہوتے ہیں، تو یہ نہیں کہتے کہ وہ باس نہیں ہیں لیکن جیسے ہی وہ اقتدار سے نکلتے ہیں۔ شکایات کے انبار لگا دیتے ہیں۔ سہیل وڑائچ کا کہنا تھا کہ پاکستان میں اب یہ روایت بن گئی ہے کہ جب کوئی سیاستدان اقتدار میں ہوتا ہے، تو کہتا ہے کہ سارے اختیارات اس کے پاس ہیں، ''لیکن جیسے ہی وہ اقتدار سے نکلتا ہے تو وہ اختیار نہ ہونے کا رونا روتا ہے۔ عمران خان ماضی میں کہتے رہے کہ ان کے پاس سارے اختیارات تھے اور اب وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ اختیارات فوج کے پاس تھے اور وہ بہت طاقتور تھی۔‘‘

Published: undefined

ایریا اسٹڈی سینٹر پشاور یونیورسٹی کے سابق سربرا سرفراز خان کا مزید کہنا ہے اس بات میں حقیقت ہے کہ پاکستان میں کبھی بھی سیاسی جماعتوں کو اختیار نہیں دیا جاتا، ''جنرل ضیاء کے دور سے لے کر آج تک اسٹیبلشمنٹ سیاسی جماعتوں کے ساتھ شراکت اقتدار کرتی ہے اور سیاست میں مداخلت کرتی ہے۔ اسی کے نتیجے میں انہوں نے بے نظیر بھٹو، نواز شریف اور عمران خان کو نکالا۔‘‘

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined