سماج

توہین مذہب و رسالت کے مقدمات کا ریکارڈ اندراج

پاکستان میں توہین مذہب و توہین رسالت کے قانون کے غلط استعمال کی وجہ سے کئی قابل افسوس واقعات رونما ہوئے، جس میں مِشال خان کی سرعام ہلاکت اور حال ہی میں خوشاب علاقے میں ایک بینک مینیجر کا قتل ہے۔

علامتی فائل تصویرآئی اےاین ایس
علامتی فائل تصویرآئی اےاین ایس 

ایسے افسوناک واقعات رونما ہونے کے باوجود بھی ملک میں توہین مذہب اور توہین رسالت کے مقدمات کے اندراج میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کا دعویٰ اس طرح کے زیادہ تر مقدمات ذاتی عناد و رنجش یا جائیداد کی جھگڑوں کی وجہ سے درج کئے جاتے ہیں۔

Published: undefined

اعداد و شمار بتاتی تازہ رپورٹ

Published: undefined

سینٹر فار سوشل جسٹس کی ایک تازہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دوہزار بیس میں توہین مذہب و توہین رسالت کے ریکارڈ مقدمات درج ہوئے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مجموعی طور پر گزشتہ برس دوسو مقدمات درج ہوئے جب کہ سن انیس و ستاسی سے دوہزار بیس تک مجموعی مقدمات کی تعداد اٹھارہ سو ہے۔ دو ہزار بیس میں درج ہونے والے یہ مقدمات کسی بھی سال کے حساب سے سب سے زیادہ ہیں۔

Published: undefined

توہین مذہب و توہین رسالت کے ان مقدمات میں سے ستر فیصد شیعہ مسلمانوں کے خلاف، پانچ فیصد سنی مسلمانوں کے خلاف، تین فیصد مسیحیوں کے خلاف، ایک فیصد ہندووں کے خلاف جب کہ صفر اعشاریہ پانچ فیصد ایسے افراد کے خلاف درج ہوئے ہیں، جن کی مذہبی شناخت معلوم نہیں ہو سکی۔

Published: undefined

فرقہ وارانہ رنگ

Published: undefined

پاکستان کے حوالے سے عام تاثر یہ ہے کہ اس طرح کے زیادہ تر مقدمات ملک کی مذہبی اقلیتوں کے خلاف بنتے ہیں لیکن انسانی حقوق کی تنظیموں کا دعویٰ ہے کہ اس طرح کے مقدمات کی ایک بڑی تعداد مسلمانوں کے ہی خلاف ہے۔ تاہم دو ہزار بیس میں ان مقدمات کا ایک فرقہ وارانہ رنگ بھی نظر آرہا ہے۔

Published: undefined

سینٹر فار سوشل جسٹس کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر پیٹر جیکب کا کہنا ہے کہ ان مقدمات کا ایک فرقہ وارانہ رنگ ہے۔ ''زیادہ تر مقدمات جولائی اور ستمبر کے درمیان میں درج ہوئے ہیں، جو محرم سے پہلے یا اس کے بعد کے ہیں۔ تو اس کا واضح طور پر فرقہ وارانہ رنگ نظر آتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت اس حوالے سے خود اپنے بھی اعدادوشمار لے کر آئے تاکہ صیح صورت حال کا اندازہ ہو۔‘‘

Published: undefined

ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ ایک نیا رجحان ہے، جس سے ملک میں بڑھتی ہوئی فرقہ واریت کا بھی اندازہ ہوتا ہے۔ ''یورپ نے فرقوں کی بنیاد پر اسی لاکھ افراد کو موت کے گھاٹ اتارا لیکن پھر انہوں نے فیصلہ کیا کہ رواداری کو اپنایا جائے اور مذہب کو فرد کا ذاتی معاملہ قرار دیا جائے۔‘‘

Published: undefined

پنجاب اسمبلی کا قانون

Published: undefined

کئی ناقدین کا خیال ہے کہ پنجاب اسمبلی کی طرف سے منظور کئے گئے ایک مذہبی بل نے ایسے افراد کی حوصلہ افزائی کی ہے، جو فرقہ وارانہ بنیادوں پر اس طرح کے مقدمات قائم کرنے کے خواہاں ہیں۔

Published: undefined

تحفظ بنیاد اسلام بل دوہزار بیس گزشتہ برس پنجاب اسمبلی میں پیش کیا گیا تھا۔ یہ بل پنجاب اسمبلی نے گزشتہ برس جولائی میں منظور کیا تھا، جس کے بعد، ناقدین کے خیال میں، اس طرح کے مقدمات کے اندراج میں تیزی آئی ہے۔ اس بل کو ابھی تک قانونی حیثیت نہیں ملی کیونکہ ملک کے کئی حلقوں نے اس بل کی مخالفت کی، جس کے بعد گورنر پنجاب نے اس پر ابھی تک دستخط نہیں کئے ہیں۔ تقریبا دو سو کے قریب مورخین، وکلا، سیاسی کارکنان اور دیگر افراد نے اس بل کے خلاف پنجاب اسمبلی کو گزشتہ برس ایک خط بھی لکھا تھا۔

Published: undefined

انسانی حقوق کے کارکن راشد رضوی کا خیال ہے کہ اس بل نے فرقہ وارانہ عناصر کی حوصلہ افزائی کی۔ ''پولیس نے ان ہی کے دباؤ پر ایسے مقدمات درج کئے۔ یہاں تک کہ کچھ بچوں پر بھی ایسے مقدمات درج ہوئے اور انسداد دہشت گردی کی دفعات کا بھی اضافہ کیا گیا تاکہ نہ صرف یہ کہ ضمانت نہ ہو سکے بلکہ سزاوں کو بھی یقینی بنایا گیا۔‘‘

Published: undefined

انتظامیہ کہاں کھڑی ہے

Published: undefined

کئی انسانی حقوق کی تنظیموں کا دعویٰ ہے کہ ان مقدمات اور واقعات میں انتظامیہ عموماﹰ مذہبی گروہوں کے دباؤ میں آجاتی ہے۔ پیٹر جیکب کا کہنا ہے کہ اس طرح کے مقدمات کے اندراج سے پہلے ایس ایس پی لیول کے افسر کی طرف سے تفتیش ضروری ہے۔ ''لیکن پولیس افسران ان معاملات میں ڈر جاتے ہیں کیونکہ الزام لگنے کے فوراﹰ بعد تھانے کا گھیراؤ کر لیا جاتا ہے تو پولیس مجمع کو منتشر کرنے کے لئے یا ان کا ٹھنڈا کرنے کے لیے مقدمہ فورا درج کر لیتی ہے۔ یہاں تک کہ اگر کوئی افسر تفتیش بھی کرے تو پولیس کی قانونی برانچ اسے مقدمہ درج کرنے کا مشورہ ہی دیتی ہے۔‘‘

Published: undefined

راشد رضوی کا کہنا ہے کہ اب یہ رجحان بن گیا ہے کہ الزام لگاؤ اور پھر پولیس کا گھیراؤ کرو۔ ''ہم یہ کہتے ہیں کہ ایف آئی آر درج کرنے سے پہلے عدالت سے اجازت لی جائے اور وہ اس کی بھرپور تفتیش کرائے۔ ہم دیکھ چکے ہیں کہ آسیہ بی بی اور دوسرے مقدمات میں کیا ہوا۔ ایسے بیشتر مقدمات صرف ذاتی عناد اور چھوٹے موٹے جھگڑوں کی بنیاد پر قائم کئے جاتے ہیں۔‘‘

Published: undefined

غلط استعمال کو روکنے کی ضرورت

Published: undefined

انسانی حقوق کمیشن کے سابق سربراہ ڈاکٹر مہدی حسن کا کہنا ہے کہ اس طرح کے قوانین کے غلط استعمال کو روکنے کے لیے سخت سزائیں ہونی چاہیے۔ ''اس طرح کے مقدمات میں جن افراد کے خلاف سب سے زیادہ مقدمات درج ہوئے ہیں، وہ خود مسلمان ہیں۔ سات مسلمانوں کو، جن پر یہ الزامات تھے، عدالت سے آتے ہوئے یا جاتے ہوئے یا باہر قتل کردیا گیا۔ سپریم کورٹ نے ابھی تک کسی ایسی سزا کو برقرار نہیں رکھا۔ نچلی عدالتیں سزائیں ضرور دیتی ہیں لیکن وہاں خوف و دباؤ کا عنصر ہوتا ہے۔‘‘

Published: undefined

ان کا مزید کہنا تھا کہ اس کو روکنے کے لیے جو شخص غلط الزام لگائے اس کے خلاف بھی سخت سزا ہونی چاہیے۔ ''ماضی میں ایسی تجاویز آئیں کہ الزام لگانے والے کا اگر الزام غلط ثابت ہوجائے تو اسے سخت سزا دی جائے لیکن مذہبی تنظیموں کی طرف سے اس کی بھرپور مخالفت کی گئی۔ لیکن بڑھتے ہوئے واقعات اس بات کے متقاضی ہیں کہ اس کے غلط استعمال کو ہر صورت روکا جائے۔‘‘

Published: undefined

پیڑ جیکب کا کہنا ہے کہ اس کے غلط استعمال کے خلاف بھرپور بیانیہ آنا چاہیے تاکہ حکومت مناسب اقدامات اٹھا سکے۔

Published: undefined

حکومت کا موقف

Published: undefined

حکومت کا کہنا ہے کہ وہ اس قانون کے غلط استعمال کو روکنے میں کوشاں ہے۔ وزیر اعظم کے مشیر برائے مشرقی وسطیٰ اور بین المذاہب ہم آہنگی طاہر اشرفی کا کہنا ہے کہ ان کے ادارے نے اس حوالے سے ایک طریقہ کار واضح کر دیا ہے۔ ''ہم نے علما کی ایک کمیٹی بنائی ہوئی ہے، جو اس طرح کے واقعات کی تفتیش کرتی ہے۔ اگر کسی کو لگتا ہے کہ اس قانون کا غلط استعمال ہورہا ہے۔ تو وہ پاکستان علماء کونسل یا مجھ سے رابطہ کر سکتے ہیں۔ ہم سب کو پاکستان کا شہری سمجھتے ہیں اور کسی کے ساتھ بھی زیادتی نہیں ہونے دیں گے۔‘‘

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined